جب حکومت اپوزیشن کی ایک تگڑی آواز بند کر دے گی‘ جب ٹی وی پر اس کا چہرہ دکھانے پر بھی پابندی لگا دی جائے گی تو پھر حکومتی ترجمانوں کی شعلہ بیانیوں کا جواب دینے کیلئے وہ کیا طریقہ اختیار کرے گی؟ جب عمران خان کی تقاریر براہِ راست دکھانے پر پابندی عائد کی گئی تو حکومتی اراکین کو جیسے موقع ملا گیا۔ ہر دو گھنٹے بعد کوئی نہ کوئی وزیر یا ترجمان اپنی توپوں کا رخ پی ٹی آئی اور عمران خان کی جانب کر لیتا تھا۔ گو کہ پہلے بھی اس میں کوئی کمی نہیں کی جا رہی تھی مگر اس دوران جھوٹے سچے الزامات لگا کر یکطرفہ بیانیہ تشکیل دینے کی بھرپور کوشش کی گئی اور عمران خان کی تقاریر پر پابندی کے باعث ان الزامات کی وضاحت ہی نہ ہو سکی جس کی وجہ سے حکومتی زعما اپنے زعم کا شکار رہے کہ اب وہ عوام کی نظروں میں عمران خان کو ایک ولن ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس دوران ہر پریس کانفرنس اور ہر ٹاک شو میں ایک بات لازمی دہرائی جاتی تھی کہ یہ نازک وقت ہے‘ قوم سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے‘ لہٰذا سیاست ترک کرتے ہوئے سب کو ملک و قوم کے لیے آگے آنا چاہیے۔ اس وقت سیاست نہ کریں۔ حکومت کی عائد کردہ پابندی کا خلاصہ تو گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہو گیا جب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت نے عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر عائد پابندی سے متعلق پیمرا احکامات کو عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے فریقین کو جواب کیلئے نوٹس جاری کر دیے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ بادی النظر میں پیمرا نے عمران خان کی تقریر پر پابندی لگا کر اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے‘ موجودہ حالات میں تقریر پر پابندی کی کوئی مناسب وجہ نظر نہیں آتی۔ جہاں تک بات سیاست کی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اٹھتے‘ بیٹھتے‘ سوتے‘ جاگتے آپ ہر وقت سیاست کریں اور الزامات لگائیں عمران خان پر مگر انہیں یہ کہیں کہ یہ سیاست کا وقت نہیں۔
حکومتی ترجمانوں کی زبان سے سیاست نہ کرنے کا مشورہ سن کر میرے ذہن میں قریب پانچ دہائیوں پہلے کا ایک منظر ابھر آیا۔ مئی 1972ء میں حکومت سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی پیپلز پارٹی کی جانب سے راقم پر ضابطہ فوجداری کی مختلف دفعات‘ جن میں املاک کو جلانا، قتل کرنے کیلئے کسی کو شدید ضربیں لگانا، حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانا اور ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ ڈالنے کے علاوہ امن عامہ کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات کے تحت مختلف تھانوں میں چار مقدمات درج کرا ئے گئے۔ تین مقدمات میں تو سیشن کورٹس سے میری ضمانتیں ہو گئیں لیکن ایک مقدمے سے متعلق وزیراعلیٰ ہائوس سے متعلقہ حکام کو خصوصی حکم ملا کہ ہر حالت میں اسے گرفتار کرنا ہے۔ اس پولیس سٹیشن‘ جہاں پر یہ مقدمہ درج ہوا تھا‘ کے ایس ایچ او میرے والد محترم کے جاننے والے تھے۔ انہوں نے مرحوم والد صاحب کو بتا دیا کہ آپ کے بیٹے کی ضمانت نہیں ہو گی‘ اس لیے اسے تاکید کیجئے کہ عدالت سے کھسک جائے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری وکیل جیسے ہی بولنا شروع کرے‘ یہ میری جانب دیکھنا شروع کر دے۔ جیسے ہی میں اسے آنکھ کا اشارہ کروں‘ یہ چپکے سے کمرۂ عدالت سے باہر نکل جائے اور جس قدر تیز بھاگ سکتا ہے‘ بھاگ جائے۔ اس کے پیچھے پولیس اہلکار بھی بھاگیں گے لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا اور پہلے سے طے شدہ مقام کی جانب بھاگتا رہے۔ ہوا بھی ایسا ہی۔ جیسے ہی کمرۂ عدالت میں سرکاری وکیل نے دلائل دینا شروع کیے تو میں نے اپنے اس مہربان کی جانب دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ ایک جھوٹے کیس میں مجھے پھنسایا جا رہا ہے مگر سرکاری ڈیوٹی کے سبب وہ مجبور تھے؛ تاہم انسانی ہمدردی کے طور پر انہوں نے مجھے یہ مشورہ دیا تھا۔ عبوری ضمانت کے منسوخ ہونے کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی انہوں نے مجھے اشارہ کیا۔ میں نے چپکے سے کمرۂ عدالت سے باہر پائوں رکھا اور پھر اس تیزی سے بھاگنا شروع کیا کہ پولیس میری گرد تک بھی نہ پہنچ سکی۔ پہلے سکول اور پھر کالج کی ہاکی ٹیم کا بہترین کھلاڑی ہونے کا میں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف میں ہائیکورٹ پہنچا جہاں نامور وکیل اور سیاست دان میاں محمود علی قصوری نے بلامعاوضہ میرا مقدمہ لیا اور اس پر آج بھی میں ان کیلئے دعاگو ہوں کہ باری تعالیٰ ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ درجات عطا فرمائے، آمین!
ہائیکورٹ میں میری درخواستِ ضمانت منظور کر لی گئی لیکن اب معاملہ یہ تھا کہ ہر دوسرے‘ تیسرے دن کسی نہ کسی کیس کے حوالے سے میری عدالتوں میں پیشیاں اس طرح ہوتی تھیں کہ ہر بار مجھے خود عدالت میں حاضر ہونا پڑتا تھا۔ اندازہ کیجئے کہ اس سے میری تعلیم کا کس قدر حرج ہوا ہو گا جبکہ جو مالی بوجھ آن پڑا تھا اس کا تو کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔ میرا وکیل بار بار استدعا کرتا رہا کہ سائل کے خلاف درج تمام مقدمات کی سماعت کیلئے ایک ہی دن مقررکر لیا جائے لیکن کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔ وہ پانچ‘ سوا پانچ سال میں نے اسی خواری اور اذیت میں گزارے۔ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا اور جہاں انہوں نے اور بے شمار احکامات جاری کیے‘ وہیں پر بھٹو دورِ حکومت کے دوران ملک بھر میں سیاسی مخالفین پر درج کرائے گئے تمام مقدمات بھی خارج کرا دیے۔ اس بہتی گنگا میں ہم نے بھی ہاتھ دھوئے اور ہزاروں دیگر افراد کی طرح سکون کا سانس لیا لیکن نوجوانی کے پانچ قیمتی برس ضائع ہو چکے تھے۔ جب ان مقدمات سے جان خلاصی ہوئی تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اگر آج ضیاء الحق کی حمایت میں ایک جملہ بھی کہہ دیا جائے تو ''جمہوریت پسند‘‘ عناصر ہمیں جمہوریت دشمن اور آمریت کے حامیوں جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ اس پر ہم انہیں یہی جواب دیتے ہیں کہ ''تم کیا جانو کہ 'جمہوریت‘ میں ہم پہ کیا گزرتی رہی‘‘۔
آج کل ہر کوئی پی ٹی آئی اور عمران خان پر ان الفاظ کے ساتھ گولہ باری کرتا دکھائی دے گا کہ ''جب پورے ملک میں سیلاب کا عذاب چھایا ہوا ہے تو انہیں جلسے کرنے کی پڑی ہوئی ہے، فی الوقت تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کر دینی چاہئیں، جب سیلاب اترے گا تو سیاست ہوتی رہے گی، وغیرہ وغیرہ‘‘۔ میں اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر دعوے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ بیانیہ نہ صرف مخصوص سیاسی مقاصد کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے بلکہ یہ الفاظ یاد کرانے کیلئے باقاعدہ ''دودھ پتی‘‘ بھی کارفرما ہے۔ جب عمران خان کو نشانہ بنانے کی یہ آوازیں ایک تواتر سے ابھرتی ہیں تو ملک بھر میں سیلاب کی ہوشربا اور کربناک تباہ کاریاں دیکھنے والوں کے ذہن ایک لمحے کیلئے ان خوشنما اور اثر انگیز آوازوں کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ کون بتائے گا کہ جب سیلاب کی تباہ کاریوں سے پاکستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک لاشوں کے انبار نظر آ رہے تھے‘ جب ہزاروں لوگوں کے گھر زمین بوس ہو چکے تھے اور ایک کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے بھوک اور پیاس سے جاںبلب تڑپ رہے تھے‘ جب ہر لمحے چہار جانب سے پانی کی تباہ کاریاں جان کو آ رہی تھیں تو ایسے وقت میں کون یہ کہہ رہا تھا کہ عمران خان کے بنی گالا گھر کے ایک ایک کونے کی تلاشی لینے کیلئے مجسٹریٹ سے تلاشی کا وارنٹ جاری کرائو؟ کس نے کہا تھا کہ دیگر ریاستی اداروں کے علاوہ سپیشل پولیس کے ایک ہزار جوانوں کو آنسو گیس کے ہزاروں گولوں، قیدیوں والی پانچ وینزاور تین بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ تیار رہنے کا حکم دو؟ کس نے مشورہ دیا تھا کہ عمران خان کو ایک دن توہین عدالت اور دوسرے دن دہشت گردی کے مقدمات میں اپنی ضمانت کرانے کیلئے عدالتوں میں دھکیلو۔ یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ ہر روز عمران خان اور پی ٹی آئی رہنمائوں پر مقدمے درج کرا کے سیاسی درجہ حرارت کو بڑھاتے جائو۔ ایک جانب حکومتی اتحاد چاہتا ہے کہ پوری حکومتی طاقت کے ساتھ عمران خان اور ان کیلئے ہمدردی رکھنے والوں کو کچل دیا جائے۔ جھوٹے سچے مقدمات میں انہیں گرفتار کر کے روایتی تھرڈ ڈگری تشدد کی انتہا کر دی جائے اور پھر اپنے مہروں کو آگے کر دیا جائے کہ سوشل میڈیا اور ٹاک شوز میں ان کی خوب خبر لیں کہ یہ درد کی شدت سے چیخ کیوں رہے ہیں؟ انہیں کہا جائے کہ یہ سیاست کا وقت نہیں ہے، خبردار! ہلکی سی آہ بھی نہ نکلے۔
جب وزیراعظم شہباز شریف سیلاب زدگان کے پاس جا کر بھی اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف کر دیں گے، جب ایسے نازک موقع پر بھی نشانہ عمران خان کو ہی بنائیں گے تو دوسروں سے کیسے امید رکھیں گے کہ وہ خاموش رہیں گے؟ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ آپ کیلئے سیاست میں ہر حربہ جائز ہے۔ اس وقت بھی جب ہر طرف سیلاب کے باعث ہاہاکار مچی ہوئی ہے‘ پی ڈی ایم کا ہر چھوٹا بڑا رہنما جیسے ہی ٹی وی کی سکرین پر آتا ہے تو اس کے منہ سے نکلتے شعلے عمران خان ہی کی طرف لپکتے ہیں۔ اب اسے سیاست نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ پی ٹی آئی پر آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگائیں اور اپنے مہروں کے ذریعے اس الزام کی اس قدر تشہیر کریں کہ ان کی حب الوطنی مشکوک ہو جائے اور ان سے یہ امید رکھیں کہ وہ اس کا جواب بھی نہ دیں۔ کل تک پی ٹی آئی‘ آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے ''ملک کو گروی‘‘ رکھ رہی تھی، ''سٹیٹ بینک کا سودا‘‘ کر رہی تھی اور آج جب پنجاب اور کے پی کی حکومتیں یہ کہہ رہی ہیں کہ سیلاب کے باعث آئی ایم ایف کے اہداف پورے نہیں کیے جا سکتے تو ان کا یہ اعتراض ہی وطن سے دشمنی بن گیا کیونکہ آج پیمانہ بدل چکا ہے اور آج آئی ایم ایف کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی اصل وطن دوستی قرار پائی ہے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ اس وقت چونکہ ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور اس وقت سیاست نہ کی جائے تو سب سے پہلے حکومت کو اپنے طرزِ عمل سے اس بات کی گواہی دینی ہو گی کہ وہ اس میں سنجیدہ ہے۔ پی ڈی ایم سرکار سیاست کے حوالے سے کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ تو اس کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی ہی سے ہو جاتا ہے کہ جس میں پی ٹی آئی کو دعوت ہی نہیں دی گئی۔ پی ٹی آئی کے بغیر بھلا کیسی اے پی سی؟ گزشتہ دنوں ایک وفاقی وزیر صاحب کہہ رہے تھے کہ پچھتر فیصد ملک پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور گالیاں ہمیں دی جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پچھتر فیصد ملک اس وقت پی ٹی آئی کے پاس ہے‘ اس کے باوجود سیلاب کے لیے قائم کی گئی فلڈ ریلیف کمیٹیوں میں پی ٹی آئی ممبران کی عدم شمولیت سے کیا تاثر دیا جا رہا ہے؟ ''سیاست نہ کریں‘‘ کا مشورہ حکومت کو پی ٹی آئی کو دینے سے قبل اپنے استعمال میں لانا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved