تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     26-08-2022

(1)…Get Imran

یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھے جو ایک الگ طرح کا نعرہ لگا رہے تھے۔ جوشِ جوانی اور جذبہ و جنون تو تھا ہی‘ لیکن یہ نعرہ نیا تھا۔ ہر کسی کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والا۔ ''شہباز گل بہانہ ہے‘ عمران خان نشانہ ہے‘‘۔ یہ نعرہ تب لگا جب نہ تو ابھی عمران خان کی لائیو ٹی وی کوریج پر پابندی عائد ہوئی تھی اورنہ ہی ''میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں‘ عدالت لے کر جائوں گا‘‘ والا جملہ بم دھماکے‘ قتلِ عام‘ خودکش دھماکے وغیرہ برپا کرنے والوں کے خلاف بنائے گئے قانون کی زد میں آیا تھا۔ یہ قانون ہے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ مجریہ 1997ء ایکٹ نمبر XXVII۔
آگے بڑھنے سے پہلے پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہوگا۔ یہ ایکٹ نواز شریف نے اپنے دوسرے عہدِ اقتدار میں بنایا تھا۔ نواز شریف نے اپنی دوسری ٹرم آف پاور میں دو عدد ایسے قوانین بنائے جن کا 100فیصد ٹارگٹ ان کے سیاسی مخالفین تھے۔ لیکن دوسروں کے لیے کھودے گئے اس گڑھے میں نواز شریف جلد ہی گرتے نظر آئے۔ جن میں سے پہلا یہی انسدادِ دہشت گردی کا قانون تھا جبکہ دوسرا احتساب ایکٹ مجریہ 1997ء۔ اسے آپ قدرت کا انتقام کہہ لیں کہ نواز شریف کے مخالف ان دونوں قوانین کی زد میں تو آئے ہی آئے مگر نواز شریف خود بھی اپنے ہی بنائے گئے قوانین کے جال میں پھنس گئے‘ ایک بار نہیں کئی بار۔ دہشت گردی ایکٹ میں نواز شریف نے یہ دونوں ترامیم ایسی کیں جن سے انسدادِ دہشت گردی کا دور دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔
نواز شریف کی پہلی ہولناک ترمیم:
ہوا یوں کہ نواز شریف کی حکومت میں بدانتظامی بے قابو ہوگئی تھی جس کی وجہ سے سرکاری اور نیم سرکاری دونوں طرح کے محکمے شدید متاثر ہوئے۔ بڑے بڑے کارخانوں میں ہڑتالیں شروع ہو گئیں۔ مزدوروں کی بیداری کی تحریک فرسودہ نظامِ سرمایہ داری سے بیزاری کے اظہار کے لیے سڑکوں پر پہنچ گئی۔ نواز شریف خود نئے سرمایہ دار تھے اس لیے وہ مزدوروں کو دبانے‘ ڈرانے اور مزاحمت کو مٹانے کا فن آزمانے پر اُتر آئے۔ اس بے رحمانہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مزدوروں کے دو آئینی بنیادی حقوق کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کر دیا گیا۔ اُن میں سے ایک کارخانوں‘ بینکوں یا دیگر Work places پر سلو ڈاؤن اور لاک ڈاؤن کو دہشت گردی بنانا تھا جبکہ دوسرا ہڑتالی مزدوروں کے سڑک پر احتجاجی مظاہرے کو بھی دہشت گردی کی صف میں لاکھڑا کرنا تھا۔
نواز شریف کی دوسری ترمیم:
سال 1898ء میں جو حق فرنگی راج میں غلاموں کو دیا گیا تھا۔ سال 1997ء میں اس کے بخیے اُدھیڑ ڈالے گئے اور مزدور کا حق‘ بحقِ شریف سرکار ضبط کر لیا گیا۔ 1898ء سے ضابطۂ فوجداری کے قانون کے نیچے بغاوت‘ دہشت گردی سمیت ہر طرح کے جرائم میں عام سیشن ججز اور مجسٹریٹ عدالتوں کو ملزم کی ضمانت پر رہائی کا اختیار حاصل تھا۔ کمپنی بہادر کی املاک پر حملے سمیت دورِ غلامی کے اس اختیار کو آزادیٔ وطن کے بعد ختم کرنے کا منفرد اعزاز نواز شریف کو حاصل ہوا؛ چنانچہ ٹیلر میڈ لا‘ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ مجریہ 1997ء میں دفعہ21(D)شامل کر دی گئی۔ جس کی شقوں میں دو اضافے ہوئے۔ ان میں سے پہلا بے درد اضافہ ان لفظوں میں ہوا:
"No Court, other than an anti terrorism Court, High Court, Supreme Court of Pakistan shall have the power of Bail in a case triable by Anti-terrorism Court".
اگلے اضافے کے ذریعے تین سال قید سے زیادہ والے سارے جرائم کو21(D)(2)قانون میں شامل کر کے ناقابلِ ضمانت بنا دیا گیا۔
پھر جب موسم بدلا‘ رُت گدرائی تو اہلِ جنوں نے نواز شریف کی بے باکی کو اسی قانون کے ذریعے دبا کر لمبا ڈال دیا۔ باقی سب تاریخ ہے جو ہم سب کے سامنے رقم کی گئی۔
آج ایک بار پھر جمہوریت کے رہبر و رہنما (ن) لیگ کے چوتھے دورِ حکومت میں (ن) لیگ کے پانچویں وزیراعظم نے عمران خان پر دہشت گردی کا پانچواں مقدمہ قائم کیا ہے۔ ان چار ماہ کے دوران 19 دیگر FIR اسلام آباد کے تمام تھانوں میں عمران خان کے خلاف ''امپورٹڈ‘‘ حکومت نے درج کروائیں‘جبکہ نواز شریف نے کیوں نکالا کا راگ الاپنے سے پہلے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کے چار مقدمے درج کروائے تھے۔
ان مسلسل مقدمات سے پہلے پانچ مہینے تک پوری تلاش کے باوجود بھی عمران خان کے خلاف بدعنوانی‘ کرپشن‘ منی لانڈرنگ‘ کِک بیکس کا ثبوت تو کیا‘ کوئی اشارہ تک بھی نہ مل سکا۔ اس خجل خواری کے بعد مجبور ہو کر ''امپورٹڈ‘‘ حکومت Desperation Syndrome کا شکار ہو گئی۔ اردو میں آپ اسے ''عمرانو فوبیا‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ تھانہ مارگلہ کی تازہ ایف آئی آر میں عمران خان پر ATA قانون کی دفعہ 7کے تحت جو الزام لگایا گیا وہ ایف آئی آر میں یوں لفظ بہ لفظ درج ہے:
''پہلا حصہ: شرم کرو۔ آئی جی اسلام آباد۔ آئی جی تم اور ڈی آئی جی۔ تمہیں تو ہم نے نہیں چھوڑنا۔ تمہارے اوپر کیس کرنا ہے ہم نے۔
دوسرا حصہ: اور مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہو جائیں آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے۔
تیسرا حصہ: آپ سب کو شرم آنی چاہیے کہ ایک آدمی جس کے اوپر تشدد کیا۔ کیا ایک کمزور آدمی ہی ملا‘‘۔
میرے عزیز ہم وطنو! یہ ہے ایف آئی آر کی کل کہانی اور وہ جملے جن سے ریاستِ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرنے کا مقدمہ درج ہوا۔ پاکستان میں وقت ہوا چاہتا ہے کہ آپ اس میں سے دہشت گردی کے اجزائے ترکیبی دریافت کر کے دکھا دیں۔
گزرے بدھ کے پہلے پہر عمران خان کی کال آئی۔ طے ہوا کہ عدالت سے واپسی پر ساڑھے بارہ بجے بنی گالا میں ملیں گے۔ بدھ کی شام میرے لاء آفس میں ATA مقدمے کے حوالے سے درخواست ضمانت کی تیاری ہوئی۔ اُس وقت اسلام آباد اور ہری پور میں غصیلی بارش کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ مجھے انٹرنیشنل میڈیا اور Human rights activists کے میسجز اور ٹیلی فون کالز کی بھرمار کا سامنا تھا۔ ورکنگ ٹیبل سے باہر شہرِ اقتدار کی بستی اور مارگلہ کی بھیگی ہوئی چوٹیوں کو دیکھ کر یہ خیال مجھے باہر کھینچ لایا ؎
ادھر اُدھر مری بستی میں سب فرشتے ہیں
میں ایک عمر سے انسان کی تلاش میں ہوں
گیٹ کھلا تو سامنے ایک فرشتہ میرے انتظار میں کھڑا تھا...
(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved