تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-08-2013

حکمت

حکمت! فرمایا، جسے وہ چاہتاہے عطا کرتاہے اور حکمت جسے دی گئی ، اسے خیرِ کثیر عطا کیا گیا۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے بارے میں رانا ثنا ء اللہ کا بیان، لاہور میں تحریکِ انصاف کے احتجاجی دھرنے پر وحشیانہ تشدد اور صدر حامد کرزئی کے دورے سے توقعات ۔ شریف حکومت اپنی جبلت کی طرف پلٹ رہی ہے۔ بھول رہی ہے کہ 1990ء اور 1996ء میں دو تہائی اکثریت کے باوجود ، وہ کس انجام سے دوچار ہوئی تھی۔ توقعات اب کی بار مختلف تھیں اور کچھ پوری بھی ہوئیں ۔ بلوچستا ن میں قوم پرستوں کی حکومت ایک کارنامہ ہے ، جو بدترین حالات میں انجام دیا گیا ۔ سلیقہ مندی سے کام لیا گیاتوخون آلود بلوچستان قرار پائے گا ۔ استحکام کی نمود ، جس کے بغیر معاشی ترقی کا خواب دیکھا جا سکتاہے اور نہ جمہوری اداروں کی نشوونما کا سپنا۔ پختون خوا میں تحریکِ انصاف اکثریتی پارٹی تھی، جماعتِ اسلامی اور شیر پائو کی حمایت بھی حاصل مگر مولوی صاحب کی خواہش تھی کہ نون لیگ کی مدد سے بلڈوزر چلا دیا جائے ۔ سیاسی مارکیٹنگ میں مولوی صاحب کا ثانی کوئی نہیں ، پھروہ ایک ذہنی بحران کا شکار تھے۔ جذبہء انتقام ان پر سوار تھا۔ اے این پی کے المناک زوال نے ، جس نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تھے، نئے امکانات کو جنم دیا تھا۔ مولوی صاحب نے دھڑا دھڑ ہر قماش کے ایسے لوگ اپنی پارٹی میں شامل کیے، جن کی فتح کا کچھ بھی امکان تھا۔ حیرت انگیز یہ کہ انتخابی مہم میں بے دریغ خرچ کیا۔ اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دیتے رہے کہ فدوی کا خیال رکھا جائے۔ اس کے باوجود ہار گئے تو آمادہء فساد ہوئے۔ میاں محمد نواز شریف نے مگر دانائی سے کام لیا۔ جانتے تھے کہ حکمران عمران خان اتنا خطرناک بہرحال نہیں جتنا کہ حزبِ اختلاف میں ہو سکتاہے۔ اب مگر مولوی صاحب کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں ۔ اقبالؔ نے صرف یہ نہ کہاتھا کہ ’’دین ملّا فی سبیل اللہ فساد‘‘ بلکہ یہ بھی ارشاد کیا تھا۔ میں جانتا ہوں انجام اس کا جس معرکے میں ملّا ہوں غازی دھاندلی پہ عمران خان نے اپنا موقف برقرار رکھا مگر انتخابی نتائج تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ اڑھائی ماہ گزر چکے ، پے درپے سرکاری وعدوں کے باوجود اب تک کوئی پیش رفت نہیں ۔ اس پر گل یہ کھلا کہ لاہو رمیں صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے میں دھاندلی کی شکایت ہوئی ۔ تحریکِ انصاف کا الزام یہ ہے کہ ان کا جو امیدوار دو ہزار ووٹوں سے جیت رہا تھا ، دھاندلی سے ہرا دیا گیا۔ دوبارہ گنتی پہ اصرار کے لیے انہوںنے دھرنا دیا تو برہمی کیسی ؟ یہ ایک بنیادی حق ہے ۔ اس پر پولیس چڑھا دینے کا حکم کیوں صادر ہوا؟ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا ۔ ارکانِ اسمبلی کی گرفتاری عمل میں آئی۔ پرویز رشید نے بیان جاری کیاکہ تحریکِ انصاف کو شکایت ہے تو عدالت میں جائے۔ کیوں جائے عدالت میں ؟ الیکشن کمیشن کس مرض کی دوا ہے ؟ فریب کاری اگرنہیں ہوئی تو نون لیگ کو از سرِ نو گنتی کی تائید کرنی چاہیے۔ کیا دال میں کالاہے ؟ تحریکِ انصاف کا دعویٰ اگر غلط ثابت ہو تو نقصان اسی کاہوگا ۔ میڈیا میں ن لیگ کے بھونپو بہت ہیں‘ کچھ مراعات یافتہ‘ کچھ مراعات کے امیدوار۔ پروپیگنڈے میں تین عشروں کا اُسے تجربہ ہے۔ لاہور میں نو ن لیگ اور تحریکِ انصاف کے تصادم کی ایک تاریخ ہے ۔ عمران خان کے پرچم ، بینراور پوسٹر نوچ کر پھینک دئیے جاتے ۔اس کام کے لیے سرکاری ملازمین کو استعمال کیا جاتا چنانچہ راز فوراً ہی کھل جاتا ۔ دفاتر کھولنے والوں کو ہراساں کیاجاتا اور کارکنوں پر جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ۔ پھر شہباز شریف تحقیقات کا وعدہ کر تے مگر کیسی تحقیقات؟ اکتوبر2011ء میں عمران خان نے لاہور کے اس تاریخی جلسہ ء عام کی تیاریاں شروع کیں تو اسے ناکام بنانے کی ہر ممکن تدبیر کی گئی ؛حتیٰ کہ دو دن پہلے خود ایک اجتماع کا اہتمام کیا۔ ارکانِ اسمبلی سے کہاگیاکہ وہ اپنی ساری قوت صر ف کر دیں ۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا مگر نتیجہ کیا نکلا؟ تحریکِ انصاف اس طرح اٹھی اور ابھری کہ ملک کی مقبول ترین پارٹی بن گئی ۔ نون لیگ نے 28اکتوبر کا سوانگ نہ رچایا ہوتا تو 30اکتوبر کا جلسہ کبھی خیرہ کن نہ ہوتا۔ یہ الگ بات کہ یہی اس کی تباہی کا باعث بنا۔ سبق یہ ہے کہ سیاسی کارکنوں کو کچلنے کی کوشش تباہی لاتی ہے ۔ شریف خاندان کو اطلاع ہو کہ زمانہ بدل چکا۔ عمران خان اپنی حماقتوں سے ہارے ہیں ۔ محاذ آرائی پر انہیں مجبور کیا گیایا پختون خوا میں مولوی صاحب کی مدد اور خریداریوں سے تحریکِ انصاف کی حکومت تحلیل کی گئی تو نتیجہ ٹھیک وہی ہوگا، جو 1993ء اور1999ء میں ہوا ۔ یوں بھی تحریکِ انصاف خود اپنے درپے ہے ۔ کارکن قیادت سے مایوس ہیں ۔ تشدد انہیں متحرک ہی نہ کرے گا بلکہ لیڈروں کی مظلومیت ہمدردی کی لہر اٹھادے گی ۔کیا ضمنی الیکشن کی کامیابی نے نون لیگ کو مدہوش کر دیا ہے ؟ ع صاحبِ نظر اں نشہء قوت ہے خطرناک رانا ثنا ء اللہ کا بے تکا موقف سامنے آیا تو میں دنیا ٹی وی کے دفتر میں تھا۔ اگلے دن نشر ہونے والے کامران شاہد کے پروگرام کے لیے۔ عرض کیا کہ رانا صاحب ان معاملات کا فہم نہیں رکھتے ۔ الفاظ کے انتخاب میں وہ غیر محتاط ہیں۔ میرا خیال ہے ان کی نیت میں قطعاً کوئی خرابی نہیں مگر چپ وہ رہ نہیں سکتے۔ اندازے کے عین مطابق کچھ ہی دیر میں تردید آئی ۔کہا گیا کہ یہ ان کا ذاتی نقطۂ نظر ہے ، انہیں بریفنگ لینی چاہیے۔ کون سا نقطۂ نظر اور کون سی بریفنگ؟ ایک بڑبولے صوبائی وزیر کا ان معاملات سے کیا تعلق؟ انہیں خاموش رہنا چاہیے۔ خدا خدا کرکے دہشت گردی پر عسکری اور سیاسی قیادت میں اتفاقِ رائے نے جنم لیا۔ اعتماد پیدا ہوا اور بڑھ رہا ہے ۔ پہلی بار خوں ریز عفریت سے نجات کا خواب دیکھا جا سکتاہے ۔ کیا راناثناء اللہ ایسے لوگوں کو بھس میں چنگاری ڈالنے کی اجازت دی جائے گی ؟ باخبر مبصرین متفق ہیں کہ صدر حامد کرزئی کے دورے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ یہ دورہ اسی طرح کی خوش فہمی کا نتیجہ ہے ، اقتدار پر براجمان ہونے کے ہنگام جس کا مظاہرہ میاں صاحب نے بھار ت کے باب میں کیا تھا ۔ اپریل 2014ء کو افغانستان میں نیا الیکشن ہوگا۔ حامد کرزئی غیر موثر ہو گئے اور رفتہ رفتہ بے معنی ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ بات چیت سے اب کیا حاصل ؟ کبھی طالبان امریکہ مذاکرات کو سبوتاژ اور کبھی بھارت سے ساز باز کر کے وہ اپنے لیے ایک کردار کی تلاش میں ہیں ۔ افغان مسئلے کا واحد قابلِ عمل حل یہ ہے کہ افغان فریقوں کے درمیان مکالمہ برپا ہو اور کوئی اتفاقِ رائے ابھر آئے ۔کم از کم یہی کہ الیکشن مکمل طور پر منصفانہ ہوں اور سبھی فریق اس میں حصہ لیں ۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت ہوگی۔ حامد کرزئی مسئلے کے حل میں مددگار نہیں بلکہ مسئلے کاحصہ ہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ شریف حکومت افغانستان میں ابھرنے والے تازہ حقائق کا ادراک کر پائے گی ۔ انکل سام کی فوجی واپسی کے بعد ایسا پر امن افغانستان ہماری منزل ہونا چاہیے، جہاں بھار ت کا کوئی خاص کردار نہ ہو ۔ ایک ایسی حکومت وجود میں آئے ، جو قیامِ امن کی ضمانت دے سکے ۔ حامد کرزئی تو غالباً اس وقت اپنی دولت سمیٹ کر کہیں دور دیس جا چکے ہوں گے ۔ سوچیے ، جنابِ والا، غور فرمائیے! حکمت! فرمایا، جسے وہ چاہتاہے عطا کرتاہے اور حکمت جسے دی گئی ، اسے خیرِ کثیر عطا کیا گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved