بارشوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیلاب نے ملک بھر میں تباہی مچا رکھی ہے۔ بلوچستان‘سندھ‘خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب ہر جگہ پانی ہی پانی ہے۔ مکانات گر رہے ہیں‘ سینکڑوں لوگ لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں‘لاکھوں مویشی پانیوں میں بہہ گئے ہیں‘ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں‘ بلوچستان کا تو دوسرے صوبوں سے رابطہ ہی کٹ گیا۔ کروڑوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں‘ پائوں دھرنے کو خشک زمین نہیں مل پا رہی‘عارضی اقامت گاہوں کے لیے خیمے دستیاب نہیں ہیں‘ کھانا پہنچانا مشکل ہو رہا ہے‘متعدد افراد مدد کے لیے پکارتے پکارتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ خیبرپختونخوا میں پانچ بھائی پانی کے حصار میں پھنس گئے‘ گھنٹوں مدد کے لیے پکارتے رہے‘ان کی درد بھری آوازیں سوشل میڈیا پر تو بلند ہوئیں لیکن حکام ِبالا تک نہ پہنچ سکیں‘بالآخر پانی کا ریلا انہیں بہا لے گیا۔بارشیں رکیں گی‘ پانی اترے گا تو نقصانات کا درست تخمینہ لگانا ممکن ہو گا۔اب تک کا اندازہ ہے کہ کم و بیش ایک ہزار ارب روپے درکار ہوں گے۔وزیراعظم شہباز شریف نے دنیا بھر سے مدد کی اپیل کی ہے کہ پاکستان اپنے وسائل سے متاثرین کی بحالی کا کام کر نہیں پائے گا۔ افواجِ پاکستان کو طلب کر لیا گیا ہے اور ملک بھر میں سرحدوں کے محافظ اپنے ہم وطنوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیمیں بھی میدان میں ہیں‘ الخدمت فائونڈیشن‘ اخوت‘ ہیلپ لائن اور متعدد دوسرے اداروں کے رضا کار نقد رقوم فراہم کر رہے ہیں اور اشیائے خورو نوش کو بھی بھوک سے بلکتے لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے عطیات کی اپیل کرتے ہوئے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کر دیا ہے۔افواجِ پاکستان کے جرنیلوں نے ایک ماہ کی تنخواہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے پیش کر دی ہے۔ وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی کے ارکان بھی اس ایثار کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ تیس سال میں ایسی تباہی دیکھنے میں نہیں آئی۔یہ درست ہے کہ قدرتی آفات کو روکنا ممکن نہیں ہے‘ لیکن پیشگی اقدامات سے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔یہ معاملہ ایسا ہے کہ قومی سطح پر ہم نے اپنے آپ کو اس کی عادت نہیں ڈالی۔ہماری انتظامیہ طویل المدت منصوبہ بندی کی قائل ہی نہیں ہے۔اس کی ذمہ داری اہلِ سیاست پر بھی عائد ہوتی ہے‘اور ان پر بھی جو انہیں چین نہیں لینے دیتے۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر وقت حکومت اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرتی ہے‘وہ اپوزیشن سے اور اپوزیشن اس سے خوفزدہ رہتی ہے‘ نتیجتاً دور تک دیکھنے اور دور کی سوچنے کی کسی کو ضرورت ہے نہ فرصت‘صرف آج کو مدنظر رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں‘نہ گزرے ہوئے کل کو کوئی یاد رکھتا ہے‘ نہ آنے والے کل کی کسی کو فکر ہے۔
ملک بھر میں ہر وقت ایک ہڑبونگ مچی رہتی ہے‘ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے‘ مغربی پاکستان‘ جہاں1947ء میں ساڑھے تین کروڑ کے قریب لوگ بستے تھے‘ آج ‘75سال بعد ان کی تعداد بائیس کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔سڑکوں پر ٹریفک تک کنٹرول نہیں ہو پا رہی۔ روزانہ حادثے ہوتے اور سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو جاتے ہیں‘لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔بڑے بڑے شہروں کی بڑی بڑی سڑکوں پر ایک ایک موٹر سائیکل پر چار چار‘ پانچ پانچ افراد سوار ہوتے ہیں۔بسوں‘ کاروں‘ رکشائوں تک کم ہی لوگ ہوں گے جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو یا انہیں ڈرائیونگ نام کی کسی چیز سے کوئی شناسائی ہو۔نہ کوئی عدالت اس کا سو موٹو نوٹس لیتی ہے‘ نہ کسی غیر سرکاری تنظیم کو کوئی درخواست دائر کرنے کی توفیق ہوتی ہے‘نہ بلند و بالا قائدین میں سے کوئی حرکت میں آتا ہے۔دن رات عوام کے غم میں گھلنے کا دعویٰ کرنے والے سیاسی اور مذہبی رہنما اس طرف دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔نہ کسی کی زبان پر کبھی حرفِ تعزیت آتا ہے‘ نہ حرفِ افسوس۔ کھٹارہ وہیکلز‘ ان میں سوتے جاگتے ڈرائیور‘اور کھدی ہوئی سڑکیں‘ کوئی بھی کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پاتا۔ یہ مثال صرف یہ واضح کرنے کے لیے دی گئی ہے کہ جو کچھ دن دیہاڑے‘ ہر بڑے چھوٹے شہر میں اور ہر بڑی سڑک پر ہو رہا ہے‘جب اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے‘اور ٹریفک قوانین نافذ کرنے کی سکت (یا صلاحیت) بھی ریاستی کارپردازوں میں نہیں ہے‘ تو کسی دوسرے معاملے میں ان سے امید کیونکر لگائی جا سکتی ہے۔سیلاب کی تباہ کاریوں کی ایک بڑی وجہ دریائوں اور آبی گزرگاہوں میں بستیوں کی تعمیر ہے۔ راوی اور ستلج کی تو بات چھوڑیے‘ دریائے سندھ اور چناب بھی تجاوزات کی زد میں ہیں۔ فطری آبی گزرگاہوں کو پختہ سڑکوں نے پامال کر دیا ہے‘بستیوں کو پلان کیا جاتا ہے‘ نہ مکانوں کی تعمیر میں موزوں میٹریل استعمال ہوتا ہے‘ مختلف ناموں سے ادارے قائم ہوتے ہیں‘موٹی موٹی تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے والے ان پر قابض ہو جاتے ہیں‘نہ وہ اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہیں‘ نہ کسی کو ان سے جواب طلب کرنے کی فرصت مل پاتی ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں نے ملک بھر کو افسردہ کر رکھا ہے‘ آنکھیں نم ہیں‘ لیکن اگر کسی پر اثر نہیں ہو رہا تو وہ اہلِ سیاست کی بڑی تعداد ہے۔وہ بدستور اپنی اپنی لڑائیوں میں مگن ہیں‘ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے شوق میں ہر حد پار کر رہے ہیں۔تازہ شاہکار یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدے کی پابندی کرنے سے انکار کر دیا ہے‘ اور ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کو اس سے تحریری طور پر آگاہ بھی کر دیا ہے۔ آئندہ دو تین روز میں آئی ایم ایف کا اعلیٰ ترین سطح کا اجلاس اس معاہدے کی منظوری دینے والا ہے‘ اس سے عین پہلے اسے سبوتاژ کرنے کی اس کوشش پر ہر وہ پاکستانی حیرت زدہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سوچنے اور سمجھنے کی کوئی ادنیٰ سی صلاحیت بھی عطا کی ہے۔ آئی ایم ایف سے حکومت پاکستان کا معاہدہ اگر عملی شکل اختیار نہ کر سکا تو پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا نہیں جا سکے گا‘اس کے بعد جو قیامت برپا ہو گی‘اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں نے اگر ہماری آنکھیں نہ کھولیں‘ تو پھر اس طرح کے ''سیلاب‘‘ آتے چلے جائیں گے‘نفرت‘ کدورت‘ مخاصمت کے سیلاب ہمیں بہا کر وہاں لے جائیں گے‘ جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔اپنے سیاسی مخالفوں کو ذاتی دشمن قرار دینے اور ان کی جان‘مال اور عزت سے کھیلنے کے مشغلے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ کیا ہمارے اہلِ سیاست یہ چاہتے ہیں کہ آج تین کروڑ افراد جس طرح بے گھر ہوئے ہیں‘کل بائیس کروڑ کا گھر (خاکم بدہن) پانی بہا کر لے جائے؟ بیانات کی توپیں داغنے اور الفاظ کی گولہ باری کرنے والوں کی بڑی تعداد نے تو دہری شہریت حاصل کر رکھی ہے یا اپنے پاسپورٹ پر امریکہ اور یورپ کے ویزے لگوا رکھے ہیں‘ سوچنا ان کو چاہیے جو کہیں جا نہیں پائیں گے‘اسی زمین پر انہیں ایڑیاں رگڑنا ہوں گی۔ منفرد لہجے کے باکمال شاعر سعود عثمانی کی آواز شاید کسی کو کچھ سوچنے پر مجبور کر دے‘شاید کسی کو جھنجھوڑ ڈالے‘ بیدار کر دے ؎
یہ پانی تو نہیں ہے‘ آئینہ ہے
دکھاتا ہے ہمیں چہرے تمہارے
سبھی کچھ بھولنا ممکن ہے لیکن
یہ کالے بدنما چہرے تمہارے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved