جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ دنیا بھر سے منفی اور مایوس کن خبروں کے آنے اور ایسے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چاہے وہ کورونا وبا کے اثرات ہوں‘ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی ہو‘ روس‘ یوکرین کی جنگ ہویا کچھ اور۔ پوری دنیا میں مہنگائی کے عالمی ریکارڈ ٹوٹنے کی خبریں بھی آئے روز سامنے آ رہی ہیں۔ کبھی معلوم ہوتا ہے کہ جرمنی میں مہنگائی تیس سال کی بلند سطح پر پہنچ گئی‘ کبھی پتا چلتا ہے کہ امریکہ میں مہنگائی کا چالیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ ضروریاتِ زندگی دنیا بھر میں کورونا کی وبا کے بعد سے کئی گنا مہنگی ہو چکی ہیں کیونکہ کورونا میں بین الاقوامی نقل و حرکت بند یا محدود ہونے سے سامان کی ترسیل رُک گئی تھی جس کی وجہ سے اشیا کی سپلائی کم ہو گئی تھی اور طلب زیادہ ہونے سے قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں۔ اسی طرح خام تیل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے تمام شعبوں پر برا اثر پڑا ہے۔ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے انرجی کے شعبے پر نہایت منفی اثر پڑا ہے۔ دنیا بھر میں بجلی‘ گیس اور کوئلے کی قیمتوں نے طوفان مچایا ہوا ہے۔ حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ کوئی منفی خبر ملے تو اب ذہن فوری یقین کر لیتا ہے لیکن کوئی اچھی خبر آ جائے تو جلد یقین نہیں آتا اور بندہ اِدھر اُدھر سے تصدیق کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے۔ایسی ہی ایک اچھی خبر بجلی کے بلوں کے حوالے سے ملی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے عوام اور تاجروں کے لیے بڑے ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے تاجروں پر فکس ٹیکس اور بجلی کے بلوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج ختم کر دیے ہیں اور بجلی کے بلوں پر دی گئی اس رعایت سے لگ بھگ پونے دو کروڑ صارفین مستفید ہوں گے۔
بجلی کوئی کم استعمال کرتا ہے کوئی زیادہ۔ لیکن اس مرتبہ عوام کو بجلی کے جو بل موصول ہوئے ان میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں اچھی خاصی رقم ڈالی گئی تھی۔ اتنا بل استعمال کیے گئے یونٹس کا نہیں بنتا تھا‘ جتنے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز شامل کیے گئے تھے۔ بعض بلوں میں تو فیول چارجز یونٹس سے بھی ڈبل تھے۔ عوام ہوشربا بلوں پر سراپا احتجاج تھے؛ تاہم حکومت کے اس ریلیف کے بعد اب یہ تلوار واپس اپنے میان میں چلی گئی ہے۔ دوسری جانب بارشوں نے دنیا کے دیگر حصوں کی طرح پاکستان میں بھی تباہی مچائی ہوئی ہے۔ بارش کا پانی سیلاب کی صورت میں دندناتا ہوا دیہات‘ قصبوں حتیٰ کہ شہری علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ حکومت اپنے تئیں ریلیف کے اقدامات کر رہی ہے لیکن نقصان کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ وسائل کم پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورت حال میں سیاسی جماعتیں اپنی روایتی سیاست اپنائے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ایسے وقت میں تمام اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مصیبت میں گھرے اُن عوام کی مدد کیلئے سب کو ایک ہونا چاہیے جن سے ووٹ لے کر سیاسی رہنما اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہو پاتے ہیں۔ اس وقت جب پورا ملک سیلاب میں گھرا ہوا ہے‘ تحریک انصاف جلسوں میں مشغول ہے۔ اس کا چلن دیگر سبھی جماعتوں کی نسبت عجیب ہے۔ دل کرے تو یہ الیکشن لڑنے پر تیار ہو جاتی ہے‘ نہ دل کرے تو الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتی ہے۔ عوام سے ووٹ لے کر کامیاب ہو جائے تو بھی‘ اپنی مرضی ہی سے اسمبلی میں جاتی ہے‘ وگرنہ اس کے ایم این اے اور ایم پی اے وغیرہ اسمبلی کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ گزشتہ دورِ حکومت میں جب مہنگائی کی شرح یکایک بلند ہونا شروع ہوئی تھی تو عالمی مہنگائی کی خبریں سنا کر عوام کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور پھر سابق وزیراعظم صاحب نے ایک بار خود ہی کہہ دیا کہ میں پیاز‘ ٹماٹر کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے وزیراعظم نہیں بنا۔ ساہیوال کا افسوسناک واقعہ پیش آیا تو وزیراعظم صاحب قطر میں تھے۔ ٹویٹ کیا کہ واپسی پر بچوں کو انصاف دلائوں گا۔ وہ قطر سے واپس آ گئے لیکن بچوں کو انصاف نہ مل سکا۔ ماڈل ٹائون کے سانحے کو لے کر کیا کیا سیاست نہیں ہوئی۔ جب خود حکومت میں تھے تو اس وقت کیا نتیجہ نکلا؟ صفر! اب جب سیلاب آیا ہے تو خان صاحب کہتے ہیں کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ پنجاب میں تو اس وقت ان کی اپنی جماعت برسراقتدار ہے۔ ان علاقوں میں ہی کچھ کر لیں۔ ذرا جا کر دیکھیں کہ جنوبی پنجاب کی کیا حالت ہے۔ کس طرح وہاں لوگوں کی دنیا ہی اُجڑ گئی ہے۔ مکانات‘ فصلیں‘جانور‘ مال اسباب‘ سب کچھ پانی بہا کر لے گیا ہے۔ دوسرے کچھ کر رہے ہیں یا نہیں‘ اس کا جواب خان صاحب نے نہیں دینا۔ وہ یہ دیکھیں کہ کیا ان کی جماعت کے مقامی عہدیدار متاثرہ علاقوں میں گئے ہیں؟ یہ وہی علاقے ہیں جہاں کے غریب عوام نے انہیں ووٹ دے کر حکمران بنایا تھا مگر وہاں کون سے ترقیاتی کام ہوئے‘ آج سب پر عیاں ہے۔ ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں‘ اربوں ڈالرکا پانی ضائع ہو گیا لیکن ساری توجہ اب بھی سیاسی جلسوں کے ٹورنامنٹس کرانے پر مرکوز ہے۔ جلسہ کرنا ہے تو ان علاقوں میں جا کر کریں جہاں سیلاب آیا ہوا ہے۔ ذرا دیکھیں کہ وہاں پر لوگ کس طرح استقبال کرتے ہیں۔ تنقید مگر سب سے آسان کام ہے اس لیے وہ سب کو سُوٹ بھی کرتا ہے۔ اس وقت خان صاحب کی ایک متنازع تقریر کی وجہ سے ان پر مقدمہ ہو چکا ہے‘ توہینِ عدالت کی کارروائی کا بھی انہیں سامنا ہے۔ جب یہ پوچھا جائے کہ مجسٹریٹ کو دھمکی کیوں دی گئی تو جواب ملتا ہے کہ فلاں جماعت بھی ایسا کرتی تھی‘ فلاں لیڈر نے بھی ایسے بیانات دیے تھے‘ ان کو بھی پکڑو‘ کیا یہ کسی جرم کا جواز ہو سکتا ہے کہ چونکہ دوسرے لوگ بھی کرتے رہے ہیں‘ اس لیے اس پر گرفت نہیں ہونی چاہیے؟ فی الوقت آپ کٹہرے میں ہیں‘ آپ اپنا جواب دیں۔ باقیوں کو چھوڑ کر آپ اپنا حساب دیں۔ آج آئین و قانون اور انسانی حقوق کی دہائی دی جا رہی ہے حالانکہ تحریک انصاف کی اپنی حکومت میں وہ وہ کام ہوئے جو شاید ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے تھے۔ سینئرپروفیسروں کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں گھسیٹنے کا منظر اسی دور میں دیکھنے کو ملا تھا۔ کیا ایکشن لیا گیا تھا اس پر؟ موجودہ وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ پر منشیات برآمدگی کا کیس بھی سابق دورِ حکومت میں درج ہوا تھا۔ کیا بنا اس کیس کا؟
پی ٹی آئی کی اپنی حکومت میں مہنگائی‘ بیروزگاری کے جھٹکے ہر دوسرے ہفتے عوام کو لگ رہے تھے اور اگر عوام کو یاد ہو تو اس وقت وزیراعظم صاحب ایسے ہر سوال کے جواب میں کہہ دیتے تھے: گھبرانا نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے ہی سال ادویات کی قیمت میں تین سو گنا تک اضافہ ہو گیا۔ مہنگائی کے سبب ایسا وقت بھی آ گیا تھا کہ عوام نے دہائی دینا شروع کر دی اور کہا اب تو گھبرانے کی اجازت دے دیں۔ اس کے بعد جب کورونا آیا تو حکومت کو جیسے ایک بہانہ مل گیا۔ ہر چیز کا وبال کورونا پر ڈال دیا گیا۔ مہنگائی ہے، کورونا کی وجہ سے۔ بیروزگاری ہے، کورونا کی وجہ سے۔ معیشت مستحکم نہیں، سبھی اشاریے منفی میں ہیں، کورونا کی وجہ سے۔ غرض عالمی معاشی حالات کی خرابیوں سے ملکی حالات کو جوڑنا شروع کر دیا گیا۔ کیا آج عالمی حالات نارمل ہو چکے ہیں؟ کیا یوکرین اور روس کی جنگ سے خام تیل مہنگا نہیں ہوا؟ کیا اس سے عالمی معیشت کو جھٹکا نہیں لگا؟ کیا آج عالمی سطح پر مہنگائی نہیں ہے؟ آج اگر گوگل پر انفلیشن کا لفظ سرچ کریں تو دنیا بھر میں مہنگائی کے نئے بنتے عالمی ریکارڈز کی لاتعداد خبریں سامنے آ جائیں گی مگر آج چونکہ وہ خبریں تحریک انصاف کو سُوٹ نہیں کرتیں لہٰذا اب وہ دکھائی نہیں دیں گی۔ اس وقت سیاست کی جارحانہ اننگز کھیلی جا رہی ہے کہ بلاجواز تنقید کرو‘ الزامات لگائو پھر عدالت میں معافی مانگ لو‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوشل میڈیا کے ذریعے فیک نیوز پھیلا کر مخالفین کے خلاف عوام میں غم و غصہ پیدا کرو۔ وہی پیکا آرڈیننس‘ جو تحریک انصاف نے اپنے دور میں سوشل میڈیا کی فیک نیوز سے تنگ آ کر متعارف کرایا تھا‘ اب وہ قانون اس کو آزادیٔ اظہار پر قدغن محسوس ہو رہا ہے۔ اس کے اپنے دورِ حکومت میں میڈیا اور صحافیوں کے ساتھ کیا کیا سلوک نہیں ہوا؟ مگر آج اس نے آزادیٔ اظہارِ رائے کے جھنڈے اٹھا لیے ہیں۔ آخری بات۔ جب ''حقیقی آزادی‘‘ کے جواب میں عوام کا حقیقی شعور بیدار ہو گیا‘ جب ان کے جذبات پر عقل حاوی ہو گئی اور جب وہ دِل سے نہیں دلیل سے بات کرنے لگے تو پھر سوشل میڈیا کے جعلی ٹرینڈز‘ کھوکھلے نعرے اور سوشل میڈیا کا سراب کچھ فائدہ نہیں دے سکے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved