تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     28-08-2022

آئی ایم ایف اور سیلاب کے پاکستانی معیشت پر اثرات

پاکستان کو اس وقت کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی سرپلس کیش کی شرط ماننے سے انکار کر دیا ہے جس سے وفاقی حکومت کو آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ نے تحریری طور پر وفاقی حکومت اور آئی ایم ایف کو بھی اس بارے میں مطلع کر دیا ہے۔ مبینہ طور پر یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی مرضی سے کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے فواد چوہدری صاحب بھی فرما چکے ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ اگر دونوں صوبائی حکومتیں سرپلس کیش کے معاہدے سے دستبردار ہو جائیں تو آئی ایم ایف کی ڈیل نہیں ہو گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ سیاسی لڑائی میں ملک کی معاشی بقا کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ شاید پاکستان تحریک انصاف کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اس طرح کے حربوں سے ملک میں جلد انتخابات کروانے کے مطالبے پر عمل درآمد کروا سکے گی لیکن موجودہ حالات کے پیشِ نظر ملک میں جلد انتخابات ہونے کے امکانات کافی معدوم ہیں۔ جب تک پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں مل جاتا ملک کسی بڑے ایڈونچر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس وقت عوام کی اکثریت وفاقی حکومت کو معاشی عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے لیکن اگر خیبرپختونخوا کی حکومت اس فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹتی تو وفاقی حکومت پاکستان تحریک انصاف کو ایک مرتبہ پھر ملکی معاشی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں توپوں کا رخ ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف کی جانب ہوجائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے تاکہ نہ اس کی عوامی مقبولیت میں کمی آئے اور نہ ہی ملک معاشی عدم استحکام کا شکار ہو۔ مستقبل میں کیا فیصلہ کیا جاتا ہے اس بارے میں مکمل یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن زیادہ امکانات یہ ہیں کہ خیبرپختونخوا حکومت اس فیصلے کو واپس لے لے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کو ذاتی مفاد اور سیاسی ہار جیت سے باہر نکل کر سوچنا چاہیے کیونکہ اس وقت ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہو چکا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اِس سیلاب سے 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب سے زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔ بالخصوص کپاس کی فصل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ سندھ میں بیشتر کپاس چُن لی گئی تھی اور وہ مارکیٹ میں بھی آ چکی تھی لیکن اُسے جن گوداموں میں سٹور کیا گیا تھا وہ بھی سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں کپاس ابھی تک چُنی نہیں گئی تھی جس کے باعث وہاں کپاس کی فصل کو نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے۔ ایسی صورتحال میں کپاس کی درآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف چین میں بھی سیلاب کی وجہ سے کپاس کی فصل متاثر ہوئی ہے جس سے خدشہ ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی کپاس کی قیمت بڑھ جائے گی‘ جس سے ٹیکسٹائل صنعت کے ورکنگ کیپٹل پر فرق پڑے گا۔ موجودہ حالات میں ٹیکسٹائل کا شعبہ پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہے۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو ٹیکسٹائل برآمدات کا طے شدہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔ سیلاب کے باعث چالوں کی برآمدات بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ہائبریڈ چاولوں کی پیداوار سندھ میں زیادہ ہے۔ چاولوں کی ایک فصل جولائی میں اُترتی ہے اور دوسری نومبر میں۔ جولائی والی فصل تو مارکیٹ میں آ چکی ہے لیکن نومبر کی فصل کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ باسمتی چاول کی پیداوار چونکہ سینٹرل پنجاب میں زیادہ ہے اس لیے یہ سیلاب سے محفوظ ہے۔ پاکستان کی چاول کی برآمدات کس حد تک متاثر ہوتی ہیں اس کا درست اندازہ آنے والے چند دنوں میں ہو سکے گا۔
پاکستان کو ہونے والے معاشی نقصان کے بارے میں مختلف اطلاعات آ رہی ہیں۔ اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو ورلڈ بینک کے مطابق 2010ء کے سیلاب میں پاکستان کے انفراسٹرکچر‘ فصلوں‘ مکانات اور دیگر شعبوں کو تقریباً دس ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا تھا۔ اُس وقت مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ پیپلز پارٹی کے مطابق نقصان کا تخمینہ تقریباً 43بلین ڈالر تھا۔ این ڈی ایم اے کے مطابق موجودہ سیلاب کے نقصانات 2010ء کے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق تقریباً چار سو ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ ان حالات میں نقصان کے ازالے کے کیا امکانات ہیں‘ اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے مجھے بتایا کہ پاکستان کو اس وقت زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہے لیکن موجودہ حکومت اسے حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ چین‘ امریکہ اور یورپی یونین نے صرف چند ملین ڈالرز دینے کا عندیہ دیا ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی صرف پرانی امداد کو ری شیڈول کرنے کی بات کی ہے۔ شاید ان ممالک اور اداروں کو موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ سڑکیں‘ پل اور ریلوے لائنز کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کوئٹہ ائیر پورٹ پانی میں ڈوب چکا ہے۔ اگر فوری طور پر انفراسٹرکچر بحال نہیں کیا گیا تو پورے ملک میں غذائی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ ادویات کی فراہمی معطل ہو سکتی ہے اور صنعتیں بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر حفیظ پاشا صاحب کی رائے درست معلوم ہوتی ہے لیکن حکومت اس پر عمل درآمد کرتی ہے یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سیلاب کی تباہ کاریوں سے ڈالر کی قیمت پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ملک میں پہلے ہی ڈالرز کی قلت ہے اور سیلاب کی صورت میں جو معاشی نقصان ہوا ہے اس سے درآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کا دباؤ روپے پر پڑے گا اور ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ خصوصی طور پر زرعی اجناس کی ممکنہ قلت کو پورا کرنے کے لیے درآمدی آرڈرز ابھی سے بک کروانے کی اطلاعات ہیں۔جہاں ایک طرف عوام مسائل کا شکار ہیں وہیں دوسری طرف اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں چندہ مافیا بھی سر اٹھانے لگا ہے۔ پرائیویٹ نمبروں سے میسجز کرکے سیلاب زدگان کے لیے امداد مانگی جا رہی ہے۔ کورونا اور 2005ء کے زلزلے کے دنوں میں اربوں ڈالرز ڈونیشن کی مد میں وصول کیے گئے۔ بعد میں یہ رپورٹ آئی کہ پچاس فیصد سے زیادہ فنڈز مستحقین تک نہیں پہنچ سکے۔ کورونا کے دنوں میں ایسے ہی کچھ مافیاز راشن اور دیگر سامان لے کر رکشوں پر لادتے اور دکانوں پر بیچ آتے تھے۔ ماضی کے پیشِ نظر آج جو شخص سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتا ہے وہ کنفیوز دکھائی دیتا ہے کہ کس پر اعتماد کرے۔ جہاں تک حکومت پر اعتماد کرنے کا سوال ہے تو حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے عوام ان پر کس طرح بھروسہ کر سکتے ہیں؟ حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور پیپلز پارٹی کا وفد سپیکر قومی اسمبلی کی قیادت میں کینیڈا کی سیر کر رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ترکی کے طویل دورے کے بعد پاکستان پہنچے ہیں۔ عمران خان کی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت ہے لیکن وہ سیاسی جلسے کرنے میں مصروف ہیں۔ سیلاب آئے تقریباً ایک ماہ ہو چکا ہے لیکن وزیراعظم صاحب نے تین روز پہلے میڈیا پر آکر سیلاب متاثرین کے حوالے سے لب کشائی کی ہے۔ حکومت کو سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ حکومتی مدد کے بغیر عام آدمی بھی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ عام آدمی کناروں پر بیٹھے افراد کو تو مالی امداد پہنچا سکتا ہے لیکن سیلابی ریلوں میں پھنسے لوگوں تک امداد پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹروں کی ضرورت ہے جو کہ سرکار کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved