اس وقت ایک طرف ملک کوطوفانی بارشوں کے باعث ہولناک آفاتِ سماوی کا سامنا ہے تو دوسری طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے سیاسی بحران نے قومی دھارے کی سیاست کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان پر 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کے دوران ایک سیشن جج اور دو اعلیٰ پولیس حکام کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے کے الزام میں اس وقت مقدمہ درج کیا گیا جب وہ اپنے قریبی ساتھی شہباز گِل کی حمایت میں نکالی گئی ایک ریلی سے خطاب کر رہے تھے، جنہیں 9 اگست کو ایک متنازع بیان دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اگرچہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے خان صاحب کی یکم ستمبر تک ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کر لی ہے لیکن اس بات پر غیر یقینی کے سائے منڈلا رہے ہیں کہ آیا سابق وزیر اعظم اگلی سماعت کے بعد گرفتاری سے بچ سکیں گے؟عمران خان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ بنایا گیا ہے جس میں عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ دریں اثنا پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی خان صاحب کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرتے ہوئے انہیں31 اگست کو طلب کیا ہے۔ خان صاحب کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمات پر عالمی ذرائع ابلاغ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مشہور عالمی شخصیات کے علاوہ اقوامِ متحدہ اور ذیلی اداروں نے بھی گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسے سیاسی انتقام کا شاخسانہ قرار دیا ہے؛ تاہم پی ڈی ایم کے رہنمائوں نے اسے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے ایک وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کے ادارے ایک شخص کی باغیانہ سرگرمیوں کا دفاع کرکے اسے سرکشی پر اکسا رہے ہیں۔ مولانا کا کہنا تھا کہ ہم اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی فورمز سے پوچھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ڈیڑھ سال سے نافذ ظالمانہ کرفیو، حریت پسند رہنما یٰسین ملک کے خلاف ریاستی تشدد اور بھارتی مسلمانوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم پر مہذب دنیا کیوں خاموش ہے؟
دوسری طرف خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے عمران خان اور شہباز گل کے خلاف مقدمات کو کائونٹر کرنے کی خاطر علی امین گنڈا پور کی مدعیت میں سابق وزیراعظم نوازشریف، سابق صدرآصف علی زرداری اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ماضی کے چند بیانات کو جواز بنا کر‘ لوگوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے جیسی سنگین دفعات کے تحت انہیں مقدمات میں نامزد کر دیا ہے۔ قبل ازیں پنجاب میں بھی چودھری پرویز الٰہی کی قیادت میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا ء اللہ، سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور لیگی رہنما پرویز رشید کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم کر کے حساب چکتا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگرچہ ماہرین کی نظر میں اب مخالف سیاستدانوں پہ مقدمات کے اندراج کی کوئی خاص قانونی حیثیت نہیں ہو گی کیونکہ یہ بعداز وقت اور خالصتاً جذباتی ردعمل کا نتیجہ نظر آتے ہیں جبکہ ملک کی صف اول کی قیادت کے خلاف ایسے سیاسی مقدمات کے اندراج نے عالمی سطح پر عمران خان کے حق میں نمودار ہونے والے اس بیانیے کو بھی نقصان پہنچایا جس میں عالمی برادری خان صاحب کے خلاف بنائے گئے کیسزکو سیاسی انتقام کا شاخسانہ کہہ کر بے اثر بنا رہی تھی۔ اب نوازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن پہ بنائے گئے کیسز نے عالمی ذرائع ابلاغ میں پیدا کیے جانے والے اُس تاثر کو زائل کر دیا ہے جس میں عمران خان کو سیاسی طرزِ عمل کے لحاظ سے روایتی سیاستدانوں سے مختلف دکھانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
عمران خان اپنی جدوجہد کے دوران ہمیشہ پولیس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی مذمت کرتے ہوئے یہ مثال دیتے رہے ہیں کہ انہوں نے خیبرپختونخوا میں پولیس کو سیاسی دبائو سے آزاد کرکے خالصتاً پروفیشنل فورس بنا دیا لیکن اب ملک کی صف اول کی سیاسی قیادت کے خلاف تراشیدہ مقدمات کے اندراج سے پولیس کے سیاسی استعمال کی ایسی بُری مثال قائم کی گئی ہے جس کا کوئی دفاع نہیں کیا جا سکے گا۔
اس امر میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ ہمارے ملک کا سیاسی مستقبل عالمی سیاست کی حرکیات سے منسلک رہتا ہے، وہ مغربی اشرافیہ جو ماضی میں یہاں آمرانہ حکومتوں کی حمایت میں مفاد تلاش کرتی رہی، افغانستان سے شکست کے بعد وہی اہلِ یورپ اب پاکستان میں سویلین بالادستی کے نقیب بن کر سامنے آنے لگے ہیں۔ ماضی میں مغربی ذرائع ابلاغ میں سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کے دلچسپ قصوں کی گونج سنائی دیتی تھی لیکن کابل سے انخلا کے بعد مغربی میڈیا میں پنڈورا لیکس جیسے سکینڈلز اچھالے گئے جن میں افغان سوویت جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے والے کرداروں کی جائیدادوں کے بارے ہوشربا انکشافات نظر آئے۔ اب بہارِ عرب کی طرح اب عمران خان کی جارحانہ مزاحمت کی ستائش بھی مغربی ذرائع ابلاغ کا پسندیدہ موضوع بن گئی ہے۔یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات ہی ہماری عالمی حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔ امریکہ نے آزادی کے ساتھ ہی ہمیں سیٹو اور سینٹو معاہدات کی وساطت سے سفارتی تعلقات کی آغوش میں لے کر اور آمرتیوں کی سرپرستی کے ذریعے جنوبی ایشیا میں اپنے سٹریٹیجک مفادات کو آگے بڑھایا؛ تاہم 1990ء میں سرد جنگ کے اختتام پر پہلی بار پاک امریکہ تعلقات میں سردمہری اس وقت پیدا ہوئی جب سوویت افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ کو پاکستانی حمایت اور علاقائی انٹیلی جنس کی ضرورت نہ رہی۔ اسی دور میں یہاں مقبول سیاسی قیادت کو ابھرنے کا موقع ملا لیکن نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی جارحیت نے دونوں ممالک کو ایک بار پھر مل کر کام کرنے پر مجبور کیا تو بیس سالوں پہ محیط مہنگی ترین جنگ کے دوران مغربی اشرافیہ نے استعماری تشدد کو سرمایہ فراہم کرکے یہاں سیاسی انتشارکی ایسی مہیب فضا پیدا کی جس میں ملک میں وسیع اثر و رسوخ کی حامل سیاسی قیادت کو موت اور جلا وطنی کی اذیت سے دوچار ہونا پڑا۔
بلاشبہ گریٹ گیم کے تقاضوں کے تحت افغانستان طویل عرصے سے ایک ایسی عینک بنا رہا جس کے ذریعے واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ اپنے تعلقات کو دیکھتا تھا۔ امریکہ نے افغانستان میں جنگ کے آغاز سے اس کے اختتام تک‘ پاکستان سے32.5 بلین ڈالر سے زیادہ کی سول و فوجی امداد کا وعدہ کیا لیکن 2018ء میں جب امریکی فورسز کے انخلا کا شیڈول طے پا گیا تو پاکستان کی امداد معطل کر دی گئی جبکہ 2022ء کیلئے شہری امداد تقریباً 300 ملین ڈالر تک کم کر دی گئی۔ چنانچہ اپنی ضروریات کیلئے پاکستان نے دوسرے ممالک کا رخ کر لیا۔ گزشتہ سال چین سے ہتھیاروں کی درآمد پر 750 ملین ڈالر سے زیادہ خرچ کرکے 25 کے قریب چینی ساختہ جے ٹین سی لڑاکا طیاروں کی پہلی کھیپ حاصل کی گئی۔ اگرچہ ہم طویل عرصے سے چین کے ہتھیاروں کے خریدار رہے ہیں لیکن امریکہ سے بھی دفاعی سامان حاصل کیا جاتا ہے۔ 2010ء میں افغانستان میں امریکی فوجی مشغولیت کے عروج کے دوران پاکستان نے امریکہ سے بلین ڈالر سے زائد مالیت کے ہتھیار درآمد کیے تھے جن میں ایف 16 لڑاکا طیارے بھی شامل تھے؛ تاہم اب چین کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور مستقبل قریب میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے امکانات کافی کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ بادی النظر میں یہی خلیج یہاں جمہوریت اور سویلین بالادستی کی نمو کا محرک بن سکتی ہے۔ یہ امر کس سے ڈھکا چھپا ہے کہ جب بھی امریکہ کو ضرورت پڑی‘ تعلقات قائم کرکے اس نے ہمیں فرنٹ لائن ریاست بنا لیا لیکن مطلب براری کے بعد پھر سے پاکستان کو پابندیوں کا نشانہ بنا دیا۔ بعض ماہرین کی نظر میں چین کے ساتھ پاکستان کا گہرا اتحاد اور دیگر امریکی حریفوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی شراکت داری امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے ایک بالکل مختلف نئے باب کا اشارہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved