مجھے پاکستانی صحافت پر ہمیشہ فخر رہا ہے۔ ایک صحافتی کارکن ہونے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ قومی میڈیا نے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں۔ کبھی آمریت کے دور میں کلمۂ حق بلند کیا توکبھی نام نہاد جمہوریتوں میں تمام تر دباؤ کے باوجود بھی سچ کہنے سے گریز نہیں کیا۔ میڈیا عام پاکستانی کی آواز بنا اور اقتدار کی غلام گردشوں کے مکینوں کو ان کی بات سننے پر مجبور کیا۔ لیکن اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ شاید میڈیا کا کچھ حصہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غافل ہو چکا ہے۔ عام آدمی کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ وہ زندگی و موت کی کس کشمکش میں مبتلا ہے؟ وہ اپنے لاغر جسم کو سانس کی ڈوری سے کیسے جوڑے ہوئے ہے؟ اس سے قطع نظر اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شہباز گل کس حال میں ہے‘ اس نے آج کیا کھایا؟ اس کے کمرے سے کیا ملا؟ عمران خان کب گرفتار ہوں گے؟ وہ کب نااہل ہوں گے؟ سوشل میڈیا پر اچھی ریٹنگ اورزیادہ ویوز لینے کے چکر میں لگی دوڑ کی وجہ سے سیلاب سے نبرد آزما کروڑوں پاکستانی جس طرح نظر انداز ہو رہے ہیں‘ اس سے دل دکھتا ہے کہ کیا ہم واقعی ایک زندہ قوم ہیں؟ کیا ہمارا مقصدِ حیات زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہی رہ گیا ہے؟ جبکہ دوسری طرف گلگت سے لے کر کراچی تک لوگ بلک رہے ہیں‘ ان کے سر سے چھت تو گئی ہی ‘ وہ دو وقت کی روٹی اور صاف پانی کو بھی ترس رہے ہیں۔ ہر سیلابی ریلا روزانہ درجنوں لاشیں اگل رہا ہے‘ لیکن یہ تیرتی ہوئی لاشیں بھی ہماری اس بے حسی کو نہیں توڑ پا رہیں جو بطور قوم ہمارے مزاج پر چھا چکی ہے۔
اس وقت پاکستان کو اپنی تاریخ کی بدترین قدرتی آفت کا سامنا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ 1970ء میں مشرقی پاکستان کا بدترین سیلاب ہو‘ 2005ء کا زلزلہ ہو یا پھر 2010ء کا سیلاب‘ موجودہ قدرتی آفت ان سب سے کئی گنا بڑی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ایسا ماحولیاتی تغیر لائی ہے کہ اس سال مون سون بارشیں ہم پر قیامت بن کر برس رہی ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے 14 جون سے اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 2 ماہ کے دوران ملک بھر میں سیلاب اور بارشوں کے باعث 903 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں اور ان بارشوں سے ملک کے 109 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ اندازاً ایک لاکھ 76 ہزار سے زائد مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ 5 لاکھ سے زیادہ مویشی بہہ گئے ہیں۔ سیلاب اور بارش سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبوں میں بلوچستان‘ خیبر پختونخوا اور سندھ شامل ہیں۔ بلوچستان کے 34 اور خیبرپختونخوا کے 33 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ سندھ کے 23 اضلاع کو صوبائی حکومت نے آفت زدہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے 3 اضلاع بھی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے‘ صورتحال سے نمٹنے کے لیے اجلاس بھی منعقد کیے اور متاثرین کے لیے فنڈز بھی مختص کیے۔ لیکن یہ تباہی اب صرف اجلاسوں سے قابومیں آنے والی نہیں۔ آخر کیوں اِس وقت وفاقی و صوبائی وزیر اپنے آرام دہ دفاتر چھوڑ کر متاثرہ علاقوں کے کیمپس میں موجود نہیں؟ کیا اقتدار اور سیاست کے کھیل میں عوام کا کام صرف ووٹ دینا ہی رہ گیا ہے‘ اس مشکل وقت میں اگر وہ حکمرانوں اور لیڈروں سے فریاد کررہے ہیں تو ان کی آواز پر کان کیوں نہیں دھرے جارہے؟ وفاقی حکومت کو فوری طور پر تمام تر دستیاب وسائل سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کا انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ جنوبی پنجاب میں انڈس ہائی وے کا وہ حال ہے کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے‘ وہاں گاڑیاں پانی میں الٹی پڑی ہیں۔ عوام کی دہائیوں کے بعد اب حکمرانوں کو کچھ ہوش آرہا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اپنا اہم بیرونی دورہ ترک کرکے سندھ میں سیلاب متاثرین کی امدادی سرگرمیوں کی نگرانی میں مصروف ہیں۔وہ وفاق اور اقوامِ متحدہ سے امداد کی اپیل بھی کر چکے ہیں۔ ادھر ترجمان حکومت بلوچستان فرح عظیم شاہ کی جانب سے اسلام آباد میں بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کے حوالے سے ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا‘ جس میں اقوام متحدہ کی تمام ایجنسیوں کے کنٹری ڈائریکٹرز‘ سفارت خانوں کے نمائندوں‘ بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں‘ این جی اوز اور متعلقہ حکومتی نمائندوں نے شرکت کی۔
میرا دل اس بات پر کڑھتا ہے کہ ماضی کے برعکس بطور قوم ہم اس قدرتی آفت پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے میں ناکام کیوں رہے ہیں۔ پہلے جب پاکستان میں کوئی آفت آتی تھی‘ عوام اپنی جیبیں الٹ دیتے تھے۔ جگہ جگہ ریلیف کیمپس قائم کیے جاتے تھے جہاں لوگ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے ضرورت کی اشیا جمع کرا تے تھے۔ تاجر برادری اس حوالے سے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کرتی تھی لیکن افسوس‘ لگتا ہے کہ ایثار و قربانی کا یہ جذبہ ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ بدحال معیشت نے لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے ڈال دیے ہیں‘ جو امداد دے سکتے ہیں وہ بھی حالات سے پریشان ہوکر خود غرضی کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں۔ میں تو سابق وزیراعظم عمران خان سے بھی یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ رفاہِ عامہ کے کام ان کی پہچان تھے‘ اسی جذبے کے تحت انہوں نے کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی قائم کیے لیکن اب وہ کیوں خاموش ہیں؟ کیوں وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں معطل کرکے مصیبت زدہ علاقوں میں موجود نہیں؟ ان کی ایک آواز پر جو لاکھوں پاکستانی سڑکوں پر ہوتے ہیں‘ کیوں وہ انہیں سیلاب زدگان کی مدد کا حکم نہیں دے رہے؟ کیا رفاہِ عامہ کے یہ کام اور عوامی خدمت اب ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے؟ کیا اب ان کے دل میں عوام کیلئے کوئی کسک نہیں جس نے انہیں اپنا رہنما اور لیڈر بنایا؟ چلیں باقی تو ان کے بقول‘ ہیں ہی نااہل‘ چور اور لٹیرے‘ لیکن وہ خود کہاں غائب ہیں؟
اس وقت اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ محکمہ موسمیات نے آنے والے دنوں میں سندھ‘ جنوبی پنجاب‘ جنوبی اور شمال مشرقی بلوچستان میں مزید طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کر رکھی ہے‘ یعنی یہ مصیبت ابھی تھمنے والی نہیں۔ قومی ادارے عوام تک ریلیف پہنچانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ اس وقت افواج پاکستان کے 45سو جوان اور افسر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ پاک فضائیہ اور بحریہ بھی میدان میں ہے جبکہ پولیس‘ ریسکیو 1122 اور پی ڈی ایم اے بھی سرگرم عمل ہے۔ بہت سی فلاحی تنظیمیں بھی عوام کی مدد کے لیے کمر بستہ ہیں لیکن شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان امدادی کاموں سے لاتعلق ہے جو تکلیف دہ امر ہے۔ خدارا اپنے سیاسی اور شخصی مفاد پس پشت ڈالیے اور ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے مصیبت زدہ افراد کی مدد کے لیے جو بن پاتا ہے وہ کر گزریے‘ دوسری صورت میں یہ عوام آپ کو معاف کر بھی دیں مگر تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved