تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-08-2013

سرخیاں، متن اور اقتدار جاوید کی نظم

حکومت کے خلاف کوئی سازش نظر نہیں آرہی: نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’حکومت کے خلاف کوئی سازش نظر نہیں آرہی‘‘ جبکہ اس کا نظر آنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اگر معاملات درست نہ کرسکے تو عوام کو بتانے کے لیے ہمارے پاس کچھ تو ہونا چاہیے۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متفقہ پالیسی بنائیں گے‘‘ جس کا امکان سر دست تو نظر نہیں آتا کیونکہ آدھی قوم ان کے ساتھ مذاکرات کی حامی ہے اور آدھی جنگ کی، جبکہ فوج کے بارے میں رانا ثنااللہ صاحب نے صاف بتایا ہے کہ وہ مذاکرات کے خلاف ہے ۔اگرچہ یہ بیان ان کی ذاتی رائے ہے البتہ طالبان حضرات اگر متفق ہوجائیں تو اسلامی شعائر کو مکمل طور پر نافذ کیا جاسکتا ہے جو کہ ان کا اصل مطالبہ ہے جبکہ جنرل ضیا الحق بھی یہی چاہتے تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنی سی کوششیں بھی کیں جن کے نتائج ابھی تک سامنے آرہے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ نئے نیب چیئرمین کا نام پیش کرنے میں مشکلات ہیں: خورشید شاہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ’’نئے نیب چیئرمین کا نام پیش کرنے میں مشکلات ہیں‘‘ کیونکہ ہم نیا چیئرمین تعینات کرکے خواہ مخواہ اپنے گلے میں کوئی مصیبت نہیں ڈالنا چاہیے جبکہ مختلف مقدمات نیب چیئرمین نہ ہونے کی وجہ سے ہی التوا میں پڑے ہیں جبکہ بصورت دیگر دونوں کے لیے کافی بدمزگی پیدا ہوسکتی ہے۔ اول تو یہ عہدہ فالتو ہونے کی وجہ سے ویسے ہی ختم کر دینا چاہیے کیونکہ کرپٹ عناصر کا احتساب عوام ہی الیکشن کے موقع پر بہتر طور پر کرسکتے ہیں جیسا کہ حالیہ انتخابات میں صرف نیک اور پارسا لوگ ہی سامنے آئے ہیں جو ساری ساری رات یاد خدا میں مصروف رہتے ہیں اور دن کے وقت عوام کی خدمت میں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس عہدے کے لیے کسی غیر متنازعہ شخص کی تلاش بہت مشکل ہے‘‘ اس لیے دونوں فریقوں کو اس مشکل میں پڑ کر اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے جو کہ صرف اور صرف عوام کی خدمت کے لیے مخصوص ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ پانچ برسوں میں سرانجام دی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ ضمنی انتخاب میں قومی وسائل لوٹنے والوں کو عوام نے مسترد کیا: شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ضمنی انتخاب میں قومی وسائل لوٹنے والوں کو عوام نے مسترد کردیا‘‘ اور ان کے لیے یہی سزا کافی ہے جبکہ ہم انہیں کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ ہم ایسی نجس چیزوں کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرتے، اگرچہ عام انتخابات سے پہلے ہم نے بار بار یہ اعلان کیا تھا کہ عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس دلائیں گے لیکن اب دیگر ضروری کام ہی اتنے ہیں کہ ہم نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے، نیز اگر آج ہم نے ان کے خلاف کارروائی کی تو کل کو یہ ہمارے خلاف بھی بے تکلفی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں جس سے ملکی ماحول کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ ہمارا یہ اعلان ہے کہ ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے تو ظاہر ہے کہ سب میں یہ لوگ بھی شامل ہیں جبکہ ہم ویسے بھی اکّل کھرے نہیں ہیں، علاوہ ازیں یہ ملک سب کا ہے اور جس طرح ہم سب اس کی خدمت کررہے ہیں اسی طرح اس کا بھی فرض ہے کہ یہ بھی ہماری خدمت کرے کیونکہ یہاں کوئی بھی تربوز بیچنے کے لیے نہیں بیٹھا ہوا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک وفد سے گفتگو کررہے تھے۔ عوام نے گولڈ سمتھ کا ایجنڈا مسترد کردیا: فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’عوام نے گولڈ سمتھ کا ایجنڈا مسترد کردیا‘‘ اور اس سے متعلق میری پیش گوئی پوری ہوگئی ہے چنانچہ قریبی حلقے مجھے مشورہ دے رہے ہیں کہ میں سیاست کا گندا کام چھوڑ کر پیش گوئیوں کا کاروبار شروع کردوں جس میں یافت بھی زیادہ ہے اور شہرت بھی، جبکہ معاشرے کا ہر شخص اپنے مستقبل کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے، البتہ اپنے بارے میں میری پیش گوئی یہی ہے کہ مجھے وعدے وعید پر ٹرخایا جاتا رہے گا لیکن میاں صاحب یاد رکھیں کہ میںان کے بارے میں بھی کوئی خوفناک پیش گوئی کر سکتا ہوں جس کے لیے میں ساری ساری رات ستاروں کی گردش کا معائنہ کرتا رہتا ہوں جبکہ ستارے میری گردش کا بھی معائنہ کرتے رہتے ہیں جو کوئی اچھی بات نہیں ہے کیونکہ ان کی نسبت میری ضروریات اور ترجیحات کافی مختلف ہیں کیونکہ میرا ایجنڈا صرف ملک و قوم کی خدمت ہے جس میں واحد رکاوٹ میاں صاحب کی ذات بابرکات ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں نیک ہدایت دے اور وہ مجھے بھی ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت کا احساس کریں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ اقتدار جاوید فارسی کو جدید اردو نظم کی طرف راغب کرنے میں اقتدار جاوید کا اہم حصہ ہے۔ اس کی نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ خود اپنے آپ کو پڑھواتی ہے اور قاری کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور ’’غزل زدہ‘‘ قاری کے لیے تازہ ہوا کا ایک ایسا جھونکا ہے جو قاری کو نئے سے نئے ذائقوں سے متعارف کراتا چلا جاتا ہے۔ اپنی نظم میں قوافی کے پے بہ پے استعمال سے وہ ایک ایسی نغمگی بھی تخلیق کرتا جاتا ہے جو ایک اپنی دلربائی کی حامل ہے۔ اس کی یہ تازہ ترین نظم دیکھیں: گڑیا کی گاڑی ابو کے سینے میں…جنکشن کی رونق ہے…لوگوں کا انبوہ… قلیوں کا مجمع ہے… ڈبوں کے رنگین شیشے ہیں… شیشوں کے پیچھے… غضبناک چہرے ہیں… چمکیلے سہرے ہیں… گھونگھٹ میں گوری ہے… گنے کی پوری ہے… آہستہ آہستہ گاڑی سرکتی ہے… سگنل تڑپتا ہے… رستہ بناتا ہے… گاڑی گزرتی ہے… تنکے اڑاتی ہے… شہروں کو بھوبل بناتی ہے… ابو کا کہنا ہے… جو تیرا بھائی ہے… اس کی زمانے سے جیسے لڑائی ہے…غصے میں رہتا ہے… دریا کی صورت کنارے گراتا ہے… مستی میں بہتا ہے… کس نے سمندر کو سمجھا ہے… کس نے سمندر یہ پائے ہیں… کیا وہ نہیں جانتا ہے… یہ لمحوں کے سودے ہیں… صدیوں کے گھاٹے ہیں… ابو نے دن رات کیسی اذیت میں کاٹے ہیں… بہنوئی کی کیسی جان لیوا سنگت ہے… آپی کی سرخیلی رنگت ہے… بھاری دوپٹے کے نیچے… چمکدار کانٹے ہیں… آپی کی نتھلی ہے… آپی کی نازک سی پسلی ہے… یہ کیسی دل کو فنا کرتی میٹھی چبھن ہے… یہ کس طرح کا میٹھا کانٹا ہے… بھائی نے بھائی کو ڈانٹا ہے…پلو کو کھینچا ہے… گہری مسرت سے لبریز… پانی سے باغیچہ سینچا ہے… بھائی کی شادی ہے… بہنوں کے جھگڑے ہیں… امی کی باتیں ہیں… پٹڑی کی لرزش ہے… انجن کی گرمی ہے…گاڑی نے چلتے ہی جانا ہے… رستے میں نیلا سمندرہے… روشن پہاڑی ہے…ابو کا سینہ ہے… گڑیا کی گاڑی ہے!!۔ آج کا مطلع بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا پھر اس کے بعد نہ میں تھا ،نہ میرا سایہ تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved