ہم نے کیا دیکھا ہے؟ مصیبتیں ہماری ہیں لیکن ان کا زیادہ تر تعلق نالائقی سے ہے۔ ملکی حالات اتنے اچھے نہیں تو زیادہ تر اس لیے کہ مجموعی طور پر ہم میں قابلیت کا فقدان ہے۔ قیادتوں کو کیا روئیں‘ یہاں جو بھی آتا ہے اوسط درجے کا ہوتا ہے۔ اونچے معیار کے لیڈر ہمیں شاذ و نادر ہی نصیب ہوئے ہیں۔
پچھلے سو سال کی تاریخ میں ہماری بڑی ٹریجڈی تقسیمِ پنجاب کا المیہ تھا۔ دونوں اطراف سے جو قتلِ عام ہوا‘ وسیع پیمانے پر تھا۔ تقریباً آٹھ سے دس لاکھ انسان بربریت اور خونریزی کا شکار ہوئے۔ ایک کروڑ کی آبادی ادھر سے اُدھر ہوئی۔ اس المیے کی وجوہات کیا تھیں؟ ایک تو انگریزوں نے جلدی کی‘ تقسیم کے انتظامات کیے نہ گئے لیکن تقسیم کر ڈالی۔ مسلم لیگ بالکل بھی تقسیمِ پنجاب کیلئے ذہنی طور پر تیار نہ تھی۔ قیادت سمجھ ہی نہ سکی کہ تقسیم کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ کسی حد تک اگر امنِ عامہ قائم رکھا جا سکتا تھا تو وہ صرف فوج کر سکتی تھی لیکن کمانڈر اِن چیف ہند فیلڈ مارشل آکن لیک نے صحیح طریقے سے پنجاب میں فوج ڈپلائے نہ کی۔ پولیس کی وفاداریاں بھی بٹ چکی تھیں‘ لہٰذا پولیس کسی کام کی نہ رہی اور انگریزوں نے فوج کو استعمال نہ کیا۔ لیکن پنجاب کی خونریزی کے علاوہ بیسویں صدی میں ہندوستان اور پھر جو دو آزاد مملکتیں بنیں بڑی تباہی سے نہیں گزریں۔ ہاں‘ آپس کی دو تین جنگیں رہیں لیکن اگر بیسویں صدی کی دوسری جنگوں سے ان کا موازنہ کیا جائے تو یہ چھوٹے پیمانے کی لڑائیاں تھیں۔ کہاں پہلی جنگِ عظیم‘ چین اور جاپان کی جنگ‘ دوسری جنگِ عظیم‘ کوریا کی جنگ‘ ویتنام جنگ‘ افغانستان اور عراق پر امریکی حملے اور اُن کے نتیجے میں تباہ کاری‘ اس پیمانے پر تباہی برصغیر پاک و ہند میں نہیں ہوئی۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ جہاں یورپی اور ایشیائی ممالک اتنی تباہیاں سہہ کر اپنے معاشروں کو استوار کرنے میں پھر بھی کامیا ب ہوئے‘ ہمارے جیسا ملک جہاں کوئی بڑی تباہی نہیں ہوئی‘ اپنے معاشرے کو ٹھیک طرح بنا نہیں سکا۔
ہم بہت کچھ برداشت کرنے والے لوگ ہیں۔ قدرتی آفات تباہی پھیلاتی ہیں‘ وسیع پیمانے پر لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں‘ لیکن آفات کی تباہی میں کمی آتی ہے تو جیسے بھی ہے اپنی زندگیاں گزارنے لگتے ہیں۔ اُسی کسمپرسی کی حالت میں۔ نظام ہمارا ایسا ہے کہ فائدہ کچھ طبقات کو پہنچتا ہے‘ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہے‘ بیشتر آبادی کے حصے میں بہت کم آتا ہے اور جنہیں ہم مراعات یافتہ کہتے ہیں وہ حالات کا فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ یہ نظام ہمارا رہا ہے اور یہی رہے گا۔ حکومتوں کے آنے جانے سے اس نظام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چہرے بدل جاتے ہیں‘ بعض اوقات نعرے بدل جاتے ہیں‘ لیکن جس قسم کا غیرمنصفانہ نظام ہے وہ برقرار رہتا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران جس قسم کی تباہی روس میں ہوئی ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پھر جب روسی فوجیں جرمنی میں داخل ہوئیں وہاں جو تباہی مچی اُس کا تصور کرنا بھی ہمارے لیے مشکل ہے۔ جاپان کی تباہی دیکھیے‘ لیکن یہ قومیں اُن حالات سے نکلیں۔ ایوب خان کے زمانے میں تو پاکستان نے مغربی جرمنی کو ایک معمولی سا قرض بھی دیا تھا۔ بیشتر پاکستانیوں کو اس بات پہ یقین ہی نہ آئے لیکن ایسا ہوا تھا۔ لیکن ہم سے حالات سنبھالے نہ گئے۔ اور آج ہمارا شمار دنیا کے نمبر ایک بھکاریوں میں ہوتا ہے۔ ہر ایک کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں اور ہمیں شرم بھی نہیں آتی۔ سمجھ سے بالاتر یہ بات ہے کہ جہاں ملک غریب ہے وہاں خواص کے حالات بہت ہی اچھے ہیں۔ حکمران جس قماش کے بھی ہوں‘ اُنہوں نے جس رنگ کے بھی کپڑے پہنے ہوں‘ اُن کے وارے نیارے ہیں۔ اس بات سے تکلیف ہوتی ہے کہ یہ فرق کیوں ہے اور اس فرق کو ہم برداشت کیسے کر پاتے ہیں۔
تو ٹھیک ہے‘ ہمارے معاشرے جہاں اتنا کچھ سہتے آئے ہیں ان حالات کو بھی سہہ لیں گے۔ تکلیف کچھ زیادہ ہو جائے تو آہ و پکار بڑھ جاتی ہے۔ تکلیف میں افاقہ آ جائے تو رونا دھونا بھی کم ہو جاتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ حالات نارمل ہو رہے ہیں۔ اب بھی ایسا ہوگا۔ نالائقی کے یہی شب و روز ہوں گے لیکن ہم گزارا کرتے جائیں گے۔ معاشرے میں بنیادی قسم کا بگاڑ آ چکا ہے اور وہ یہ ہے کہ اب حالات پر کسی کو شرم نہیں آتی۔ جو مال بناتے ہیں مال بناتے جائیں گے‘ جن کا کام سسکیاں لینا ہے وہ ایسا کرتے رہیں گے۔ پُرعزم معاشرے بھی ہوتے ہیں اور پھر ایسی قومیں بھی ہوتی ہیں جن کے بخت ہار چکے ہوتے ہیں۔ خود ہی فیصلہ کر لیں ہمارا شمار کس کیٹیگری میں ہوتا ہے۔
سب سے بڑی بیماری ہماری یہ ہے کہ نکمے پن اور نالائقی کے ہم عادی ہو چکے ہیں۔ اتنے اوسط درجے کے حکمرانوں کا شاید اور کہیں گزارا نہ ہو لیکن ہم نہ صرف انہیں برداشت کرتے ہیں بلکہ ان کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ جو بیٹھا ہے کھائے جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ انہیں قبول کرتے ہیں۔ اور نظام ایسا جکڑا ہوا بن گیا ہے کہ مخالف آوازیں ہوں تو دب جاتی ہیں یا دبا دی جاتی ہیں۔ بظاہر آئینی آزادیاں پاکستان میں قائم ہیں لیکن اس نظام کے جو بنیادی اجزا ہیں ان کے بارے میں تھوڑی زیادہ لب کشائی ہو تو آگے سے نظام اپنا ردِعمل دکھاتا ہے۔ جو اس نظام کے بنیادی نکات ہیں اُن کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ نظام کے سرپرست اتنے طاقتور ہیں کہ ایسے کسی چیلنج کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا۔ سطحی باتوں پر کوئی پابندی نہیں۔ اُن کے بارے میں آپ بولے جائیں کوئی نہیں روکے گا لیکن نظام کے بارے تھوڑا سا گہرائی میں جائیں تو پھر جوابی ردعمل کچھ اور نوعیت کا ہوتا ہے۔
بہت ادوار سے ہم گزرے ہیں لیکن اتنی ناامیدی کبھی نہ تھی۔ پہلے بھی نالائق لوگ آتے تھے لیکن ہم سمجھتے تھے کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ ایوب خان ہیں تو ان کی حکومت کا ایک دن خاتمہ ہوگا اور آزادی کی صبح طلوع ہوگی۔ ضیا الحق کا سیاہ دور تھا تو ہماری امیدیں جمہوریت کے ساتھ وابستہ تھیں۔ آج کے نوجوان شاید سمجھ نہ سکیں کہ اُس دور میں یہ امید تھی کہ پاکستان کے اچھے دن آنے والے ہیں۔ اب ہر طرف نظر دوڑائیں تو وہی صورتیں نظر آتی ہیں جنہیں پتا نہیں ہم کب سے دیکھ رہے ہیں۔ کسی اور معاشرے میں ایسی سیاسی فصل کا تصور محال ہو لیکن یہاں یہ لوگ لیڈر بنے ہوئے ہیں اور رونا اس بات کا ہے کہ جس قسم کا ہمارا نظام ہے وہ ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اور عوام بے بس ہیں۔
ایک بات البتہ اچھی ہوئی ہے‘ بے چینی اور بیزاری بڑھ چکی ہے۔ پہلی دفعہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ سارے عوام نہیں تو کچھ طبقات ایسے ہیں جو کچھ کرنے کے موڈ میں ہیں۔ کچھ کر نہ بھی سکیں تو کم از کم دلوں میں یہ امید پیدا ہو رہی ہے کہ کچھ تو ہونا چاہیے۔ فرسودہ اور دبے ہوئے معاشرے میں یہ ایک مثبت چیز ہے۔ جنہوں نے نظام سنبھالا ہوا ہے ان کی پوری کوشش ہے کہ حالات ایسے ہی رہیں‘ کوئی چیلنج ہے تو اسے جبر و استبداد سے کرش کر دیا جائے۔ لیکن یہی اچھی چیز ہے کہ کچھ طبقات بپھرے ہوئے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ حالات سے سمجھوتا کرنے میں عافیت سمجھتے تھے۔ ان میں بھی تھوڑی سی جان آ رہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved