تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     25-08-2013

ضمنی نتائج

بائیس اگست کے ضمنی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ان میں حیران کن طور پر وہ لوگ کامیاب ہو ئے جو گیارہ مئی کے انتخابات میں کم ووٹوں سے ناکام ہوئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) نے شمالی اور وسطی پنجاب میں اپنی جیت کا ریکارڈ قائم رکھا ہے لیکن تحریک انصاف کے قدم لاابالی کی وجہ سے لڑ کھڑا گئے جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے تمام نقادوں کے اندازوں کے برعکس فوج کی کڑی نگرانی میں ہونے والے انتخابات میں سندھ اور کراچی کی نشستیں بڑی آسانی اور بہت بڑے مارجن سے اپنے نام کر لی ہیں۔ اس فرق کے بارے میں سوال بار بار اٹھتا ہے کہ پنجاب میں فوج پولنگ اسٹیشنوں سے دور دور اور کراچی میں پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر دونوں جگہ موجود رہی۔ سندھ میں فنکشنل لیگ اور شیرازی برادران کو پی پی پی نے جس طرح شکست دی وہ حیران کن ہے۔ اسلام آباد کی طرف آئیں تو اکیس اگست کی شام تک الیکشن کمیشن کی طرف سے یہی مطالبہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں مقامی تعطیل کا اعلان کیا جائے لیکن الیکشن کمیشن کی درخواست کو رد کرتے ہوئے تمام سرکاری ملازمین کوصبح آٹھ بجے سے ایک بجے تک حاضری کا پابند کیا گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وزارت داخلہ نے پوری کوشش کی کہ سرکاری ملازمین کے علا وہ بینک اور پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والوں کو انتخابی عمل سے دور رکھا جائے لیکن پھر بھی تحریک انصاف کامیاب ہو گئی۔ اس میں تحریک انصاف کی مقبولیت کے علاوہ مسلم لیگ نواز کے اندرونی اختلافات کا بھی حصہ ہے۔ میانوالی اور پشاور سے عمران خان کی خالی کی ہوئی نشستوں پر تحریک انصاف کی بری طرح ناکامی نے ثابت کر دیا ہے کہ عمران خان کی اپنی پارٹی پر نہ تو گرفت ہے اور نہ ہی وہ بہتر فیصلے کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ پشاور کی نشست سے تحریک انصاف کی نا کامی کی کئی وجوہات ہیں جن پر کوئی بات نہیں کر رہا۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ ملک کے لاکھوں نوجوانوں کے جذبات کا خون کر کے اپنے مفادات پورے کر نے میں لگی ہوئی ہے۔حالانکہ یہ نوجوان ہی تھے جن کا نام لے کر یہ پارٹی وجود میں آئی ۔ نوجوانوں کے نام پر نہ صرف اسے دوسرے نمبر پر ووٹ ملے بلکہ انہی نوجوانوں کی عملی کاوش کی وجہ سے یہ انتخابات میں کامیاب بھی ہوئی اور ایک صوبے میں حکومت بھی بنا سکی۔ لاہور کے ایک حلقے میں دھاندلی کے خلاف جو کیمپ لگایا گیا تھا اس میں بھی زیادہ تر نوجوان ہی تھے جو اپنی فیملیوں کے ساتھ کئی دن اور کئی رات وہاں بیٹھے رہے۔ اس دھرنے نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ تحریک انصاف کے نوجوان عملی سیاست میں حصہ لینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان پر مختلف اطراف سے تنقید کی گئی‘ چند ایک جھگڑے بھی ہوئے لیکن یہ نوجوان شہر کے سب سے پوش علاقے میں چٹان بن کر ڈٹے رہے۔ آج جب تحریک انصاف خاطر خواہ کامیابی حاصل کر چکی ہے تو ایسے نوجوانوں کو یقینا دکھ ہوتا ہو گا۔ اس سے زیادہ دکھ ان لوگوں کو ہوتا ہے جنہوں نے اس جماعت سے تبدیلی کی امید لگا رکھی تھی۔ مجموعی طور پر پارٹی کے اقدامات کمزور نہیں لیکن چند ایک جگہوں پر ضروری تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ کچھ لوگوں کو کچھ نہ کرنے پر بہت زیادہ نوازا جا رہا ہے اور کئی کارکن ایسے بھی ہیںجنہیں بہت کچھ کرنے کے باوجود بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے کیونکہ عمران خان جیسے لیڈر کے ہوتے ہوئے پارٹی میں ایسے لوگوں کی موجودگی اور انہیں سراہا جانا سوالیہ نشان ہے۔ اس لیڈر شپ کا حال یہ ہے کہ عمران خان کی ذات پر الزام تراشی کی جاتی ہے یا وزراء کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو تحریک انصاف کے لیڈر خاموش رہتے ہیں۔ جس ادارے‘ حکومت یا سیا سی جماعت کا میڈیا سیل فعال نہ ہو ان کی کارکردگی متاثر ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے میڈیا سیل میں بیوروکریسی کی طرز پر کام کرنے والے بابو میں جو تحریک انصاف کا وہی حال کر رہے ہیں جو اس ملک کے عوام کا کرتے رہے۔ سرفرازعمر چیمہ اور عمر گوندل جیسے کارکنوں کو منا سب مقام نہیں دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور پاکستان کا دل ہے۔ لاہور کا موچی دروازہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ پشاور کا قصہ خوانی با زار بھی ملکی ثقافت اور سیا ست میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ تحریک انصاف کی قیا دت بھول گئی کہ لاہور کی طرح خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر مقام سے جو تحریک اٹھتی ہے اس کا اثر بھی پورے ملک پر پڑتا ہے۔ ہندوستان پر حملہ آور اپنا آغاز خیبر کرتے تھے۔ ضمنی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی داخل ہونے سے بہت پہلے سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ خیبر پختونخوا میں عمران خان کی تحریک انصاف کے مقابلے میں نو سیا سی جماعتوں پر مشتمل ایک نیا اتحاد وجود میں آنے والا ہے جس میں مسلم لیگ نواز، تحریک طالبان، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ایف، اے این پی،ایم کیو ایم،جمعیت اہل حدیث، سپاہ صحابہ ،سنی تحریک ا ور رویت ہلال کمیٹی کے لوگ شامل تھے۔ شیر پائو کی قومی وطن پارٹی بھی تحریک انصاف کے خلاف مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کر چکی تھی۔ اس سیاسی اتحاد کی تحریک انصاف کے غیر سنجیدہ لوگوں نے کوئی پروا نہ کی۔ گل بادشاہ کو ٹکٹ جاری ہونے سے پہلے ہی ا س کے متعلق افغان شہری ہونے کے علاوہ کئی ناگفتہ بہ داستانیں زبان زد تھیں۔ پارٹی قیا دت کو چاہیے تھا کہ وہ کسی غیر متنازعہ شخصیت کا انتخاب کرتی لیکن کیونکہ مبینہ طور پر عمران خان کے ایک قریبی رشتہ دار سے گل بادشاہ کی ذاتی دوستی تھی اس لیے ایک نیا زی کو خوش کرنے کیلئے اُسے ٹکٹ دے دیا گیا۔ اس حلقے کے ضمنی انتخاب کو نہ تو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی دوسرے قائدین نے بلکہ یہ سب اپنی خالی کی ہوئی نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے والے اپنے رشتہ داروں کی کامیابی میں مصروف رہے۔ گیارہ مئی کے انتخابات میں اے این پی کے غلام بلور نے24449‘ پی پی کے ذوالفقار افغانی نے7116‘ جے یو آئی (ف) کے شاہ نواز نے4729 اور نواز لیگ کے افضل نے4230 حاصل کئے تھے۔ ان کے مقابلے میں عمران خان کے ووٹ90434 تھے۔ ضمنی الیکشن میں اے این پی کے غلام بلور نے نو جماعتوں کے تعاون سے 34380 ووٹ حاصل کیے۔ بتایا گیا ہے کہ ضمنی انتخاب کے روز پشاور میں امن و امان کی صورت حال یہ تھی کہ اے این پی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کے کارکن مسلح افراد کے ہمراہ ہر پولنگ اسٹیشن پر دھاوے بول رہے تھے اور پولیس دور کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ خواتین کے چالیس کے قریب پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور ان کے ارد گرد خوف اور دہشت کی فضا بنا دی گئی تھی۔ عورتیں پولنگ اسٹیشن چھوڑ کر بھاگ گئیں اور تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہوتے ہوئے بھی ان کی خواتین پولنگ ایجنٹس کو بھی بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ مناظر پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا نے بار بار دکھائے۔ عمران خان میانوالی کی اپنی اس نشست سے محروم ہو گئے جس پر وہ2002ء کے انتخابات میں اپنی جماعت تحریک انصاف کے واحد رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ یہ نشست انہوں نے اس طرح ہاری ہے جس طرح ڈیرہ غازی خان میں سردار ذوالفقارعلی خان کھوسہ اور راجن پور میں میاں شہباز شریف نے ہاری ہیں۔ خیبر پختونخوا کے دو حلقوں کے انتخابی نتائج اس وجہ سے روک دیے گئے کہ وہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا جبکہ میانوالی اور حافظ آباد میں مشترکہ جرگہ اور پنچایت کے حکم پر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی خبریں تمام دن ٹی وی کی سکرینوں پربراہ راست دکھائی جاتی رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved