شخصی ارتقا کے ماہرین اپنی تحریر و تقریر میں ایک بات بار بار کہتے ہیں‘ یہ کہ اہم ہیں تو آپ ہیں، یہ دنیا ہے تو آپ کے دم سے ہے اور اِس دنیا کی ساری رونق اِس بات سے ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں، کیا کرتے ہیں۔ بات کچھ غلط بھی نہیں۔ آپ نے کبھی اپنے بارے میں سوچا ہے؟ نہیں۔ سوچتے تو آپ ضرور ہوں گے مگر محض سرسری طور پر۔ اپنے لیے جو سنجیدگی درکار ہے وہ عموماً لوگوں کے مزاج میں زیادہ نہیں پائی جاتی۔ عام آدمی کا یہی حال ہے۔ عام آدمی سے مراد صرف وہ نہیں جو غریب اور کمزور ہیں‘ جس کی سوچ عمومی ہے وہ عام آدمی ہی ہے، پھر چاہے اُس کے پاس بنگلے، گاڑیاں اور بینک بیلنس ہی کیوں نہ ہو۔ کسی بھی انسان کو عمومی سے خصوصی اگر کوئی چیز بناتی ہے تو وہ اس کی سوچ ہے۔ سوچ ہی کے دم سے انسان دوسروں سے ممتاز ہوتا ہے، عروج پاتا ہے اور کچھ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔
یہ کائنات اپنی جگہ ہے اور آپ اپنی جگہ ہیں۔ آپ اپنے وجود کی حدود میں بذاتِ خود ایک کائنات ہیں۔ اس دنیا کی ساری رونق آپ کے دم سے ہے۔ جی ہاں! آپ کے دم سے۔ جب آپ نہیں تھے تب یہ کائنات نہیں تھی اور جب آپ نہیں ہوں گے تب بھی یہ کائنات نہیں ہوگی۔ یہ بات بہت عجیب لگتی ہے مگر حقیقت یہی ہے۔ کبھی آپ نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ یہ کائنات آپ کے پہلے اور آخری سانس کے درمیان ہے؟ یہ ایسی حقیقت ہے جس پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔ جب آپ تھے ہی نہیں تب آپ کے لیے اس کائنات کی کیا وقعت تھی؟ کچھ بھی نہیں! جب آپ نہیں تھے تو دیکھ سکتے نہ محسوس کرسکتے تھے۔ اور جب آپ نہیں ہوں گے تب بھی یہ کائنات آپ کے کسی کام کی نہ ہوگی۔ سیدھی سی بات ہے، جب آپ ہی نہ ہوئے تو پھر یہ دنیا‘ یہ کائنات کچھ بھی ہو‘ آپ کو اس سے کیا غرض؟ تب یہ آپ کے کس کام کی؟ اہلِ دانش نے یہ بات کھل کر سمجھائی ہے۔ ہر عہد کے صاحبِ بصیرت افراد نے عام آدمی کو یہ بتانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ اِس کائنات کی ساری رنگینی اگر ہے تو صرف اُس وقت تک جب وہ خود کچھ سوچے اور اپنے افکار کی دنیا میں رہتے ہوئے عمل کی راہ پر گامزن ہو۔ عام آدمی کو عمومی سطح سے بلند ہونے کی تحریک دینے کے لیے عظیم اذہان نے بہت محنت کی ہے۔ اُنہوں نے اس حوالے سے لکھا بھی اور براہِ راست تربیت کے ذریعے بہت کچھ سمجھانے اور بتانے کی کوشش بھی کی۔ یہ کوشش اگرچہ مکمل کامیابی سے ہم کنار تو نہیں ہو سکی مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ آج ہمیں دنیا میں ایسا بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے جو عمومی سطح کی زندگی بسر کرتے ہوئے ممکن نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ بڑے ذہنوں نے جو کچھ دیا اُسے قبول کرکے ہی کچھ لوگوں نے محنت کی اور اپنے آپ کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ سب کچھ کیا جو بدیہی طور پر ممکن دکھائی نہ دیتا تھا۔
عام آدمی کو اُس کے وجود کی اہمیت کا احساس دلانا دنیا کا سب سے بڑا کام ہے۔ ایسا نہیں کہ لوگ مانتے نہیں۔ مانتے تو ہیں مگر معاملات کو اچھی طرح جان لینے کے بعد بھی وہ اصلاحِ احوال کے حوالے سے کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تیار اِس لیے نہیں ہوتے کہ وہ اِس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اپنے آپ کو بدلنا آسان نہیں۔ اور اُنہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں (یعنی جمود سے محبت) وہ کسی بھی اعتبار سے اُن کی زندگی میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی یقینی بنانے میں معاونت نہیں کرسکتا۔ ایسے میں یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ لوگ اپنی اصل قیمت سے کہیں کم میں خود کو بیچنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
انسان کی ساری کی ساری قدر و قیمت محض اس حقیقت میں مضمر ہے کہ وہ اپنے آپ کو کس حد تک کارآمد بناتا ہے۔ یہ پورا معاملہ ویلیو ایڈیشن کا ہے یعنی انسان جتنا سیکھتا جاتا ہے اُتنا ہی اہم ہوتا جاتا ہے۔ تعلیم اور تربیت انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے اور اُس کی شخصیت پروان چڑھتی جاتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کوئی کتنا کماتا ہے یا کتنا حاصل کر پاتا ہے۔ اصل چیز ہے ذہن و دل کا سُکون۔ اگر بہت کچھ پانے پر بھی دل سُکون نہ پائے اور ذہن منتشر ہی رہے تو جو کچھ بھی پایا ہے وہ اس قابل ہے کہ رَدّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے۔ عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چھوٹے فائدے کی خاطر بڑے نقصان کو بھی جھیلتا رہتا ہے۔ زندگی اِس لیے تو عطا نہیں کی گئی کہ کوئی اُسے ویسا ہی محدود کردے جیسا کنویں کا مینڈک ہوا کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آپ نہیں سوچیں گے تو کون سوچے گا۔ اور اگر آپ نہیں تو پھر کون؟ اِس کائنات کی عمر اُتنی ہی ہے جتنی آپ کی زندگی ہے۔ آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کے زمانے کی آپ کے لیے کوئی وقعت نہیں۔ جب آپ نہیں تھے تب اس کائنات کا ہونا نہ ہونا آپ کے لیے برابر تھا اور جب آپ نہیں ہوں گے تب بھی اس کائنات کے ہونے یا نہ ہونے سے آپ کو کچھ نہیں فرق نہیں پڑے گا۔ یعنی پورا معاملہ آپ کی سانسوں کے تسلسل کا ہے۔ آپ کا وجود ہی آپ کے لیے سب کچھ ہے اور آپ کا وجود اُیک مخصوص مدت کے درمیان ہے جو آپ کو عطا کی گئی ہے۔ جسے کچھ بن کر دکھانا ہے اُسے اِس مدت یعنی اپنی عمر‘ اپنی زندگی ہی میں کچھ بن کر دکھانا ہے۔ ہر انسان کا یہی معاملہ ہے۔ اگر کسی کو کچھ کرنا ہے تو جیتے جی کرنا ہے۔ اس کے بعد اس کا نام تو رہ سکتا ہے مگر وہ خود اپنے اعمال یا اپنی کارکردگی میں اضافے کے قابل نہ رہے گا۔ صدقۂ جاریہ کی صورت میں آپ اپنے لیے آخرت کا سامان ضرور کرسکتے ہیں مگر آپ کی مجموعی کارکردگی وہی رہے گی جو آپ چھوڑ کر جائیں گے۔
اب سوچیے قدرت آپ سے کیا چاہتی ہے۔ کیا آپ کی زندگی کوئی ایسی چیز ہے کہ لاپروائی کی نذر کردی جائے؟ کیا زندگی ایسی نعمت کو محض ضائع ہونے دیا جاسکتا ہے؟ عمومی سی دانش بھی یہی کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو اپنے بارے میں سوچنا ہے، کچھ کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہونا ہے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ وہ ''کچھ‘‘ کیا ہے۔ کائنات کے خالق نے آپ کو محض اس لیے خلق نہیں کیا کہ آپ دل پشوری کے معاملات میں گم ہوکر رہ جائیں؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا! ہمارے خالق و رب کی منشا یہ ہے کہ ہم اُس کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق زندگی بسر کریں اور اپنے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی یقینی بنائیں۔ یہ بھلائی اُسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب ہم اپنی اس عطا کردہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے کی کوشش کریں۔ ایسا ہوگا تو زندگی زیادہ بارآور بھی ہوگی، ہم خود بھی اچھی طرح سے جی سکیں گے اور اپنی زندگی سے دوسروں کو بھی مستفید کر سکیں گے یعنی اُن کی زندگی کا معیار بلند کرنے کے بھی قابل ہوسکیں گے۔
بنیادی چیز ہے زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنانے کے بارے میں سوچنا اور یہ طے کرنا کہ عمومی سطح پر رہتے ہوئے اپنے وجود کو ضائع نہیں کرنا بلکہ ڈھنگ سے جیتے ہوئے اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانا ہے۔ یہ طے کرنے کے بعد ہی آپ اِس دنیا اور اِس سے آگے بڑھ کر کائنات کو گلے لگانے کا ذہن بنا پائیں گے۔ اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے ذہن بناچکے ہیں یعنی محکم فیصلہ کر لیا ہے تو پھر یہ بھی طے ہو جائے کہ جو کچھ کرنا ہے وہ کرنا کب ہے۔ جو کچھ آپ کرنا چاہتے ہیں اُس کے لیے موزوں ترین وقت یہی ہے۔ سیانوں نے کہا ہے کل کرے سو آج کر، آج کرے سو اب۔ جی ہاں! بہترین وقت ابھی کا ہے۔ اِسی وقت۔ آپ کو اپنی زندگی بامقصد بنانے کے لیے جو کچھ کرنا ہے خود کرنا ہے اور ابھی کرنا ہے۔ اور کچھ نہیں تو تیاری بہر حال فوری طور پر شروع کی جانی چاہیے۔ ضرب گرم لوہے پر لگائی جاتی ہے؛ تاہم لوہے کو گرم کرنے کا عمل ضرب لگانے سے بہت پہلے شروع کرنا پڑتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved