2018ء میں جب تحریک انصاف نے وفاق میں حکومت بنائی تھی تو ملک کا معاشی منظر نامہ آج سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ حکومت بنتے ہی سب سے پہلے بیرونی قرضوں کا انتظام کیا گیا۔ سعودی عرب، قطر اور چین سمیت دوست ممالک کے دورے کیے گئے جن سے عارضی طور پر معاشی صورتحال بہتر ہوئی۔ حکومت کو کچھ سکھ کا سانس میسر آیا تو وہ اپوزیشن کے احتساب کے نام پر پرانے کیسز کی بنیاد پر کارروائی میں تیزی لے آئی۔ ا س دوران کچھ نئے کیسز بھی بنائے گئے اور پھر گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ وہ ان کیسز میں کچھ ریکوری کر کے عوام میں سرخرو ہو جائے گی لیکن اسے جلد ہی احساس ہو گیا کہ ریکوری میں کامیابی ممکن نہیں۔ اپوزیشن رہنمائوں کی ضمانتیں ہونے لگیں تو عوام میں یہ تاثر تقویت اختیار کر گیا کہ حکومت احتساب نہیں کر رہی بلکہ انتقام لے رہی تھی۔ نتیجتاً تحریک انصاف کی شہرت کا گراف نیچے گرنے لگا اور احتساب کے غبارے میں سے بھی ہوا نکل گئی۔ موجودہ حکومت کو ماضی سے سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن یہاں یہی روایت رہی ہے کہ سیاستدان اکثر اوقات سیاسی نظام کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے کمزور کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں۔ دہائیوں کے سیاسی تجربات سے بھی کچھ نہیں سیکھا گیا۔ آج بھی جھوٹے‘ سچے کیسز بن رہے ہیں‘ تحریک انصاف کی قیادت اور سرکاری افسران پر کیسز بنائے جا رہے ہیں، ان کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ ملک کی ترقی کے حوالے سے جو اقدامات ہونے چاہئیں تھے ان کے آثار ابھی تک دکھائی نہیں دے رہے۔ جو وقت معاشی حالت بہتر کرنے میں لگایا جانا چاہیے تھے‘ وہ شاید تحریک انصاف کی قیادت اور اس کے حامیوں کے خلاف کیسز بنانے میں صرف ہو رہا ہے۔ دوسری طرف پبلک اکائونٹس کمیٹی نے سابق چیف جسٹس‘ جسٹس (ر) ثاقب نثار کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ ڈیم فنڈز اکٹھا کرنے کیلئے انہوں نے تقریباً 14 ارب روپوں کی اشتہاری مہم کیوں چلائی۔ الزام ہے کہ ڈیم فنڈ میں محض 10 ارب اکٹھے ہوئے اور اشتہارات 14 ارب کے چلائے گئے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 14 ارب روپوں کے اشتہاروں کی قیمت حکومت کی جانب سے ادا کی گئی تھی یا پھر میڈیا نے یہ اشتہار مفت چلائے تھے؟ اس کے علاوہ اس پہلو پر بھی بات کی جانی چاہیے کہ اگر اشتہاری مہم چلانے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے تو کیا یہ کوئی جرم ہے؟ پاکستان میں بیشمار سرکاری محکمے اربوں روپوں کی ادائیگیاں کر کے اشتہار چلاتے ہیں‘ کیا کبھی یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ اس سے کتنا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان؟ اور کبھی ایسے نقصان کی نشاندہی پر کسی محکمے کے ڈی جی یا متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے؟ جب بھی روایت سے ہٹ کر کیسز بنائے جائیں گے انہیں سیاسی انتقام کے زمرے میں ہی گردانا جائے گا جس سے بچنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بلین ٹری سونامی منصوبے کے حوالے سے بھی نیب کو ہدایات کی ہیں کہ جلد از جلد تحقیقات مکمل کی جائیں۔ چیئرمین نیب نے کارروائی تیز کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ میں ہر گز یہ کہنا نہیں چاہتا کہ عوامی ٹیکس کے پیسوں کے غلط استعمال کی تحقیقات نہ کی جائیں لیکن صرف ایسے کیسز پر کارروائی کرنا جو اپوزیشن سے متعلقہ ہیں‘ سیاسی پوزیشن کے غلط استعمال کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ دیگر کئی معاملات پبلک اکائونٹس کمیٹی کی توجہ کے متقاضی ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان کے دورۂ ترکی کے حوالے سے ان کی ایک قریبی شخصیت کا نام سامنے آ رہا ہے‘ مبینہ طور پر جس نے اہم ملکی معاہدوں میں بھی شرکت کی اور جسے درآمدات کے حوالے سے ٹیکس چھوٹ بھی دی جا رہی ہے۔ ایسے کئی معاملات ہیں جن پر اداروں کو تحقیقات کا حکم دیا جانا چاہیے تا کہ عوام کو یہ یقین ہو سکے کہ ان کے ٹیکس کے پیسے ذانی اَنا کی تسکین اور سیاسی انتقام کے بجائے ملکی فلاح پرخرچ ہو رہے ہیں۔ پی اے سی نے سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو بھی طلب کر رکھا ہے اور پیش نہ ہونے پر ان کے وارنٹِ گرفتاری جاری کرنے اور نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعظم عمران خان پر دہشت گردی کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے جس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی تشویش کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شہباز گل کے حالات عوام کے سامنے ہیں‘ میڈیکل افسر نے ان کے جسم پر متعدد زخموں اور نشانات کی تصدیق کر دی ہے۔ نازک اعضا کو کرنٹ لگانے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ تقریباً دس دن بعد ان کے کمروں کی تلاشی لے کر پستول اور سیٹلائٹ فون برآمد کیا گیا ہے۔ یہ روایتی طریقۂ واردات اب پرانا ہو چکا ہے۔ شاید اسی لیے عوامی سطح پر اس کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حالات کے پیشِ نظر یہ دعویٰ یقین سے کیا جا سکتا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے چند بڑے ناموں کو ہر حال میں گرفتار کرنے کا پلان بنا چکی ہے۔
ایسے وقت میں جب حکومت سیاسی گرفتاریوں کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے‘ ملک میں ڈالر کی قدر ایک مرتبہ پھر بڑھنا شروع ہو گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر 225 روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس صورتحال میں وزیرخزانہ صاحب کو فوری ایکشن لینا چاہیے۔ ایک پریس کانفرنس کر کے عوام کے سامنے لائحۂ عمل رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن شاید عوام کو افواہوں کے سہارے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ملک میں ڈالر اتنی تیزی سے اوپر نیچے ہو رہا ہو اور حکومت ذمہ داروں کا تعین کرنے میں ناکام رہے۔ حال ہی میں ڈالر کے بلند ترین سطح پر جانے کے بعد سٹیٹ بینک نے نجی بینکوں اور منی چینجرز کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔ اب بھی ان کی جانب سے تقریباً پانچ روپے فی ڈالر منافع کمانے کی اطلاعات ہیں لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ ملک میں ڈالر کی قدر بڑھنے کی ایک وجہ درہم کی مانگ بڑھنا بھی ہو سکتی ہے۔ عرب امارات نے یو اے ای آنے والے ہر پاکستانی کے پاس پانچ ہزار درہم ہونے کی شرط عائد کی ہے۔ لگ بھگ 4200 پاکستانی روزانہ یو اے ای کی جانب سفر کرتے ہیں۔ اس حساب سے ہر روز کم از کم 21 ملین درہم درکار ہیں۔ پاکستان میں جب بھی درہم کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر ڈالر کی قیمت پر پڑتا ہے۔ اس موقع پر وزارتِ خارجہ کو متحدہ عرب امارات حکومت سے گزارش کر کے یہ شرط ختم کرانے کی کوشش کرنا چاہیے تھی لیکن اس حوالے سے ابھی تک کوئی کام نہیں ہو سکا اور ایسے کوئی امکانات دکھائی بھی نہیں دے رہے۔ ایک طرف درہم اور ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف ایئرپورٹ پر لائی جانے والی کرنسی کو رجسٹرڈ کرانا مسافروں کیلئے لازم قرار دے دیا گیا ہے جس سے مسافروں میں خوف پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس پابندی سے قبل پاکستان میں تقریباً چالیس لاکھ ڈالرز روزانہ اوپن مارکیٹ تک پہنچتے تھے جو اب کم ہو کر پندرہ سے بیس لاکھ ڈالرز رہ گئے ہیں۔ تقریبا بیس سے پچیس لاکھ ڈالر روزانہ کم ہو رہے ہیں جس کا دبائو روپے پر پڑ رہا ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ ایئرپورٹس پر بیرونی کرنسی رجسٹرڈ کرانے کی شرط کس کے کہنے پر لگائی گئی ہے۔ کیا ڈالر مافیا حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہو رہا اور اسے غیر مقبول فیصلے کرنے پر مجبور کر رہا ہے؟ حکومت کو یہ شرط فی الفور ختم کرنی چاہیے تا کہ روپے کی قدر بحال ہو سکے۔یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں ڈالر کے ریٹ میں اتار چڑھائو معاشی اعدادوشمار سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ عمومی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر زیادہ ہونے پرڈالر کی قدر میں کمی واقع ہو جاتی ہے لیکن پاکستان میں جس وقت ڈالر کے ذخائر تقریباً نو ارب تھے تو ڈالر کا ریٹ 239 روپے تھا اور جب یہ ذخائر کم ہو کر تقریباً سات ارب ڈالر رہ گئے تو ڈالر کا ریٹ 214 روپے تک گر گیا۔ اس کے علاوہ مثبت خبریں آنے سے بھی ڈالر ریٹ میں کمی دیکھی جاتی ہے لیکن قطر، سعودی عرب ا ور متحدہ عرب امارت کی جانب سے تقریباً چار ارب ڈالرز کی امداد کے اعلان کے باوجود ڈالر ریٹ نیچے نہیں آ رہا۔ شاید کوئی طاقت ہے جو ڈالر کو کنٹرول کر رہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved