خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے۔ یہ قرآن کے الفاظ ہیں۔ اس کتاب حکیم کے‘جو قیامت تک کے لیے رہنما ہے۔ کیا خشکی اور تری میں فساد برپا نہیںہوچکا؟ دنیا امن سے خالی نہیں ہوگئی؟ جہاں امن ہے وہاں سکون کی نیند میسر نہیں۔ جہاں سکون کی نیند دن بھر کی شدید تھکن کے بعد آبھی جاتی ہے، وہاں بھوک کا رونا اور قتل و غارت کا عذاب مسلط ہے۔ ہم بھی کس مٹی کے بنے ہوئے بیس کروڑ لوگ ہیں۔ سمجھتے ہیں اپنا مقدر خود تحریر کرسکتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے حکمران چن سکتے ہیں تاکہ ان کی وجہ سے ہمارے دن بدل جائیں۔ ہم یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو حکمرانی ہماری رائے اور ہمارے ووٹوں نے عطا کی ہے اور حکمران بھی یہ بات فخر سے بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے ہماری پالیسیوں اور ہماری شخصیت کے سحر کو ووٹ دیا ہے۔ ایک عذاب میں گھری ہوئی قوم اور اس کے رہنمائوں کے یہی رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں جو انہیں آخری اور اٹل فیصلوں کے بعد آنے والی بربادی کے قریب کر دیتے ہیں۔ اٹل اور آخری فیصلہ میرے اللہ کا ہوتا ہے اوراللہ کسی قوم بلکہ ایک ذی روح کی بھی تباہی اور بربادی نہیں چاہتا۔ اسی لیے فرمایا ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے۔ یہ تو لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے تاکہ ہم مزا چکھائیں ان کو ان کے اعمال کا کہ شاید وہ باز آجائیں۔‘‘ (الروم: 41-30)۔ ہمیں اس مزا چکھانے والی نوبت سے بہت پہلے اللہ نے کتنی بار متنبہ کیا۔ اپنی نشانیوں سے ہم پر واضح کیا کہ تمہارے ہاتھ کی کمائی، تمہاری لغزشیں، تمہیں اللہ کے غضب کے دروازے تک گھسیٹ کر لے آئی ہیں۔ اہل نظر‘ جنہیں اللہ نے چشم بینا عطا کی ہے‘ نے جان لیا تھا کہ ہم اللہ کی ناراضگی کا شکار ہوچکے ہیں۔ وہ اس قوم کو ڈراتے رہے، لکھنے والے لکھتے رہے کہ تم جس کھائی میں گرتے جارہے ہو وہاں صرف ناراضگی کے پتھروں کی ہی بارش ہوا کرتی ہے۔ اللہ پھر بھی مسلسل ہلکے ہلکے کچوکوں سے ہمیں خواب غفلت سے جگانے کی کوشش فرماتا رہا کہ یہ اس کی سنت ہے۔ ’’اور ہم انہیں لازماً مزا چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا‘ بڑے عذاب سے قبل‘ شاید کہ رجوع کرلیں‘‘ (السجدہ: 21)۔ یہ چھوٹا عذاب کیا ہے؟ بار بار قرآن کی اس آیت کا تذکرہ کیا گیا‘ جس میں اللہ اپنے عذاب کی تین واضح اقسام کے بارے میں فرماتا ہے: ’’کہو‘ وہ اس بات پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے نازل کردے، یا تمہارے پائوں کے نیچے سے نکال دے۔ یا تمہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے سے لڑا دے، تاکہ تم ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھو۔ دیکھو ہم مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں واضح کرتے ہیں تاکہ یہ کچھ سمجھ سے کام لیں۔‘‘ (الانعام: 65)۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہﷺ اپنے اللہ کے حضور دست بہ دعا ہوگئے اور عرض کی: ’’اے اللہ‘ میں اس عذاب سے تیرے چہرے کے تقدس کی پناہ مانگتا ہوں جو تو ہمارے سروں کے اوپر سے نازل کرے، ہمارے قدموں کے نیچے سے نکال دے یا ہمیں گروہوں میں تقسیم کرکے ہمیں عذاب کا مزا چکھائے‘‘۔ دعا کے بعد آپ ؐ نے فرمایا: گروہوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھانا سب سے کم عذاب ہے۔ یاد کرو‘ یہ قوم اس عذاب میں کب سے مبتلا ہے۔اب تو شاید لوگوں کو سال‘ مہینے اور دن بھی یاد نہ ہوں۔ لیکن ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو اس عذاب کے آغاز سے لے کر اب تک اسے اللہ کا عذاب تصور ہی نہیں کرتی رہی۔کوئی کہتا ہے کہ یہ ہماری پالیسیوں ، حکمت عملیوں اور ناروا سلوک کی پیداوار ہے۔ کسی کا تجزیہ اسے عالمی طاقتوں کی رسہ کشی بتاتا ہے۔کوئی حکمرانوں کی نااہلی پر اسے محمول کرتا ہے تو کسی کو مذہبی منافرت اور فقہی اختلاف اس کی وجہ نظر آتے ہیں۔ کوئی ایک لمحے کے لیے سوچتا تک نہیں کہ اس کا ئنات کا ایک مالک و مختار اللہ بھی ہے جو اپنے ارادے پر قادر ہے اور جو ہمیں راہِ راست پر لانے کے لیے مصلحتاً ہم پر عذاب کا فیصلہ کرتا ہے‘ تاکہ ہم اس کی جانب رجوع کریں۔ دنیا بھر کے مورخ تاریخ لکھتے وقت بادشاہوں کو ظالم اور عوام کو مظلوم لکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک آمر ، ڈکٹیٹر اور فرعون لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کررہا ہوتا ہے۔ لیکن اللہ قرآن میں بالکل اس کے برعکس بات فرماتا ہے ۔اللہ فرماتا ہے: ’’ اور وہ وقت یاد کر جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے ، تمہارے بیٹوں کو ذبح کرڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے اور یہ ساری صورت حال تمہارے رب کی طرف سے آزمائش تھی‘‘ (البقرہ: 49)۔ یعنی فرعون کو بھی بنی اسرائیل پر اللہ نے مسلط کیا تھا تاکہ وہ اپنے رب کی جانب لوٹ آئیں‘ اس سے مدد طلب کریں۔ اللہ نے ان سب کے لیے ایک کلیہ اور قاعدہ بنا دیا ہے ’’کوئی مصیبت آہی نہیں سکتی بغیر اللہ کے حکم کے‘‘ (التغابن: 11)۔ لیکن عقل و دانش اور حکمت عملی کے نشے میں ڈوبے اور ٹیکنالوجی اور دولت کے غرور میں اکڑے ہوئے ہمارے سر ہمیں ماننے ہی نہیں دیتے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ایک وارننگ ہے تاکہ ہم سنبھل جائیں۔ ہم یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ایک جمہوری انتخاب سے ہم اچھے حکمران لے آئیں گے تو معاملہ حل ہوجائے گا۔ سب کچھ بدل جائے گا، باقاعدہ حکمت عملی مرتب ہوگی۔مذاکرات ہوں گے ، نہیں تو طاقت استعمال ہوگی‘ پھر امن قائم ہوجائے گا۔ اس ساری پلاننگ اور اس ساری حکمت عملی میں اللہ کے وجود کا تصور تک موجود نہیں۔ چلو ٹھیک ہے‘ تو پھر اعلان کردو’’ ہم اسے نہیں مانتے ‘وہ نہ ہمارا رب ہے اور نہ ہی ہماری زندگیوں میں اسے دخل دینے کی کوئی اجازت۔اسے مانتے ہو تو اس کا جی چاہتا ہے کہ اسے صحیح طور پر مانو اور وہ پھر آپ کو جھنجھوڑتا رہتا ہے اور آخر میں ایک ہی خواہش کرتا ہے کہ شاید تم میری جانب رجوع کرلو۔ اس کی جانب رجوع کا راستہ وہی ہے جوحضرت یونس ؑ کی قوم نے اختیار کیا تھا۔ پوری قوم اجتماعی طور پر استغفار کے سجدے میں گرگئی تھی اور اللہ کی طرف سے عفوودرگزر کے دروازے کھل گئے تھے ۔اللہ آج بھی ہر قوم سے اسی لمحے کا منتظر ہے‘ لیکن سائنس‘ ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کے خمار سے اکڑے ہوئے سر ہمیں جھکنے نہیں دے رہے۔ یاد رکھو جب اللہ کے ادنیٰ عذاب کا عرصہ طویل ہوجائے اور ٹلنے کا نام نہ لے تو پھر انتظار کرو کسی اٹل اور بڑے فیصلے کا۔ یہی وہ خوف ہے جس سے آج اہل نظر کانپ رہے ہیں۔ کہتے پھرتے ہیں‘ سروں کی فصلیں پک چکی ہیں‘ کٹنے کو تیار ہیں۔اٹک پر سندھ دریا کے خون سے لبریز ہوکر بہنے کے دن آنے والے ہیں۔ وہ جنگ جو سرحدوں پر دستک دے رہی ہے اسے ٹی وی کے پروگراموں اور مذاکرات سے روک سکتے ہو‘ ٹال سکتے ہو تو ٹال کر دیکھ لو ، گروہوں میں بٹ کر خون بہاتے جائو گے تاکہ ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھو۔ اس سے پہلے کہ بہت کچھ گنوا کر اللہ کے سامنے استغفار کوجھکو ، ایک اجتماعی استغفار ، ایک اجتماعی خوف کا آنسو اور ایک اجتماعی مدد کی آواز حالات بدل سکتی ہے۔ اللہ آج بھی منتظر ہے ایک ایسی قوم کاجو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی طرح اجتماعی طور پر استغفار میں جھکے اور قرآن میں بار بار وہ اپنی اس خواہش کا اظہار بھی فرماتا ہے۔ ایک ایسا عمل جو ایسے اٹل عذاب کو ٹال دیتا ہے جس سے پیغمبر کو بھی مطلع کیا جا چکا ہوتا ہے۔ عذاب اٹل ہوتا جارہا ہے۔ کوئی ہے جو اسے ٹالنے کے لیے باہر نکلے؟ ورنہ سروں کی فصلیں تو پک چکیں اور کٹنے کے لیے تیار ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved