تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     28-08-2022

قدرتی آفات‘ چشم پوشی کے رویے کب تک؟

پاکستان سیلاب کی زد میں ہے۔ چاروں صوبے سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں‘ فی الحال سیلاب سے ہونے والی تباہی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔دو روز قبل وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمن نے کہا کہ سیلاب سے تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں‘ لیکن اس کے بعد خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں سیلابی ریلوں سے بڑ ے پیمانے پر نقصان ہوا ہے‘ سوات‘ کالام‘ دیر‘ کوہستان اور دیگر کئی علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں یوں کہا جا سکتا ہے کہ متاثرین کی تعداد تین کروڑ سے کہیں زیادہ ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اسے 2010ء میں آنے والے سیلاب سے بڑا سیلاب قرار دے رہے ہیں‘ کیونکہ 2010ء میں سیلاب ریلے کی شکل میں تھا جس نے تباہی مچائی اور گزر گیا مگر اب دو ماہ سے سیلابی صورتحال ہے جو کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بارشوں نے 61 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جس کے باعث سیلاب نے خوفناک صورت اختیار کر لی ہے‘ اس وقت سب سے بڑا چیلنج متاثرین کو آفت زدہ علاقوں سے بحفاظت نکالنا ہے۔ریسکیو آپریشن آسان نہیں کیونکہ بات کسی ایک علاقے یا صوبے کی نہیں ہے ‘ ہر صوبہ اپنے دکھ لے کر بیٹھا ہے اور وقفے وقفے سے نئے سیلابی ریلے کی اطلاع مل رہی ہے۔جمعہ کی شب چارسدہ کے قریب مُنڈا ہیڈورکس سیلابی ریلے سے ٹوٹ گیا جس سے نوشہرہ اور چارسدہ میں سیلابی ریلے داخل ہو گئے ‘ دریائے پنجگوڑہ میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے‘ لوگ مکانات کی چھتوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ سیلاب سے تباہ کاری ایک جیسی نہیں ہوتی‘ بالائی‘ نشیبی اور میدانی علاقوں میں نقصان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔بالائی علاقوں میں پانی کا بہاؤ تیز ہوتا ہے‘ سوات‘ کالام‘ مدین ‘ بحرین‘ مٹہ‘ وازہ خیلہ‘ چکدرہ‘ مردان‘ کوہستان اور دیر میں سیلابی ریلے کے سامنے مضبوط عمارتیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں‘ سوات میں متعدد گھر‘ہوٹل‘ سکول اور پل سیلابی ریلے سے منہدم ہوئے ہیں۔ سوات اور کالام کی جو عمارتیں سیلابی ریلے کی زد میں آئی ہیں وہ پانی کے قدرتی بہاؤ کی جگہ پر بنائی گئی تھیں‘ ان عمارتوں کے این او سی کس نے جاری کئے اس کی تحقیقات ہونی چاہئے کیونکہ اس سے قبل 2010ء کے سیلاب میں بھی سوات کی اکثر ایسی عمارتیں سیلابی ریلے کی زد میں آ گئی تھیں جو پانی کے قدرتی بہاؤ میں تعمیر کی گئی تھیں انہیں دوبارہ تعمیر کی اجازت کس نے اورکیوں دی یہ غور طلب معاملہ ہے۔ آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بالائی علاقوں سے آنے والے سیلابی ریلے عموماً بڑی تباہی کا باعث بنتے ہیں اگر پہاڑوں کے دامن میں ڈیم بنا کر ان پانیوں کو روک کر محفوظ کر لیا جائے تو سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کے علاوہ اس پانی کو زراعت کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے مگر دعوؤں کے باوجود ڈیموں کی تعمیر ممکن نہیں ہو سکی ۔
لوئر کوہستان میں دل دہلا دینے واقعے پر ہر آنکھ نم ہے‘ پانچ دوست چار گھنٹے تک سیلابی ریلوں کا سامنا کرتے رہے مگر انہیں بچانے کیلئے حکومتی سطح پر کوئی تدبیر نہیں کی گئی‘ سیلابی ریلے کی زد میں آنے کے بعد پانچوں دوست ایک چٹان پر چڑھ گئے اور تین سے چار گھنٹے تک مدد کے منتظر رہے‘ مقامی لوگوں نے اپنے طور پر رسیاں پھینکیں مگر وہ تیز موجوں کی نذر ہو گئے‘ شنید ہے کہ ان میں سے ایک نوجوان کو بچا لیا گیا ہے۔ حکومتی سطح پر اگر ہیلی کاپٹر استعمال کیا جاتا تو قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا مگر صوبائی اور وفاقی سطح پر اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی‘ کیا عوام کے ٹیکسوں سے خریدی گئی سرکای مشینری اور وسائل پر صرف سیاستدانوں کا حق ہے‘ کیا ریاستی وسائل اربابِ اختیار اور ان کی فیملی کے سیر سپاٹے کیلئے ہیں؟
سیلاب قدرتی آفت ہے انسان کے بس کی بات نہیں کہ اسے روک سکے مگر آفات سے بچنے کیلئے اسباب کے درجے میں جو اقدامات اٹھانے چاہئیں ہم نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو کہ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی اور آفات سے نمٹنے والے دیگر ادارے اس وقت متحرک ہوتے ہیں جب آفت سر پر آپہنچتی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ مغربی ممالک ایک عرصہ سے پاکستان کو کلائمیٹ چینج کے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں اس پر قابو پانے کیلئے فنڈز بھی جاری کر رہے ہیں مگر جو قوم خطرات سے دوچار ہے اور آنے والے کچھ برسوں میں خطرات کی شدت بڑھ جائے گی اسے کوئی پروا نہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے محفوظ رہنے کیلئے حتی المقدور اقدامات اٹھاتے‘ لوگوں کو آگاہی دیتے ۔ پاکستان میں متعدد بار اونچے درجے کے سیلاب آ چکے ہیں‘ جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی مگر جونہی سیلاب زدگان کا غم ہلکا ہوتا ہے اور ان کی آباد کاری کا عمل پورا ہوتا ہے ہم سب بھول جاتے ہیں اور اقدامات اٹھانے کے بجائے نئے حادثے کا انتظار کرتے ہیں۔ ماحولیات پر کام کرنے والی سرگرم تنظیموں نے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے خطرناک ترین ممالک میں شمار کیا ہے‘ 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے وقت ہمیں متنبہ کیا گیا‘ پھر2010ء میں سیلاب آیا تو کہا گیا کہ سیلاب اور زلزلے کیلئے پاکستان کو تیار رہنا چاہئے‘ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غذائی اجناس کی قلت اہم چیلنج ہو گا‘ اس انتباہ کے باوجود ہم نے آفات سے بچنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔ وزیر خزانہ کے بقول چالیس ارب کے مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں‘ جو مویشی پالنے والوں کی زندگی بھر کی کمائی تھی‘ اسی طرح اربوں روپے کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں‘ کسانوں کے نقصان کے علاوہ غذائی اجناس کی قلت کے خطرات بڑھ جائیں گے‘ سبزیاں اور پھل ناپید ہوں گے تو ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جائے گا‘ یوں دیکھا جائے تو پاکستان کیلئے آنے والا وقت مزید مشکل ہو گا‘ قوم ان مشکلات کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ قومی سطح پر یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ باہمی تعاون سے متاثرین کی مدد کی جا سکے مگر سیاست دان آپسی لڑائیوں سے بالا تر ہو کر سوچنے کیلئے تیار نہیں ۔ وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب زدگان بے یارو مدد گار کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ آئی ایم ایف بورڈ میٹنگ سے تین روز قبل خیبرپختونخوا حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے سے انکار کر دیا ہے‘ حالانکہ اس سے پہلے وہ انہی شرائط پر دستخط کر چکی تھی۔ تیمور جھگڑا نے وفاقی وزیر خزانہ کو خط لکھ کر صوبے کے تحفظات سے آگاہ کیا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا آئی ایم ایف پروگرام کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہا ہے تاکہ سیاسی اعتبار سے وفاق کیلئے مشکلات پیدا کی جا سکیں‘ ایک ایسے وقت جب عوام نے آئی ایم ایف پروگرام کی بھاری قیمت چکائی ہے‘ ایسے حالات میں مالی پیکیج کے حصول میں رکاوٹیں حائل کرنا ملک کو پستی کی طرف لے جانے کے مترادف ہو گا۔
سیلاب کیوں آیا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں صلاحیتیں اور وقت برباد کرنے کے بجائے تمام تر توانائیاں اور وسائل سیلاب زدگان کو ریسکیو کرنے میں بروئے کار لانی چاہئیں کیونکہ کروڑوں لوگ انتہائی اذیت میں ہیں۔حکومت کو اس وقت فنڈز کی کمی کا سامنا ہے‘ مقامی سطح کی بعض امدادی تنظیمیں ریسکیو آپریشن میں شامل ہیں تاہم بین الاقوامی فلاحی تنظیموں پر پابندی عائد ہونے کی وجہ سے ہم مطلوبہ اہداف حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ حالیہ مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا واحد راستہ یہی رہ جاتا ہے کہ سیاستدان کچھ عرصہ کیلئے آپسی اختلافات اور سیاسی سرگرمیوں کو ترک کر دیں اور باہمی یکجہتی سے مشکلات سے نکلنے کی تدبیر کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved