''ذرا یہ پیڑ دیکھیے۔ پیوندی پیڑ ہے۔ اسی ایک درخت پر آڑو‘آلو بخارا اور خوبانی اکٹھے ایک ہی موسم میں لگتے ہیں۔ نہایت میٹھے اور رسیلے۔ آپ کھا کر خوش ہو جائیں گے‘‘۔ میں نے پیڑ کو دیکھا۔ بوٹا سا قد۔ پتے کم کم۔ جس جگہ قلم لگی تھی وہاں ایک تنا سفید رنگ اور ایک تناگہرے سیاہ رنگ کا نمایاں تھا۔
لاس اینجلس‘ امریکہ میں ہمارے میزبان اپنے خو صورت گھر کے درختوں کا تعارف کرا رہے تھے۔ اسی حصے میں امرود کے پیڑ پر اتنے بڑے امرود لگے ہوئے تھے کہ میں نے کبھی ایسا سائز نہیں دیکھا تھا۔ مالٹوں کا لدا ہوا درخت بھی اپنی انفرادیت میں نمایاں تھا لیکن یہ دونوں درخت نامیاتی یعنی آرگینک تھے ہائبرڈ نہیں۔ جبکہ پہلے والا درخت ہائبرڈ ٹیکنالوجی کا نیا نمونہ تھا۔ باغبانی میں ہائبرڈ ٹیکنالوجی کافی پہلے سے پاکستان میں فروغ پا چکی ہے۔ روز اس سلسلے میں نئی چیزیں سننے اور دیکھنے میں آتی ہیں لیکن آڑو‘ آلو بخارے اور خوبانی کا ایک ہی پیڑ پر اُگنا کم از کم میرے لیے تعجب خیز اور نیا تھا۔ نیا تو خیر بہت کچھ ہے۔ لاس اینجلس میں آم اور سنگتروں کو ایک ہی وقت میں درختوں پر پکتے دیکھنا بھی حیرت انگیز ہے نا؟ لیکن یہ موسم کا فیضانِ نظر تھا یا مٹی کی کرامت‘ معلوم نہیں۔ لیکن اس ایک پل جب میں اس ہائبرڈ درخت کو دیکھ رہا تھا‘ یہ مجھے امریکہ کی علامت محسوس ہوا۔ تمام درختوں سے جدا۔ سفید اور سیاہ کا امتزاج۔ مختلف نسلوں کا انسلاک۔ جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار اور ایک ہی درخت پر مختلف پھلوں کا اشتراک۔ مٹی‘ موسم اور مزاج سے ہم آہنگ۔ درختوں کی دنیا میں ایک نئی دنیا کا باشندہ۔
اطالوی نژاد کرسٹوفر کولمبس نے امریکہ ہسپانوی نژاد بادشاہوں کی مدد سے دریافت کیا۔ مزید ہسپانوی اس دنیا میں داخل ہوئے۔ بس پھر تو ولندیزی‘ پرتگیزی‘ فرانسیسی‘ اطالوی اور انگریز قوموں کی بھی یلغار ہوگئی۔ جس کے ہاتھ اس براعظم کا جو ٹکڑا لگا وہ اس پر قبضہ کرکے بیٹھ گیا۔ زمینوں پر لڑائیاں ہوئیں‘ ہر قوم کے حصے میں کبھی فتح اور کبھی شکست آئی لیکن اصل شکست زمین کے اصل باشندوں کو ہوئی۔ لڑنا‘ شکست کھانا اور زمین نئے قابضین کیلئے چھوڑتے جانا ریڈ انڈین قبائل کا مقدر ہوگیا۔ وہ مسلسل کٹتے گئے اور پیچھے ہٹتے گئے۔ سفید رنگ آہستہ آہستہ پورے براعظم پر چھا گیا۔
اس سفید درخت میں کالے تنے کی قلم اس وقت لگی جب افریقہ کے ساحلوں سے سیاہ فام مرد و زن جانوروں کی طرح گھیرے اور پکڑے گئے۔ پھر جانوروں سے بدتر حالات میں نئے براعظم میں لائے‘ بیچے اور خریدے گئے۔ زمین بہت بڑی تھی اور کام کرنے کے لیے غلاموں کی ضرورت شدید۔ چنانچہ آباد کاروں کے ساتھ غلاموں کی آبادی بھی بڑھنا شروع ہوئی اور غلام اور لونڈیاں ملک کے ہر حصے میں زنجیرِ پا بجاتے ہوئے پھرنے لگے۔ اکثر سفید فام جب نسل در نسل لڑائی سے تھک گئے تو ایک ملک بنانے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ ایک طویل جنگ لڑی اور ایک براعظم کو ایک ملک بنادیا۔ ایک ہائبرڈ ملک۔
اور اب اس ہائبرڈ ملک میں ایک ہی درخت پر کئی کئی طرح کے پھل اگ رہے ہیں۔ نسلوں کی رگوں کے اندر اطالوی‘ ہسپانوی‘ پرتگیزی‘ برطانوی‘ فرانسیسی خون بھلے دوڑتا ہو لیکن سب ایک مزاج‘ ایک زبان اور ایک ثقافت کے پروردہ ہیں۔ رنگا رنگی میں ایک نئے رنگ کا اضافہ ہو چکا ہے جو پاکستانیوں‘ ہندوستانیوں اور بنگالیوں سے عبارت ہے۔ یہ گندمی نسل اب اس معاشرے کا بڑاہم حصہ ہے۔ اور پوری طرح رچی بسی ہوئی۔
یہ دعویٰ یا خوش فہمی تو مجھے کبھی نہیں رہی کہ میں کسی اجنبی معاشرے کے خمیر کو وہاں مدتوں سے رہنے اور بسنے والوں سے زیادہ جانتا ہوں۔ بطور سیاح کسی ملک اور قوم کو قریب سے دیکھنا اور بات ہے اور اس معاشرے کا حصہ ہونا بالکل اور بات۔ اور یہ کام ہے بھی بہت مشکل۔ اپنے سے برتر معاشروں پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم احساسِ کمتری اور بعض صورتوں میں احساسِ برتری سے نکل ہی نہیں پاتے اور یہ احساسِ برتری بھی دراصل کمتری کے احساس سے ہی پھوٹ نکلتا ہے۔ مرعوب نظر یا تنگ نظری وہ دو خرابیاں ہیں جو ہمیں کبھی ایک انتہا اور کبھی دوسری کی طرف لے جاتی ہیں اور مشاہدے کا ٹھیک اور انصاف پر مبنی تجزیہ کرنے نہیں دیتیں۔
تاہم ایک زمانے سے بہت سے ملکوں کی بادیہ پیمائی کرتے کرتے بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ ہونے لگا ہے۔ اور عادت کچھ ایسی پڑگئی ہے کہ نگاہ کسی منظر کے دونوں پہلو پرکھنے لگتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ امریکی معاشرے بلکہ نظام کی خوبیاں اتنی اَن گنت ہیں کہ کتاب بھر مواد بھی اس کے لیے کافی نہیں اور اس پر بہت کچھ لکھا بھی جا چکا ہے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ عام لوگوں کی تربیت اس طرح ہوئی ہے کہ وہ بنائے گئے نظام سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے اور اگر نکلنا چاہیں بھی تو بے رعایت قانون اور انصاف ایسا ٹھیک کرتا ہے کہ دوبارہ نکلنے کی ہمت نہیں ہو سکتی۔
سورج آنکھوں کے سامنے چمک رہا ہو تو منظر دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سے رخ پھیر لیں تو بہت آسان۔ اگر امریکہ کی تاریخ سے چشم پوشی کر لیں۔ مقامی اور اصل باشندوں کے قتلِ عام سے منہ پھیر لیں۔ دنیا بھر کی اقوام سے امریکی طرزِ عمل کو بھلا دیں۔ عالمی سطح کی دروغ گوئیوں‘ دھوکے بازیوں‘ بد عہدیوں کو یکسر فراموش کر دیں۔ گزشتہ اور حالیہ صدیوں میں کمزور ملکوں پر امریکی فوج کشی کو جائز قرار دے دیں یا کم ازکم سکوت اختیار کر لیں تو پھر توجہ صرف امریکی معاشرے اور نظام کی خوبیوں پر مرکوز کردینا آسان ہوجاتا ہے۔ اپنا گھر کیسا سنوارا ہے انہوں نے۔ رشک آتا ہے۔ نسل در نسل اور صدی در صدی کی محنتوں کے بعد وہ اگر سب سے آگے کھڑے ہیں تو اس محنت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اپنے لیے کیسا زندہ اصولوں پر معاشرہ اور نظام بنایا ہے۔ نظام بھی ایسا ویسا نہیں‘ نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار۔ کوئی الٹا سیدھا سربراہ بھی آجائے تو بھی نظام اسے ایک حد سے نکلنے نہیں دیتا۔ مطلق العنانی کے شوقین جو مرضی کرتے رہیں۔
کیا یہ چھوٹی بات ہے کہ تیس چالیس بڑے چھوٹے شہروں‘ پندرہ بیس طیران گاہوں‘ سینکڑوں شاہراہوں‘ اَن گنت طعام گاہوں اور بے شمار لوگوں سے ڈیڑھ ماہ تک مسلسل رابطے میں ایک سیاح کو کہیں کسی جگہ لڑائی جھگڑا نظر نہ آئے۔ لڑائی تو بڑی بات ہے‘ کچھ سیاہ فاموں کو چھوڑ کر اونچی آواز میں کوئی بات کرتا دکھائی نہیں دے۔ کوئی سڑک‘ فٹ پاتھ‘ پانی کی نکاسی کے راستے یا گٹر کے ڈھکن ٹوٹے نظر نہ آئیں۔ تعمیر اور مرمت کے کام مسلسل جاری دکھائی دیں۔ اجتماعی طور پرکوئی شخص کسی دوسرے کے معاملات کی ٹوہ لیتا یا مداخلت کرتا نظرنہ آئے کہ اس کی فرصت ہی نہیں ہے۔ روایتی امریکی بے مروتی کے باوجود اس کے متوازی رویوں میں انسان کی قدر دکھائی دیتی ہے۔ اقبال نے کہا تو اپنوں کے لیے تھا لیکن سچ یہ ہے کہ یہ بات صادق اس مخلوط معاشرے پر ہے:
نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
تمیزِ رنگ و بو برما حرام است
کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم
(نہ افغان ہوں نہ تاتاری اور نہ ترک‘ چمن کا بیٹا ہوں اور اسی ایک شاخ سے پھوٹا ہوں۔ رنگ و نسل کی تمیز مجھ پر حرام ہے۔ کہ میں نے ایک نوبہار کی آغوش میں پرورش پائی ہے)
ہم نامیاتی پھل سہی اور اس کی بہت سی خصوصیات کے حامل سہی‘ لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے ساتھ بود و باش رکھنے والے مختلف پھلوں کے نئے ذائقے کا سوچا ہے۔ ایک ہائبرڈ ملک کی طرح۔ جہاں ایک مخلوط ذائقہ چکھا جا سکتا ہے۔ جہاں کہا جا سکتا ہے کہ
زباں پر ذائقے انجیر اور زیتون جیسے
ہوا میں رس کسی مشروبِ میوہ دار جیسا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved