سیلاب نے ہمیں جانی و مالی ہر طرح سے نقصان پہنچایا ہے جس کا ازالہ ہوتے ہوتے کئی دہائیاں بیت جائیں گی لیکن آفت کی اس گھڑی میں امید کی ایک کرن بھی نظر آئی کہ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان سے بھی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں کہ کالاباغ ڈیم وقت کی ضرورت ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر اب بھی ہم نے حالات و واقعات سے سبق نہ سیکھا اورکالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرکے عملی قدم نہ اٹھایا تو پھر شاید یہ اہم قومی منصوبہ کبھی نہیں بن سکے گا۔ اگر اب بھی ہزاروں قیمتی جانیں قربان کر کے‘ اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کر کے‘ سینکڑوں دیہات، قصبے اور شہر صفحۂ ہستی سے مٹا کر بھی ہم زمینی حقائق کو تسلیم نہ کریں اور قومی ترقی کے ضامن میگا پروجیکٹ کے مخالفین کو وطن دشمنی کی سزا نہ دیں تو پھر خدانخواستہ ہماری نسلیں اس کی سزا بھگتیں گی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آج کل سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد کالاباغ ڈیم کی حمایت میں آواز اٹھا رہی ہے جو یقینا منصوبے کے حوالے سے مثبت رائے عامہ ہموار کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
گزشتہ کالم میں خیبر پختونخوا اور سندھ کے تحفظات کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ چونکہ پنجاب اس کا سب سے بڑا حامی ہے تو قارئین کے سامنے سب سے بڑے صوبے کا ٹھوس موقف بھی تفصیل سے پیش کیا جانا ضروری ہے۔ پنجاب کے نقطہ نظر میں کالاباغ بند کے علاوہ بھی دو بڑے منصوبے بھاشا اور سکردو ڈیم بھی تعمیر کیے جانے چاہئیں۔ کالاباغ ڈیم چونکہ ان تینوں منصوبوں میں بہتر وسائل کی دستیابی کی وجہ سے قابلِ عمل ہے تو اسے سب سے پہلے تعمیر ہونا چاہیے۔ بہاولپور اور بہاولنگر کے علاقے کالاباغ ڈیم کے ذخیرے سے سب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔ پنجاب میں اس ڈیم کی تعمیر کے حق میں کئی مظاہرے بھی کیے جا چکے ہیں۔
1960ء کے اوائل میں بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر پاکستان نے دستخط کیے، اس معاہدے کے تحت ستلج اور بیاس کے حقوق بھارت کو دے دیے گئے۔ تب سے بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس کو صرف سیلابی پانی کے اخراج کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ پاکستان‘ بھارت کے ساتھ ہوئے اس معاہدے کی رو سے ان دریائوں پر بند کی تعمیر کا حق رکھتا ہے؛ تاہم ہماری وفاقی حکومت ان میں سے کسی بھی منصوبے پر واضح کامیابی حاصل نہیں کر سکی جس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب کو فراہم کیا جانے والا پانی صرف تین دریائوں تک محدود ہو گیا۔ پنجاب کے نقطہ نظر میں کالا باغ ڈیم دو دریائوں یعنی دریائے راوی، ستلج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی کے نتیجے میں ہونے والے صوبائی نقصانات کا بہتر نعم البدل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ صوبائی نقصان بلاشبہ وفاقی سطح پر ہونے والی زیادتی ہے جس کے ذمہ دار دوسرے صوبے بھی ہیں۔ صوبہ پنجاب کی اس منصوبے کی حمایت دراصل اس حقیقت سے بھی جڑی ہوئی ہے کہ کالا باغ ڈیم سے تقریباً 3600 میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکتی ہے جو پاکستان کی توانائی کے مسائل ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بجلی نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہو گی کیونکہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کی نسبت انتہائی سستی ہوتی ہے۔ پنجاب نے اس منصوبے پر اپنے موقف میں لچکداری کا مظاہرہ کیا ہے اور کالاباغ منصوبے سے حاصل ہونے والی آمدنی سے حصہ وصول نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن پھر بھی دوسرے صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں اسے ناکامی ہوئی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایک تکنیکی مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔ اگرچہ صوبہ بلوچستان کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متاثر نہیں ہوتا مگر کئی قوم پرست سردار اس منصوبے کی تعمیر کو صوبہ پنجاب کی چھوٹے صوبوں سے روا رکھے جانے والی ایک زیادتی تصور کرتے ہیں۔ اس منصوبے کی مخالفت سے صوبہ بلوچستان دراصل چھوٹے صوبوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی نشان دہی کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کالاباغ منصوبے کی تعمیر سے صوبہ بلوچستان کو کچھی نہر (کچھی کینال) کی مدد سے اپنے حصے کے پانی کے علاوہ اضافی پانی بھی دستیاب ہو سکے گا۔ میرے خیال میں قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کیلئے سب سے پہلے بلوچستان سے مثبت مہم کا آغاز کیا جائے تو بہتر اور فوری نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے جو لوگ اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ اور اس کے مضافاتی علاقے ڈوب جائیں گے تو انہیں یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس سے قبل بھی تاریخ کے دو بدترین سیلابوں (1929ء اور 2010ء) کی تباہ کاریوں سے نوشہرہ اس وقت بھی ڈوب گیا تھا جب کالاباغ ڈیم کا کوئی وجود نہیں تھا اور اب موجودہ (2022ء) سیلاب سے بھی نوشہرہ ڈوب گیا تھا، پس یہ تباہی کالاباغ کی وجہ سے نہیں ہو رہی بلکہ شاید اگر یہ ڈیم ہوتا تو یہ تباہ کاریاں نہ ہوتیں۔ کالا باغ بننے سے بارشوں کے پانی کو بھی صحیح استعمال میں لایا جا سکتاہے اور اس کی وجہ سے ابتدائی ریلوں کو روکا جا سکتا ہے اور لوگوں کو پیشگی وارننگ بھی دی جا سکتی ہے۔ دوسرا خدشہ یہ ظاہرکیا جاتا ہے کہ مردان‘ پبی اور صوابی کے میدانوں میں کالاباغ ڈیم کی وجہ سے نکاسیٔ آب پر برا اثر پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم مردان سے 200 کلومیٹر، پبی سے 230 کلومیٹر اور صوابی سے 160 کلومیٹر کے فاصلے پر ہو گا۔ کالاباغ جھیل کے پانی کا لیول ان میدانوں سے کم ازکم 90 فٹ نیچے ہو گا۔ اگر اس خدشے میں صداقت ہو تو پھر تو ان علاقوں کے لیے خطرہ کالاباغ ڈیم سے نہیں بلکہ تربیلا ڈیم سے ہوگا جو دور بھی نہیں بلکہ صوابی کے میدانوں کے ایک سِرے پر واقع ہے اور مردان سے 50 کلومیٹر اور پبی سے 90 کلومیٹر دور ہے اور جس کا پانی ان میدانوں سے تقریباً 400 فٹ اونچا ہے۔ اگر مقامی لوگوں کو صحیح طریقے سے یہ باتیں سمجھائی جائیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس منصوبے پر نہ صرف راضی ہو جائیں گے بلکہ اس کی فوری تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیں گے۔
یہ ایک خالصتاً تکنیکی مسئلہ ہے جسے ہمسایہ ملک کے آلہ کاروں نے سیاسی بنا دیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے کئی قومی سطح کے سیاست دان بھی چند ووٹوں اور اقتدار کی خاطر اجتماعی قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر ان مٹھی بھر شرپسند عناصر کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور یہ کہہ کر بالواسطہ اس میگا پروجیکٹ کی مخالفت کرتے ہیں کہ جب تک قومی اتفاق رائے نہ ہو‘ کالاباغ ڈیم پرکام شروع نہ کیا جائے اور اس کی جگہ دوسرے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ قومی اتفاق رائے کے لیے کسی نے آسمان سے اتر کر نہیں آنا اور نہ ہی کسی دوسرے براعظم کے باشندے یہ ذمہ داری اپنے سر لیں گے۔ جب لوگوں سے ووٹ آپ ایسے سیاستدان لیتے ہیں اور اپنے آپ کو عوام کانمائندہ کہتے ہیں تو قومی اتفاق رائے پیدا کرنا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر آپ یہ کام نہیں کر سکتے تو پھر آپ کو عوامی نمائندگی اور اسمبلی یا سینیٹ میں بیٹھنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ پھر آپ استعفیٰ دیں اور گھر جائیں۔ عوام کو بھی چاہئے کہ ماضی اور حال کے تجربات اور مشاہدات سے سبق سیکھیں اور یہ جان جائیں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے سے ہر دس برس بعد ہزاروں قیمتی انسانی جانیں اور اربوں ڈالر کی مالیتی املاک سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف بھارت نے اپنی ضرورت سے زائد ڈیم بنا لیے ہیں اور دوسری طرف کچھ مقامی افراد کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے جو سرزمین پاک پر اس سب سے اہم اور ضروری منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کچھ نام نہاد سیاست دانوں کا مفاد بھی ہے جس کیلئے یہ اپنے عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ لیکن اب وقت آ چکاہے کہ عوام بیوقوف بننے کے بجائے کالاباغ ڈیم کی فوری تعمیر کیلئے حکومت پر دبائو ڈالیں۔ اگر اس سیلاب کی تباہی اور بربادی سے ہم نے سبق نہ سیکھا تو پھر شاید یہ منصوبہ کبھی شروع نہ ہو سکے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved