دنیا کو بدلتے رہنے کے سوا آتا ہی کیا ہے۔ انسان کو بھی بدلنا ہوتا ہے بلکہ اس کو حالات کے ساتھ بدلنا ہی پڑتا ہے مگر دنیا کی دیکھا دیکھی سبھی کچھ بدل ڈالنا بعض اوقات گھاٹے کا سودا ثابت ہوتا ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے تیور ہمیں بھی بدلنے پر مجبور کرتے ہیں مگر دیکھنا پڑتا ہے کہ تبدیلی کتنی ہونی چاہیے۔ مزید یہ کہ انسان کو کب اور کیوں تبدیل ہونا چاہیے۔ زمانے کی روش ہمیشہ ایسی ہی رہی ہے یعنی بہت کچھ ہے جو پہلے جیسا نہیں رہتا۔ بہت کچھ بدلتا جاتا ہے اور ریلے کی طرح ہمیں بھی ساتھ بہاتا جاتا ہے۔ کم ہیں جو بدلتے وقت کے ساتھ اپنے آپ کو اُتنا ہی تبدیل کریں جتنا ناگزیر ہو۔ یہ معاملہ غیر معمولی دانش کا طالب ہے۔ ماحول کا جائزہ لے کر اپنے آپ کو کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنا پڑتا ہے۔ محض تبدیل ہونا کافی نہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انسان ضرورت کے مطابق تبدیل ہو۔ ضرورت سے کم یا زائد تبدیلی خرابی پیدا کرتی ہے یا پھر کوئی ایسی کسر چھوڑتی ہے جو کسک پیدا کرتی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلا ہے اور بعض معاملات میں تو تبدیلی اِتنی ہمہ گیر ہے کہ کچھ سمجھنے کے لیے بہت سوچنا پڑتا، متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ لوگوں کا مزاج تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس جبلت پر خلق کیا ہے وہ اگرچہ برقرار ہے مگر معاشی اور معاشرتی معاملات میں بہت کچھ ایسے بدل چکا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ وہ زمانہ اب کہاں‘ جب لوگ صاحبِ دل ہوا کرتے تھے۔ تب کسی بھی بات کا احساس اس قدر ہوا کرتا تھا کہ معاملات کو یونہی راستے میں چھوڑنے یا بے نیازانہ انداز میں آگے بڑھنے کا چلن خال خال پایا جاتا تھا۔ تب لوگ حساس تھے اور رشتوں‘ تعلقات کو کسی بھی قیمت پر نبھانے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کماحقہٗ محسوس کرتے تھے اور معاملات کی درستی میں خاطر خواہ دلچسپی بھی لیا کرتے تھے۔ وہ دور ہی ایسا تھا کہ لوگوں کے دل جڑے ہوئے تھے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے کا رجحان عام تھا۔ یہ چلن زندگی کے کم و بیش تمام معاملات پر محیط تھا۔ لوگ جب کسی کو پریشان دیکھتے تھے تو اُس کی پریشانی دور کرنے تک خود بھی چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ زندگی آسان تھی۔ لوگ بیشتر معاملات میں سادگی کو ترجیح دیتے تھے۔ اپنے بکھیڑے کم ہوا کرتے تھے۔ ایسے میں کسی کی مشکل کو دیکھنا اور سمجھنا آسان تھا۔ جب سمجھنا آسان تھا تو دور کرنا بھی مشکل نہ تھا۔ یہ تھا تب معاشرے کا مجموعی مزاج یا ماحول۔
وقت بدلا تو لوگوں میں تھوڑی سی تبدیلی آئی۔ محض جذبات سے مغلوب ہوکر دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے اور دور کرنے کی ذہنیت کمزور پڑنے لگی۔ وقت نے ایسی کروٹ بدلی کہ لوگ ''حقیقت پسند‘‘ ہوتے گئے۔ اس ''وصفِ عالی‘‘ نے عام آدمی کو ''پریکٹیکل‘‘ بنادیا اور پھر عمومی مزاج ہی بدل گیا۔ کل تک کسی کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے کی ذہنیت عام تھی۔ اب یہ تبدیلی رونما ہوئی کہ تعلقات سے فائدہ اٹھانے کی ذہنیت پنپنے لگی۔ اس ذہنیت کے پنپنے کی صورت میں انسان نے سوچنا شروع کیا کہ کسی سے بھی تعلقات کو کس حد تک بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ یوں لوگ محض مفاد پرست ہوتے گئے۔ ہر معاملے میں اپنے مطلب کی بات تلاش کی جانے لگی۔ پھر بھی یہ بات بہت حوصلہ افزا تھی کہ تعلقات کسی نہ کسی صورت استوار تو تھے، لوگ ایک دوسرے سے کٹ کر، الگ ہوکر جینے کا تو نہیں سوچتے تھے۔ تعلقات سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ کسی کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا۔ کوئی بھی انسان تعلقات سے استفادہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دنیا کا کاروبار اِسی طور چلتا آیا ہے۔ ہاں! تعلقات سے صرف فائدہ اٹھاتے رہنے کی ذہنیت خطرناک ہوتی ہے اور انسان کو محدود کردیتی ہے۔ یہی ذہنیت زندگی ایسی نعمت کو انتہائی محدود کرکے بالآخر بے معنی و بے مصرف کر چھوڑتی ہے۔ لوگوں کا پریکٹیکل ہو جانا اگرچہ تمام معاملات میں کوئی اچھا معاملہ نہ تھا مگر پھر بھی کام چلتا رہا۔ تعلقات کو ڈھنگ سے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لیے کچھ حاصل کرنے کی ذہنیت تمام معاملات میں بُری یا قبیح نہیں ہوتی۔ مگر جب معاملہ بگڑتے ہوئے اس منزل سے آگے بڑھ جائے تو تشویش ضرور لاحق ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ یہ بات عام آدمی اچھی طرح سمجھتا تھا اور اِس کا خیال رکھتے ہوئے چلتا تھا۔ تبدیلیاں آتی رہیں اور ہمیں بدلتی رہیں۔ اب ہمارا ماحول تشویش ناک مرحلے میں اٹکا ہوا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ لوگ محض پریکٹیکل ہونے کی منزل تک پہنچ کر رُکے نہیں یعنی تعلقات سے استفادہ کرنے یا فائدہ اٹھانے کی ذہنیت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اِس سے کئی قدم آگے نکل آئے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ پروفیشنل ہیں یعنی تعلقات اُستوار ہی اُس وقت کرتے ہیں جب اُن سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے! یہ ہے زندگی کو فی الواقع محدود و بے معنی کرنے والی سوچ۔ اکیسویں صدی نے انسان کو بہت کچھ سکھایا ہے مگر غیر معمولی بلکہ خطرناک حد تک پروفیشنل ہو جانے سے انسان نے زندگی کے اخلاقی پہلو کو داؤ پر لگادیا ہے۔
پروفیشنل اِزم کی اصطلاح ہمارے ہاں اپنے اصل مفہوم سے کہیں ہٹ کر مستعمل ہے۔ دنیا بھر میں پروفیشل ہونے کا مطلب ہے اپنے کام کے معاملے میں پوری دیانت کا حامل ہونا۔ اگر کسی کو کوئی کام سونپیے اور وہ پوری دیانت سے پورا کرے تو کہا جائے گا کہ وہ شخص پروفیشنل ہے، اپنے کام سے انصاف کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ پروفیشنل اِزم کیا ہے یہ اگر جاننا ہے تو کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کو دیکھیے۔ وہاں لوگ اپنی معاشرتی اور معاشی زندگی کو الگ الگ رکھتے ہیں۔ خالص گھریلو معاملات کو کام دھندے سے ملانے کا رواج وہاں کب کا ختم ہوچکا۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگ بالکل بے حس اور بے دِل ہوچکے ہیں۔ رشتے بھی ہیں، جذبات بھی ہیں مگر اُن میں جذباتیت نہیں۔ لوگ بات بات پر غیر ضروری جذباتیت کے مظاہرے سے گریز کرتے ہیں۔ حسد کا گراف گرا ہے۔ کچھ کرنے کی لگن جوان رہتی ہے۔ ریاست نے چونکہ بیشتر ذمہ داریاں اپنے سر لے رکھی ہیں اس لیے انسان بے فکر ہوکر پروفیشنل معاملات میں گم رہتا ہے۔ اُسے خانہ و اہلِ خانہ کی فکر بے جا طور پر نہیں ستاتی۔
ترقی یافتہ معاشروں میں اکثریت پریکٹیکل بھی ہوتی ہے اور پروفیشنل بھی۔ پھر بھی وہاں ہر معاملے میں تعلقات سے فائدہ اٹھانے کی ذہنیت نہیں پائی جاتی۔ تعلقات سے اپنے مفادات کشید کرنے کی ذہنیت صرف وہاں ہوتی ہے جہاں انسان کو اپنے وجود پر، اپنی صلاحیت و سکت پر اور کام کرنے کی لگن پر زیادہ بھروسہ نہ ہو۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر انسان کو اپنے تعلقات ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر متوجہ ہونا چاہیے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر معاملے میں صرف مفاد کا سوچا جائے۔ یہاں تو قصہ یہ ہے کہ لوگ عمومی نوعیت کی سلام دعا کو بھی کسی نہ کسی مفاد کی تکمیل کے لیے بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ یہ محدود ذہنیت انسان کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔ جہاں صلاحیت، مہارت اور کام کرنے کی لگن کام کرتی ہے وہاں تعلقات کو بروئے کار لانے اور اُن سے اپنے تمام مفادات کشید کرنے کی ذہنیت زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کامیابی صرف تعلقات کی محتاج ہوا کرتی تو دنیا میں گنتی کے چند افراد ہی کامیاب ہوتے اور ہمیں ہر طرف ترقی دکھائی نہ دے رہی ہوتی۔ محنت اور لگن رنگ لاتی ہے۔ ہاں‘ انسان کو موقع فہم ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اچھا موقع میسر ہو تو اُسے بروقت شناخت کرکے بروئے کار لانے کی مہارت اپنے اندر پیدا کرنا پڑتی ہے۔ آج کی دنیا صرف اُن کے لیے ہے جو مقابلے کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ مقابلہ سخت ہے۔ پریکٹیکل بھی ہونا ہے اور پروفیشنل بھی مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام اخلاقی اقدار کو خیرباد کہتے ہوئے صرف مفاد پرستی کو زندگی کا کلیدی شعار بنایا جائے۔ ایسا کرنے سے زندگی کنویں کے مینڈک کی سی ہو جاتی ہے۔ زندگی فراخی کا نام ہے۔ مفاد پرستی کی پست سطح سے بلند ہوکر اپنے آپ کو کسی بلند مقصد کے لیے تیار کیجیے۔ زندہ رہنے کا لطف اُسی وقت ہے جب آپ دوسروں سے لاتعلق رہ کر صرف مفاد پرستی کے کنویں تک محدود رہنے کے بجائے اُس سمندر میں جئیں جسے معاشرہ کہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved