میری نظریں پتھرا سی گئی ہیں جب سے وسیب سے ایک سوشل میڈیا صارف کی پوسٹ کردہ ایک تصویر دیکھی ہے۔ تصویر میں ایک گبروجوان پورے کا پورا سیلاب زدہ علاقے میں‘ ایک مٹی کے تودے میں دبا ہوا ہے اور اس کے صرف ہاتھ باہر ہیں۔ یہ ایک ایسا منظر تھا کہ مجھے لگا کہ پورا پاکستان اس منظر کو دیکھ کر تھرا جائے گا اور ہر شخص امداد کے لیے اس علاقے کی طرف بھاگا جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سب اپنی اپنی دھن میں مصروف ہیں۔ کوئی تقاریر کر رہا ہے تو کوئی پریس کانفرنس کررہا ہے۔ کوئی سوشل میڈیا ٹرینڈ چلا رہا ہے تو کوئی پرچے‘ مقدمے کرا رہا ہے۔سیلاب زدگان کی بات کوئی نہیں کر رہا۔ مذکورہ شخص کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی فیملی‘ اپنے بچوں کو بچانے کے لیے سیلابی پانی میں کودا تھالیکن خود بھی سیلابی ریلے کی نذر ہوگیا۔ اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان ، دیر، چترال، ڈیرہ غازی خان ، خیرپور، نواب شاہ ، ٹھٹھہ ، بدین، تونسہ ، دادو، نوشکی، خضدار ، جھل مگسی ،قلعہ عبداللہ، لسبیلہ، نصیر آباد اور دیگر کئی اضلاع میں سیلابی صورتحال ہے۔ کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور چھوٹے پل اور کئی ڈیم ٹوٹ گئے ہیں۔ بارشیں جولائی سے مسلسل ہو رہی ہیں اور ابھی ستمبر تک جاری رہیں گی۔ سیلاب لوگوں کے مال مویشی‘ ان کے گھر بار کو بہا کر لے گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بہت سے پیارے بھی سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں۔ بچے‘ بزرگ خواتین‘ سب مدد کی اپیل کررہے ہیں۔ پانی کا بہائو اتنا تیز ہے کہ جو چیز راستے میں آرہی ہے‘ یہ اس کو بہا کر لے جارہا ہے۔ نوابشاہ ایئرپورٹ بند کر دیا گیا ہے۔ کئی ٹرینیں بھی بند کر دی گئی ہیں کیونکہ ان کے ٹریکس اور کئی پل پانی میں بہہ گئے ہیں۔ بلوچستان کے ایک معروف گلوکار عبد الوہاب بگٹی کا گھر بھی سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے اور وہ اہلِ خانہ کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ ان کے گھر کے ساتھ ان کا چھوٹا سا سٹوڈیو بھی بہہ گیا‘ وہ حکومت سے مدد کی اپیل کررہے ہیں۔ کور کمانڈر کوئٹہ نے ان کی اپیل پر فوری نوٹس لیتے ہوئے ان کی امداد کے لیے ٹیم روانہ کر دی۔ معروف اداکار ایوب کھوسو نے بھی لسبیلہ سے ایک وڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے جس میں وہ سیلابی ریلہ گزرتا دکھا رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ بلوچستان کا سندھ سے زمینی راستہ بالکل کٹ چکا ہے جبکہ پورا بلوچستان اس وقت سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ انہوں نے عوام سے مدد کی بھی اپیل کی۔ اس وقت متاثرہ علاقوں میں بچے‘ بوڑھے‘ مرد و خواتین‘ سب کھلے آسمان تلے موجود ہیں اور آسمان سے مسلسل پانی برس رہا ہے۔ لوگوں کو سب سے پہلے شیلٹر کی ضرورت ہے، ان کو صاف پانی، خوراک، کپڑوں اور ادویات کی ضرورت ہے۔
لوگ کب سے آوازاٹھا رہے ہیں مگر کوئی سنتا ہی نہیں کہ اس ملک میں پانی کے چھوٹے‘ بڑے ذخیرے بنائیں، واٹر پالیسی بنائیں، آبی نظام کو ٹھیک کریں، بارش کے پانی کو محفوظ بنائیں تاکہ وہ پانی گھریلو اور صنعتی صارفین کو میسر آ سکے اور آبیاشی کے لیے بھی مسلسل دستیاب ہو۔ اسی طرح نکاسیٔ آب کا نظام بھی درست ہونا چاہیے؛ تاہم یہ سب باتیں محض خواب معلوم ہوتی ہیں۔ سارا سال عوام پینے کے صاف پانی کو ترستے رہتے ہیں اور یہ سب علاقے پانی سے محروم رہتے ہیں۔ سارا سال لوگ ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔ نکاسیٔ آب کا نظام ایسا ہے کہ ذرا سی بھی بارش ہو جائے تو گلی محلوں میں گندا پانی کئی دنوں تک کھڑا رہتا ہے جس سے تعفن تو پھیلتا ہی ہے ساتھ ہی ہیضہ‘ ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریاں بھی پھیلتی ہیں۔ اس وقت ملک میں کیا ہورہا ہے؟ یہ وہ موسم ہے جس میں گرمی سے گلیشیر پگھلتے ہیں اور مون سون سے دریائوں‘ ندی نالوں میں طغیانی آجاتی ہے۔ اب بھی یہی ہوا۔ البتہ اس بار بارشیں کچھ زیادہ ہوئی ہیں۔ اگر ہمارے پاس ڈیم ہوتے تو پانی کو ان میں محفوظ کیا جا سکتا تھا مگر اس پانی نے ایسی تباہی مچائی کہ جولائی میں کے پی اور بلوچستان اور اب جنوبی پنجاب اور سندھ میں انسانیت سسک رہی ہے۔
جولائی میں شروع ہونے والا مون سون کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس بار مون سون طویل ہوگیا ہے اور گرمیوں میں بھی شدت آ گئی ہے۔ یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کی علامات ہیں؛ تاہم اس پہلو پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ سب سیاست میں مصروف ہے۔ حکومت کے بیشتر لوگ اس وقت غیر ملکی دوروں پر ہیں۔ جو یہاں موجود ہیں وہ اپوزیشن اور میڈیا کو زیرِ عتاب لانے میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن والے اپنی بقا کی جدوجہد میں لگے ہیں اور جلسوں دھرنوں میں مصروف ہیں۔ اس وقت ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی طرح حکومت میں ہے تو پھر کوئی سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سامنے کیوں نہیں آرہا۔ ہر ایم این اے‘ ایم پی اے اپنے حلقے سے بخوبی واقف ہوتا ہے‘ کیوں نہیں وہ اس مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کر رہے؟ اس وقت سیاسی انتقام ضروری ہے یا پھر عوام کی داد رسی؟ اس وقت سب سے ضروری کام سیلاب زدگان کی مدد ہونا چاہیے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام کسی کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ اشرافیہ اپنی انا کی تسکین میں مصروف ہے‘ ایک دوسرے سے بدلے لیے جا رہے ہیں اور خلقِ خدا رو رہی‘ مدد کی اپیل کررہی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں۔ سب اپنی دنیا میں مگن ہیں اور بدحال عوام کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں وہ تباہی مچی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اس کے علاوہ کے پی‘ شمالی علاقہ جات اور سندھ کے اضلاع بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اگر ملک میں چھوٹے بڑے ڈیموں کا ایک جال ہوتا اور ہر شہر میں چھوٹے بڑے آبی ذخیرے اور جھیلیں ہوتیں تو اس تمام پانی کو ذخیرہ کرلیتے۔ اب دریائوں میں طغیانی الگ ہے اور مسلسل برستی بارش الگ ستم ڈھا رہی ہے۔ 2010ء میں بھی ایسا ہی سیلاب آیا تھا‘ جو بطور رپورٹر میں نے خود بھی کور کیا تھا۔ جہاں جہاں سے سیلابی ریلہ گزرا‘ وہاں ہر طرف تعفن پھیل گیا۔ بہت سے لوگ جلد کی بیماریوں میں مبتلا تھے، ہیضہ اور اسہال ہر جگہ پھیلا ہوا تھا۔ لوگ کے جسم پر نکلنے والے دانوں سے خون رس رہا تھا جن پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ ایسے حالات میں ایک عام آدمی کے لیے کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے‘ بہت سے امدادی کارکن اور غیر ملکی سفارت خانے مگر کام کررہے تھے اور سیلاب سے متاثرہ عوام کو امداد دے رہے تھے۔ اسی طرح پاکستان ایئرفورس لوگوں کو نشیبی اور متاثرہ علاقوں سے محفوظ مقام پر منتقل کر رہی تھی، اس کے ساتھ ان میں امداد بھی تقسیم کی جا رہی تھی۔ اب بارہ سال بعد‘ 2022ء میں بھی وہی صورتحال ہے۔ بالکل اُسی طرح سیلاب آیا ہے کیونکہ مون سون اس بار طویل ہو گیا ہے اور بارشیں رک نہیں رہیں۔ رہی سہی کسر بھارت پوری کردیتا ہے جو سیلابی پانی کا رخ پاکستان کی طرف کر دیتا ہے۔ ویسے وہ سارا سال پاکستان کا پانی چوری کرتا رہتا ہے مگر جیسے ہی سیلابی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے‘ پانی ہماری طرف چھوڑ دیتا ہے۔ اس وقت سیاحوں کو خاص طور پر احتیاط کرنی چاہیے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور دریائوں سے دور رہنا چاہیے؛ تاہم لوگ جہاں قیام پذیر ہیں‘وہاں اگر سیلاب آجائے تو وہ کیا کریں؟ ان کو سب سے پہلے عارضی نقل مکانی کرنا ہوگی‘ محفوظ مقام پر آبادیوں کو منتقل کرنا ہو گا اور ریاستی ادارے ہی اس ضمن میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ سابق کورکمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز سیلاب زدگان کی مدد کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہو گئے تھے۔ان کا مشن کیا تھا؟ ان کا مشن سیلاب زدگان کی مدد کرنا تھا۔ ہمیں وہ ادھورا مشن مکمل کرنا ہے۔پی ڈی ایم اور عمران خان صاحب کو اپنے اختلافات بھول کر اس وقت عوام کی مدد کیلئے سامنا آنا چاہیے۔ عمران خان اور مریم نواز کرائوڈ پُلر شخصیات ہیں۔ انہیں اپنی اس صلاحیت کا مثبت استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی انگیج کرنا چاہیے۔ اس وقت جو عوام کے لیے کام کرے گا‘ عوام اس کو ہی یاد رکھیں گے۔ جو اس وقت سیلاب زدگان کی مدد نہیں کررہے‘ عوام کو ان کو انتخابی سیاست میں بھی مسترد کر دینا چاہیے۔
الخدمت بہت اچھا کام کررہی ہے اور ریلیف میں پیش پیش ہے۔ پی ڈی ایم حکومت محض عوام سے چندے کی اپیل کر رہی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنے امیر کبیر سیاست دانوں کو عوام کی مدد کیلئے عوام ہی سے چندہ چاہیے۔ وہ اپنے خزانوں کا وزن کچھ کم کیوں نہیں کرتے؟ انہیں چاہیے کہ اس وقت آگے بڑھیں اور سیلاب زدگان کی مدد کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved