تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-08-2022

کیا یونہی دن گزر جائیں گے؟

سورج روز طلوع ہوتا ہے اور روز غروب بھی ہو رہتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دن گزرتے جاتے ہیں۔ بچپن اور لڑکپن کے ادوار گزرتے ہیں، عنفوانِ شباب کی منزل آتی ہے، پھر شباب آتا ہے اور اِس کے بعد ادھیڑ عمر کے مرحلے سے ہوتے ہوئے ہم بڑھاپے کی سمت بڑھتے جاتے ہیں اور یوں موت ہمیں آلیتی ہے۔ اگر کوئی متوجہ نہ ہونا چاہے، سنجیدگی کو اپنا بنیادی شعار نہ بنائے تو زندگی ایسی نعمت آنکھوں کے سامنے شروع ہوتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خاتمے کی منزل تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ حیرت اس بات پر نہیں ہے کہ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو جاتی ہے۔ اصل حیرت اور تاسّف تو اس بات پر ہے کہ لوگ یہ پورا تماشا دیکھتے ہیں اور کچھ سیکھنے، اپنے آپ کو بدلنے کے بارے میں سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
زندگی بات بات پر، قدم قدم پر سنجیدگی کی طالب رہتی ہے۔ عام آدمی زندگی بھر سنجیدگی کے اُس درجے میں داخل نہیں ہو پاتا جو زندگی کو حقیقی مفہوم میں بامعنی اور بامقصد بناتا ہے۔ یہ معاملہ چونکہ محنت طلب بھی ہے اور توجہ کا متقاضی بھی اس لیے لوگ یہ بھاری پتھر اٹھانے کے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ کسی نہ کسی طور اس پتھر کو اٹھانے کا ارادہ کر بھی لیں تو چوم کر رکھ دیتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ لوگ عمومی سطح پر رہتے ہوئے جینا پسند کرتے ہیں مگر تھوڑی سی توجہ دے کر اپنے معاملات کو درست کرنے کا ذہن نہیں بناتے۔ یوں زندگی میں وہ سب کچھ پیدا نہیں ہو پاتا جو پیدا کیا جاسکتا ہے۔ یہ خوف اور تساہل کا ملا جلا معاملہ ہے۔ لوگ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ زندگی کا نیا سانچا اور ڈھانچا تلاش کرنے کی کوشش میں وہ بھی ہاتھ سے نہ جاتا رہے جو سرِدست ہاتھ میں ہے۔ یہ بات کم لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے کہ خطرات مول لیے بغیر بڑی کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔ اگر کچھ پانا ہے تو کچھ کھونے کے لیے بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔
زندگی کا عجیب ترین پہلو یہ ہے کہ یہ دیکھتے ہی دیکھتے خاتمے کی طرف چل دیتی ہے۔ جو لوگ کچھ بننے کا سوچتے ہیں اُن کے لیے لمحہ لمحہ قیمتی ہوتا ہے اور ذہن و دل پر دباؤ بھی ڈالتا ہے۔ جو یہ طے کرلیں کہ کچھ کرنا ہی نہیں اور خالص حیوانی سطح پر جینا ہے اُن کے لیے زندگی کبھی امتحان میں تبدیل نہیں ہوتی۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ ایسے لوگ کب جینا شروع کرتے ہیں اور کب مر جاتے ہیں۔ اپنے اطراف کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر لوگ زندگی کی قدر و قیمت سے یکسر بے خبر و بے نیاز رہتے ہوئے جی رہے ہیں۔ یہ انتہائی عمومی سطح کی زندگی بہت سوں کے لیے سب کچھ ہے کیونکہ اِس سے آگے بڑھنے کا انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ وہ کبھی اس بات کے خواہش مند نہیں ہوتے کہ کچھ سوچا جائے، کچھ کیا جائے۔ ہر انسان میں قدرت کی طرف سے ایک خواہش تو رکھی گئی ہے اور وہ خواہش ہے یاد رکھے جانے کی۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ جب وہ دنیا سے جائے تو اُسے کسی نہ کسی حوالے سے یاد رکھا جائے۔ اس خواہش کو پوری شدت کے ساتھ کم ہی لوگ محسوس کر پاتے ہیں اور اپنا نام زندہ رکھنے کے حوالے سے کچھ کرنے کا سوچتے ہیں۔ عمومی سطح پر لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کچھ بننے اور کر دکھانے کے لیے بھرپور جذبے کے ساتھ کی جانے والی مشقت کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بے دِلی اور بے حسی کے ساتھ گزاری جانے والی زندگی اپنی اصل میں تو زندگی ہوتی ہی نہیں۔ آج ہمارے ہاں زندگی کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کے چلن کا بھی چل چلاؤ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نئی نسل کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ جس دور سے وہ گزر رہی ہے اُس کے فوراً بعد سنجیدگی کے ساتھ جینے کی منزل آئے گی اور اس وقت کے لیے ابھی سے سوچنا لازم ہے۔
دنیا بھر میں اکیسویں صدی کے آغاز ہی سے نئی طرزِ زندگی کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرنے کا تھوڑا بہت ذوق و شوق ضرور پیدا ہوا ہے مگر ہمارے ہاں اب تک ایسے کسی بھی رجحان کے آثار نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنجیدگی کے حوالے سے مزاج میں بیگانگی کا عنصر بڑھتا جارہا ہے۔ بیشتر معاملات میں مجموعی یا اجتماعی رویہ یہ ہے کہ سنجیدگی کو قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے۔ لوگ سنجیدگی سے محض بیزار ہی نہیں بلکہ خوفزدہ بھی ہیں۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ سنجیدگی کو گلے لگانے کی صورت میں کوئی بہت بڑا نقصان واقع ہوگا اور زندگی وہ نہ رہے گی جو ہم بنانا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔
ایک زمانے سے ہمارے ہاں زندگی کو کماحقہٗ وقعت دینے اور اہم گرداننے کے رجحان کی راہ دیکھی جارہی ہے مگر یہ ایسا رجحان ہے کہ پیدا ہو رہا ہے نہ کہیں سے آرہا ہے۔ دنیا بھر کے رجحانات ہمارے ہاں صرف قبول ہی نہیں کیے گئے بلکہ پروان بھی چڑھائے جارہے ہیں۔ ہمارے ماحول میں ایسا بہت ہے جو ہمارے مزاج سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا مگر پھر بھی ہم اُس سے دامن چھڑانے پر آمادہ نہیں۔ اگر کچھ نہیں ہو رہا تو بس یہ کہ زندگی کے بارے میں سنجیدگی کو گلے نہیں لگایا جارہا۔
سلسلۂ روز و شب کو محض تماشائی کی حیثیت سے دیکھتے رہنے کے بجائے اُس کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے فعال کردار ادا کرنے کے بارے میں سوچنے کا رجحان پیدا کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ یہ کام جس قدر جلد ہو پائے اُتنا ہی اچھا۔ معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ جتنی بھی خرابیاں پائی جارہی ہیں اُنہیں دور کرنے کی ذہنیت پروان چڑھانے کے بجائے اُن سے محظوظ ہوا جائے۔ اس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب ہر طرف صرف اور صرف حَظ اٹھانے والے پائے جارہے ہیں۔ اپنے اور دوسروں کے بارے میں سوچنے والے خال خال ہیں اور اُنہیں بھی تحسین و احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ نئی نسل عمومی سطح پر بالکل غیر سنجیدہ ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ غیر سنجیدہ ہونے والوں کی بے توقیری دیکھ کر بھی سنجیدہ ہونے کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کی راہ پر گامزن ہے۔
ایک قوم کی حیثیت سے کچھ کر دکھانے اور ابھرنے کی اب یہی ایک صورت بچی ہے کہ ہم اپنے انفرادی وجود کے حوالے سے سنجیدہ ہوں۔ جب سنجیدگی کو حرزِ جاں بنایا جائے گا تب کچھ کرنے کا ذہن بن پائے گا۔ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ ہم محض پیچھے نہیں کھڑے بلکہ پیچھے جارہے ہیں۔ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ مقابلہ کیسا ہی سخت ہو، اگر کسی نے کچھ کرنے کی ٹھان لی ہے تو اُس کے لیے کچھ نہ کچھ کر دکھانے کی گنجائش پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں جو لوگ آج بے مثال کامیابی سے ہم کنار ہیں اگر انہوں نے بھی ابتدائی مرحلے میں ہمت ہارنے کی غلطی کی ہوتی تو آج کوئی اُن کا نام بھی نہ جانتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی راہ دکھائی نہ دے رہی ہو تب اب اپنے لیے نئی راہ نکالنا ہی حقیقی دانش مندی ہوتی ہے۔ جو لوگ ایسا کر پاتے ہیں وہی آگے بڑھ پاتے ہیں۔
ہم محض جی نہیں رہے بلکہ ایک بدلی ہوئی اور مزید بدلتی ہوئی دنیا میں جی رہے ہیں۔ اس عہد کا انتہائی بنیادی تقاضا ہے کہ تبدیلی کو محض شناخت نہ کیا جائے بلکہ اُس کے تقاضے نبھانے کی کوشش بھی کی جائے۔ ہر ترقی یافتہ معاشرہ اپنی اصل میں ایسا معاشرہ ہے جس نے ہر سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو ہنستے ہوئے گلے لگایا ہے، خود کو بدلنے پر توجہ دی ہے اور یہ سب کچھ سنجیدگی اور بُرد باری کی مدد سے ہو پایا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دنیا مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ جو لوگ زندگی کو محض تماشا سمجھتے ہیں اُن کے لیے دنیا کی ہر شکل انتہائی پیچیدہ ہوتی ہے۔ بے دِلی کے ساتھ جینے کو جینا سمجھنا ہی نہیں چاہیے۔ زندہ وہ ہیں جن کے دل و دماغ زندہ ہوں۔ محض سانسوں کا تسلسل حقیقی زندگی نہیں۔ اس خالص حیوانی سطح سے بلند ہوکر اپنے آپ کو ایک ایسی زندگی کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں دن محض گزر نہ رہے ہوں بلکہ بروئے کار بھی لائے جارہے ہوں۔ آپشن اگر کوئی ہے تو بس یہ کہ ڈھنگ سے جیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved