پاکستان میں ہر پانچ‘ دس برس کے وقفے کے بعد تباہ کن سیلابوں کا ایک سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ ماضی قریب میں 2010ء کے سیلاب کی مثال دی جاتی ہے۔ اس سیلاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے پہلے آنے والے تمام سیلابوں میں سب سے زیادہ وسیع اور تباہ کن تھا‘ بلکہ ایک بین الاقوامی ادارے نے تو اس کو پاکستان کے ''خاموش سونامی‘‘ کا نام دیا تھا۔ وہ سیلاب بھی موجودہ سیلاب کی طرح سال 2010ء کے تین ماہ‘ یعنی جون سے اگست تک ملک کے تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط انتہائی شمالی اور جنوبی علاقوں میں تباہی مچاتا رہا لیکن رواں سال کے سیلاب نے اپنی تباہ کاریوں میں اپنے سے پہلے تمام سیلابوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب کی لپیٹ میں آ کر گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تین کروڑ سے زیادہ افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی صوبہ سندھ میں ہوئی ہے جہاں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق چار سو سے زائد اموات ہوئی ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ بے گھر ہونے والے افراد میں سے بھاری اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جو زمینوں میں فصل کے حصہ دار کے طور پر کام کرتے تھے۔ اب یہ لوگ اپنے اہل خانہ اور مویشیوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے قیام پذیر ہیں۔ لگاتار بارشوں سے ان کے مٹی کے مکانات زمین بوس ہو چکے ہیں یا چاروں طرف سے سیلاب کے پانی سے گھرے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس گندم‘ چاول یا کھانے کیلئے جو کچھ جمع تھا‘ سب سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔ اب وہ مکمل طور پر خدا ترس شہریوں کی طرف سے فراہم کردہ خوراک پر انحصار کر رہے ہیں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب سے ملک کے چاروں صوبے متاثر ہوئے ہیں اور سڑکوں‘ پلوں‘ گھروں اور فصلوں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا تخمینہ اربوں روپوں میں لگایا جاتا ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے پیشِ نظر اس نقصان کو پورا کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ ابھی تک گزشتہ سیلابوں کی تباہ کاریوں کے اثرات کو پوری طرح مٹایا نہیں جا سکا۔ لیکن اس وقت فوری ضرورت بے گھر ہونے والے کروڑوں انسانوں کو خوراک اور رہائش کی سہولتوں کے علاوہ متعدد بیماریوں سے محفوظ کرنے کیلئے دوائیوں کی ہے۔ حسبِ سابق پاکستان کے مخیر شہری بڑھ چڑھ کر یہ امداد فراہم کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیلاب متاثرین کی حالتِ زار کی طرف قومی توجہ مبذول کروانے میں میڈیا نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں تو بیانات اور الزامات کی جنگ میں الجھی ہوئی ہیں۔ اگرچہ اعلیٰ حکام سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں‘ مگر متاثرہ لوگوں کی مشکلات میں کمی نہیں ہو رہی کیونکہ سیلاب نے آبادیوں کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اور اس کی وجہ سے ان تک مخیر شہریوں کی طرف سے کھانے‘ پینے اور استعمال کیلئے ضروری اشیا بھی نہیں پہنچ پا رہیں۔جن لوگوں کو صورتحال کی ذرا سی بھی خبر ہے وہ اس کی ہولناکیوں کے پیش نظر میڈیا پر دہائی دے رہے ہیں کہ اس وقت فوری طور پر اور بغیر کسی تامل کے کرنے کا کام ان ہزاروں بچوں‘ عورتوں اور مردوں کو زندہ رکھنے کیلئے خوراک اور دیگر اشیا پہنچانا ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ سیلاب میں ضائع ہو جانے والی جانوں کی تعداد اور دیگر نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ محکمہ موسمیات اور قدرتی آفات سے متعلقہ دیگر اداروں کے اعلانات کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ اگست سے آگے ستمبر میں بھی جا سکتا ہے اور ملک کے باقی حصے جو اب تک محفوظ ہیں‘ خطرناک سیلاب کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں‘ کیونکہ شمالی علاقوں میں لگاتار بارشوں سے بپھرنے والے دریاؤں کا پانی اب پنجاب اور سندھ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حکومت اور اس کے کارندے‘ جو پہلے ہی جانفشانی کے ساتھ اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد میں دن رات تگ و دو کر رہے ہیں‘ اب مزید پریشر میں آ جائیں گے۔ اس لیے پہلے سے کی جانے والی کوششوں اور انتظامات میں دوگنا اضافہ کرنا پڑے گا۔
وزیراعظم نے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے اتحادی پارٹیوں کا ایک اجلاس بلایا ہے۔ اس اجلاس کا مقصد قومی سطح پر ایک مربوط پروگرام کے ذریعے سیلاب کی موجودہ صورتحال پر قابو پانا ہے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے تجویز دی گئی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ عوام توقع رکھتے ہیں کہ سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر مرکز اور دو بڑے صوبوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والی حکومتوں کے درمیان تعاون قائم ہو گا جس سے متاثرین کی مؤثر امداد کی جا سکتی ہے کیونکہ وفاقی حکومت کی طرف سے جس امدادی پیکیج کا بھی اعلان ہوگا‘ اس پر عمل درآمد کیلئے صوبائی حکومتوں کا تعاون اشد ضروری ہے۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دو صوبوں یعنی سندھ اور بلوچستان میں مرکز کے ساتھ تعاون میں تو کسی رکاوٹ کا خدشہ نہیں البتہ خیبر پختونخوا اور پنجاب‘ جہاں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دریاؤں کا پانی کناروں سے اچھل کر متعدد اضلاع میں آبادیوں اور فصلوں کیلئے خطرہ بن رہا ہے‘ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون کا حصول مسئلہ بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد حلقوں کی طرف سے اپیل کی جا رہی ہے کہ سیاست کو فی الحال ایک طرف رکھ کر عوام کو اس آفت سے نجات دلانے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں‘ مگر ان اپیلوں کے حوصلہ افزا جواب کے آثار نظر نہیں آتے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کا اس وقت فوکس ستمبر میں ہونے والے ضمنی انتخابات پر ہے۔ 9سیٹوں پر چونکہ وہ خود بطور امیدوار حصہ لے رہے ہیں‘ اس لیے وہ ان حلقوں میں جلسوں اور اجتماعات سے خطاب کرکے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اگرچہ 27اگست کو جہلم میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یکے بعد دیگرے ان جلسوں کے انعقاد کے دو مقاصد سے حاضرین کو آگاہ کیا ہے‘ ایک یہ کہ سیلاب سے گھرے ہوئے لوگوں کی امداد کیلئے پی ٹی آئی اور اس کی حکومتوں کو متحرک کرنا‘ اور دوسرا پی ڈ ی ایم کی موجودہ وفاقی حکومت کو فوری انتخابات پر مجبور کرنے کیلئے کارکنان کو اسلام آباد کی طرف مارچ کیلئے تیار کرنا۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی نے 25 مئی کو مارچ کی ناکامی کے بعد اس دفعہ نئی حکمت عملی وضع کی ہے اور ہر ضلع میں اس حوالے سے تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس لیے پارٹی اورکارکنان کی توجہ کا مرکز اور اولین ترجیح سیلاب نہیں بلکہ اسلام آباد کی طرف مارچ ہے۔ اس کے بالکل برعکس دنیا کے دیگر ممالک میں ایسی صورتحال پیدا ہو تو الیکشن چھوڑ کر متحارب پارٹیاں اور امیدوار سب سرگرمیاں معطل کرکے لوگوں کی زندگیاں اور گھر بار بچانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس ضمن میں امریکہ کے سابق صدر اوباما کی مثال دی جا سکتی ہے۔ دوسری دفعہ صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران اکتوبر 2012ء میں شدید سمندری طوفان سینڈی (Sandy) کی تباہ کاریوں کے پیش نظر انہوں نے یہ کہہ کر اپنی صدارتی مہم معطل کر دی تھی اور واشنگٹن پہنچ کر امدادی مہم کا چارج سنبھال لیا تھا کہ ''الیکشن ہوتا رہے گا‘ اس وقت میری اولین ترجیح انسانی جانوں کا بچانا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''مجھے اس کی کوئی پروانہیں کہ (صدارتی) انتخاب کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے‘ مجھے فکر اس بات کی ہے کہ سمندری طوفان سے کنبوں پر کیا اثر پڑتا ہے‘ اس سے قومی معیشت اور انفراسٹرکچر کو کتنا نقصان ہوتا ہے‘‘۔ اوباما کے م مقابل صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے بھی اپنی مہم سے متعلقہ بہت سی تقریبات کو منسوخ کرکے یہ کہا تھا کہ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ انسانی جانوں کو بچانے کا ہے‘ جس کے لیے ہم سب کو مل کر کوشش کرنی چاہیے۔کاش ہمارے سیاستدان اس قسم کی مثالوں سے سبق حاصل کر سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved