سیلاب کی آفت معمولی نہیں۔ تعمیرِ نو کے لیے ملک کو ایک مارشل پلان کی ضرورت ہے۔
اس سیلاب کا موازنہ 2010ء میں آنے والے سیلاب سے کیا جا رہا ہے جب سندھ کے تیس اضلاع‘ کم و بیش پورا بلوچستان اور جنوبی پنجاب اس کی زد میں تھے۔ آج بھی یہ سب علاقے سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔ اب تک 903 اموات رپورٹ ہو چکیں اور ہم جانتے ہیں کہ ایسے حادثات میں صحیح اعداد و شمار‘ اُس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں جتنے رپورٹ ہوتے ہیں۔ جو بظاہر زندہ ہیں‘ انہیں زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے جو وسائل چاہئیں‘ ان کی فراہمی کا سرِدست اہتمام نہیں ہو سکا۔ ہمارے لیے اہم سوال یہی ہے کہ یہ کیسے ہو سکے گا؟
جنگِ عظیم نے جب یورپ کو برباد کردیا تو اس کی تعمیرِ نو کے لیے امریکہ نے ایک مارشل پلان کا اعلان کیا۔ مغربی یورپ کو نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس چار سالہ پروگرام کا آغاز 1948ء میں ہوا۔ اُس و قت اس مقصد کے لیے پندرہ بلین ڈالر مختص کیے گئے۔ برباد بستیاں نئے سرے سے آباد ہوئیں اور جدید خطوط پر۔ ایک طرف تاریخی ورثے کو محفوظ بنایا گیا اور دوسری طرف تعمیرات میں نئے تجربات کیے گئے۔
اس منصوبے کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ منفی بھی اور مثبت بھی۔ یہ کہا گیا کہ اس کے آغاز سے پہلے ہی‘ یورپی ممالک تعمیرِ نو کے سفر پر روانہ ہو چکے تھے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اعتراف کیا جاتا ہے کہ اس پروگرام کا مثبت اثر ہوا اور آخری سال 1952ء میں متاثرہ ممالک میں ترقی کی شرح‘ اُس سے زیادہ تھی جو اِس بحران سے پہلے تھی۔ تعمیرِنو کا یہ عمل ارادے‘ عمل اور تعاون کا اچھا امتزاج تھا۔ ہمیں اس تجربے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ایک ادارہ موجود ہے۔ اسے اب تین سمتوں میں منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ایک تو یہ کہ تعمیرِ نو کا کام کتنے مراحل اور کتنے عرصے میں مکمل ہو گا۔ دوسرا یہ کہ اس کی تکمیل کی ذمہ داری کس کو دی جائے؟ تیسرا یہ کہ اس کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ کوئی سوال‘ اہمیت میں دوسرے سے کم نہیں۔
عقلِ عام یہ کہتی ہے کہ اس کام کو تین مراحل میں تقسیم کر دیا جائے۔ سب سے پہلے تو متاثرین کی فوری ضروریات کو مخاطب بنایا جائے۔ ان میں کھانا‘ رہائش اور بیماریوں وغیرہ سے حفاظت سب سے اہم ہیں۔ اس میں ظاہر ہے کہ ایک دن کی بھی تاخیر نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں معلوم ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کام شروع ہے لیکن اسے زیادہ منظم کر نے کی ضرورت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب سندھ کے مزید علاقے بھی اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ دوسرا مرحلہ ہے‘ معمولاتِ زندگی کی عارضی بحالی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جیسے ہی پانی اترے‘ لوگوں کی رہائش‘ تعلیم اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اس کے لیے کم ازکم ایک سال کے لیے منصوبہ بنانا ہوگا۔
تیسرا مرحلہ اہم تر ہے اور اس کے لیے تین سال کی مدت رکھی جا سکتی ہے۔ یہ نئی بستیوں کا قیام ہے۔ بربادی تو ہو چکی۔ اب لازم ہے کہ متاثرہ علاقوں میں جدید طرز کی بستیاں آباد کی جائیں جیسے 2005 ء کے زلزلے کے بعد کشمیر میں کی گئی تھیں۔ اُس وقت ترکی کی ایسی تعمیراتی کمپنیاں بروئے کار آئیں جو نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے کم لاگت کے گھر بناتی تھیں۔ اب قدرت نے موقع دیا ہے تو بلوچستان اور سندھ میں ایک بالکل نئے تعمیراتی ماڈل پر کام کیا جائے۔ اس میں موسم اور دریاؤں وغیرہ کے بہاؤ کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ اس منصوبے کے تحت‘ بستیوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بنانا ہوں گے۔ اس کے ساتھ اب زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے۔ اس سے قدیم محرومیوں کے ا زالے کی بھی ایک صورت نکل سکتی ہے۔
یہ کام کون کرے؟ میری تجویز ہوگی کہ اس کی نگرانی صوبائی حکومتوں کے پاس ہو اور اس میں سول سوسائٹی کے اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کو شامل کیا جائے جو تعمیرِ نو اورعوامی بہبود کے شعبوں میں کام کرتی ہیں۔ عالمی سطح پر جو ادارے اس تعمیرِ نو کے منصوبے کے لیے وسائل فراہم کریں‘ انہیں اس کا حصہ بنایا جائے۔ اس سے ایک طرف شفافیت پیدا ہو گی اور دوسری طرف سب کو ضروریات کا براہ راست اندازہ ہوگا۔
اس منصوبے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ ہمارے پاس تین ذرائع ہیں۔ ایک تو حکومت۔ دوسرے عوام اور تیسرا بین الاقوامی دنیا۔ حکومت کے پاس قدرتی آفات کے لیے فنڈز ہوتے ہیں۔ انہیں اس تعمیرِ نو کے لیے مختص کیا جائے۔ عوام جن سماجی اداروں پر اعتماد کرتے ہیں‘ وہ انہیں زرِ تعاون دیں جو اس منصوبے کا حصہ ہوں۔ الخدمت، اخوت اور ایدھی فاؤنڈیشن جیسے ادارے یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے بین الا قوامی سطح پر امداد کی اپیل کی جائے۔ ڈونرز کانفرنس کا فیصلہ درست سمت میں ایک قدم ہے۔ یورپی یونین نے 76ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے دائرے کو وسعت دی جائے اور دوسروں کو بھی اس میں شریک کیا جائے۔
ابتدائی قدم وفاقی حکومت کو اٹھانا ہوگا۔ افسوس ناک سیاسی تقسیم کی موجودگی میں صوبائی حکومتوں کے مابین تعاون پیدا کرنا ایک مشکل عمل ہے مگر امید کرنی چاہیے کہ ہماری سیاسی قیادت‘ عوامی مفاد کے لیے‘ گروہی مفادات سے اوپر اٹھ سکتی ہے۔ وزیراعظم کی صدارت میں تمام وزرائے اعلیٰ کا اجلاس ہونا چاہیے اور اس میں سیلاب کی آفت سے نمٹنے کے لیے ایک منصوبے کی منظوری دینی چاہیے۔
این جی اوز اور دوسرے ادارے ایسے مواقع پر بروئے کار آتے ہیں جو قابلِ تحسین ہے۔ اس کا فائدہ ہوتا ہے لیکن یہ نقصان معمولی نہیں۔ اس کا ازالہ بھی چند دن میں نہیں ہو سکتا۔ یہ تنظیمیں اور ادارے عارضی ریلیف میں مدد دے سکتے ہیں مگر ان علاقوں کو ایک بڑے تعمیراتی منصوبے کی ضرورت ہے جسے میں مارشل پلان کی مثل قرار دے رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ وسائل کے صحیح استعمال کے لیے مرکزی سطح پر منصوبہ بندی ضروری ہے۔
علامہ اقبال نے طالب علم کے لیے دعا مانگی تھی کہ خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے۔ وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات طوفان بقا کے لیے جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے جو عام حالات نہیں کر سکتے۔ یوں طوفان ایک نعمت بن جاتا ہے۔ مشکل حالات میں چھپی صلاحیتیں ظاہر ہوتی ہیں اور انسان کارہائے نمایاں سر انجام دیتا ہے۔ کیا معلوم قدرت کو ہم پر ترس آیا ہو اور یہ سیلاب ہمیں اس تقسیم سے نکال سکے جو بے رحم گروہی سیاست نے پیدا کر دی ہے۔ ہماری خوابیدہ صلاحیتیں بھی بیدار ہو جائیں۔ ہم قومی تعمیرِ نو کے کسی پروگرام پر متفق ہو جائیں اور اپنی ترجیحات کا درست تعین کر سکیں۔
دنیا میں اس کی مثالیں موجود ہیں جب اقوام نے چیلنج کو موقع جانا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔ ماؤ کا مشہور قول ہے کہ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدل دو۔ جنگِ عظیم نے جاپان کو برباد کر دیا۔ اس نے مگر اسے اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیا۔ جاپانی قوم کھڑی ہوئی اور آج اس کا شمار امداد دینے والی اقوام میں ہوتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے جزائر میں آئے دن سونامی اور طوفان آتے ہیں۔لوگ مگر ہر طوفان کے بعد نئے عزم سے کھڑے ہوتے اور تعمیرِ نو میں لگ جاتے ہیں۔
اور اگر طوفان بھی ہمارے بحر کی موجوں میں اضطراب پیدا نہ کر سکیں تو ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ یہ بحرِ مردار ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved