تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     25-08-2013

خان صاحب سے وابستہ امیدیں

امید زندگی کی بنیاد ہے۔ امید کو قائم رکھنا، دراصل جذبوں، ارادوں اور عزم کو زندہ رکھنا ہے ۔ امید ہی انسانوں کو سفر کی مہمیز دیتی ہے۔ انسان لاکھ مسائل سے گزرتا ہے، تکالیف برداشت کرتا ہے، ظلم سہتا ہے، مگر حالات کے ان اندھیروں میں امید کی ایک چھوٹی سی شمع کہیں نہ کہیں جلتی رہتی ہے۔ اچھے وقت اور اچھے دنوں کی امید پر لوگ جبر مسلسل بھی ہنس کرسہتے رہتے ہیں۔ خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک گزر ہی جائے گی یہ رت بھی حوصلہ رکھنا اور اسی امید کا پیغام ناصر کاظمی نے بھی اپنے ایک شعر میں یوں دیا کہ ؎ وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ غم نہ کر‘ زندگی پڑی ہے ابھی امیدیں ٹوٹنے لگیں تو جذبے مدھم پڑجاتے ہیں، عزم اور ارادے شکستہ ہوکر ٹوٹنے لگتے ہیں، سفر میں بے سمتی درآتی ہے۔ وقت گزرتا رہتا ہے، اور دامن میں رائیگانی کی خاک ڈال دیتا ہے۔ سوامید کو سلامت رہنا چاہیے۔ سفر کی سمت متعین رہنی چاہیے۔ کسی منزل تک پہنچنے کا خواب آنکھوں میں سجا رہنا چاہیے، ہم پاکستانی سخت جان قوم ہیں۔ سیاست اور حکمرانی کے نام پر بہت فریب کھا کر بھی اچھے دنوں کی امید میںاچھے رہنمائوں اور ویژن رکھنے والے لیڈر کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن 2013ء میں عوام کی امیدیں اور جذبے ایک بار پھر عروج پر تھے۔ پیپلزپارٹی کی ناکام اور مایوس کن حکومتی کارکردگی کے بعد دوایسی جماعتیں تھیں جن سے عوام نے اپنی توقعات وابستہ کرلیں۔ ایک جانب مسلم لیگ نواز سے عوام کو امید تھی کہ اگر وہ حکومت میں آئی تو گڈگورنس قائم کرے گی، جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف یعنی عمران خان سے ذرابڑھ کر امیدیں تھیں۔ یعنی انقلاب، اور تبدیلی کی امید۔ دونوں جماعتوں نے بھرپور الیکشن مہم چلائی اورانقلابی نعرے لگائے ۔الیکشن ہوا تو تبدیلی لانے والی جماعت کو خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا اور مسلم لیگ (ن) نے وفاق میں حکومت بنائی۔ حکومت بنائے 75دن ہوئے اور پھر ضمنی الیکشن کا مرحلہ آیا۔ ضمنی الیکشن کے نتائج نے بہت ساری حقیقتیں واضح کردی ہیں۔ پاکستان کی سیاست کے طالب علم کے لیے بہت دلچسپ ، ڈویلپمنٹ سامنے آئی ہے۔ نمبر ایک تو یہ کہ پاکستانی ووٹر میں سیاسی شعور بیدار ہوا ہے۔ اب بھٹو کا زمانہ نہیں ہے کہ لوگ اندھا دھند کھمبے کو بھی ووٹ دے آئیں۔ اب ووٹر کارکردگی دیکھتا ہے اور اسی کو اپنا قیمتی ووٹ دینا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹرز اپنے رہنمائوں کو کھلی چھٹی دینے پر تیار نہیں، وہ ہرپل ان کا احتساب کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کی امید اپنی پارٹی اور اپنے رہنمائوں سے پوری نہیں ہوتی تو وہ ووٹ کے ذریعے احتساب کرنا جانتے ہیں۔ 11مئی کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کا جادو خیبر پختونخوا میں سرچڑھ کر بولا۔ دہشت گردی سے تباہ وبرباد صوبے کا نوجوان پچھلے 5سال سے قائم اے این پی کی حکومت سے سخت مایوس تھا۔ ان کا احتساب کیا اور امیدیں پی ٹی آئی سے وابستہ کرلیں۔نتیجتاً، کے پی کے میں اے این پی اپنی پکی سیٹیں بھی ہار گئی۔ پی ٹی آئی کی حکومت صوبے میں بن گئی۔ تبدیلی انقلاب اور نئے پاکستان کی امیدیں اور بھی زیادہ ہونے لگیں۔ پھر ان امیدیں پر پانی پڑتا ہے جب عمران خان کے وزیراعلیٰ سرکاری خرچے پر اپنے ایک دوست کی شادی پر جاتے ہیں۔ اقربا پروری ہونے لگتی ہے۔ پھر ڈی آئی خان جیل بریک پر پی ٹی آئی کی حکومت نے جس روایتی بے حسی اور آئیں بائیں شائیں کا مظاہرہ کیا، اس سے امید کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی۔ دوسروں کی کارکردگی پر ہمہ وقت اعتراض اٹھانے والے عمران خان کی اپنی پارٹی کی حکومت میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جیل بریک ہوا۔ دہشت گردی پر ابھی تک پی ٹی آئی کوئی لائحہ عمل نہیں بناسکی، اب ضمنی الیکشن میں ووٹر نے عمران خان کا احتساب کرکے حساب برابر کردیا ہے۔ عمران خان غلام احمد بلور کو ہراکر ہیروضرور بنے تھے مگر صرف 75دنوں کے لیے۔ کیونکہ ضمنی الیکشن میں حاجی غلام احمد بلور دوبارہ سیٹ جیت چکے ہیں۔ عمران خان کے لیے یہ لمحہ فکر یہ ہے، انہیں خیبر پختونخوا میں خاص طورپر اپنی کارکردگی پر توجہ دینا ہوگی۔ اگر کے پی کے کی حکومت بھی روایتی سیاست اور روایتی حکومت کرتی رہی تو تبدیلی کا وہ بت چکنا چور ہوجائے گا جسے پہلے ہی کافی دھچکا لگ چکا ہے۔ الیکشن کے بعد ضمنی الیکشن کا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ خان صاحب اعتراض اور احتجاج کی سیاست چھوڑ کر ہرنئے دن کو اپنی حکومت کے لیے ایک چیلنج سمجھ کر گزاریں۔ دنیا کی نظریں خیبرپختونخوا میں قائم تحریک انصاف کی حکومت پر جمی ہیں۔ جس کے روح رواں عمران خان ہیںاور جو گزشتہ 17برس سے پاکستان کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک نئے پاکستان کی بات کرتے رہے ہیں۔ کرپشن سے پاک معاشرہ اور انصاف پر مبنی نظام کا نعرہ لگاتے رہے ہیں۔ خان صاحب کا اصل امتحان اب شروع ہوچکا ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت کے پی کے میں گزاریں، تمام معاملات کو خود کنٹرول کریں۔ اپنے ویژن کے مطابق، ازسرنو، صوبے کے نظام کو وضع کریں۔ تعلیم اور صحت کی ایمرجنسی کا نعرہ تو یہاں لگایا جاچکا ہے، اس پر ٹھوس کام کریں۔ دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے وفاق کے ساتھ مل کر اتفاق رائے سے اقدامات کریں۔ یہ ایک تجربہ گاہ انہیں میسر ہے، یہاں اگر وہ نئے پاکستان کے خواب کو تعبیر کی صورت دینا چاہتے ہیں تو ابھی سے درست سمت میں سفرکا آغاز کریں۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو صرف 75دنوں میں ناپا نہیں جاسکتا۔ ابھی پانچ سال آپ کے پاس ہیں۔ راستے کا تعین تو کریں مگر اس کے لیے احتجاجی کیمپوں سے نکل کر کام اور صرف کام کرنا ہوگا۔ خان صاحب اعتراض اور تنقید ضرور کریں مگر اس کا رخ اپنی طرف موڑ لیںاس سے پہلے کہ ووٹر کی امید ٹوٹے اور وہ آپ کا کڑا احتساب کرے، آپ اپنا احتساب خود کرلیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved