تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     02-09-2022

کھاؤ‘ پیو‘ عیش کرو

الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔ ہمت اکٹھی نہیں کر پا رہا ہوں۔ ذہن میں کئی خیالات گرد آلود‘ الجھے‘ بکھرے‘ گدلے سیلابی پانی کی طرح ابھرتے ہیں اور مایوسی کے بڑے سیاہ پتھر سے ٹکرا کر جھاگ بن کر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ صرف اس وقت نہیں بلکہ گزشتہ143دنوں سے یہی کیفیت ہے۔ لکھا بھی ہے‘ جہاں بولنے کا موقع ملا‘ دل کی بھڑاس بھی نکالی مگر یقین جانیں کہ ملک کے ماحول سے کوئی باشعور شہری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ عجیب و غریب گھٹن‘ حبس اور خوفناک تاریکی کا احساس ہے۔ انتظامات جو ترتیب دیے جا چکے‘ بندوبست جو سامنے لایا جا چکا‘ جانے پہچانے چہرے جو اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہیں‘ یہ سب کچھ دیکھ کر قوموں کے زوال کے قصے ذہن کے نہاں خانوں سے اچھل کر آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم نے کئی سیاسی ادوار دیکھے ہیں‘ اپنے بھی اور غیرملکوں کے بھی۔ بہت سی حکومتیں بدلتی دیکھی ہیں۔ جمہوریت کو سوکھے درختوں پر الٹا لٹکا دیکھا ہے۔ مزاحمت کرنے والوں پر عذاب نازل ہوتے دیکھے ہیں۔ سچ کہنے اور لکھنے والوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتے دیکھاہے۔ حکومتیں گرانے اور بنانے کی فنکاریاں بھی ہمارے مشاہدے میں ہیں۔ مگر اتنی بڑی دھاندلی اور دیدہ دلیری تو کبھی نہیں دیکھی اور نہ ہی ڈھٹائی سے بدلتے ہوئے سیاسی بیانیے‘ بکتی ہوئی سیاسی وفاداریاں اور زر و دولت اور سیاسی رشوتوں کے کھلے بازار۔ پہلے کچھ نہ کچھ پردہ‘ کوئی بھرم رکھا جاتا تھا۔ کیمروں کے سامنے آج جس طرح ہمارے نئے اور پرانے ''دانشور‘‘ اس طرزِ حکمت اور بڑی شہرت والے‘ جانے پہچانے خاندانی کھلاڑیوں کو جمہوریت کی خلعت پہنا کر دفاع کرتے ہیں‘ ہمیں اپنی دانشوری کو خیرباد کہتے ہوئے کہیں دور دنیا کے کسی اور کونے میں بسیرا کر لینا چاہیے۔
مغرب میں‘ معافی چاہتا ہوں‘ اگر آپ مغرب بیزار ہیں مگر میرے لیے یہ حوالہ کچھ معنی رکھتا ہے‘ ترقی‘ قانون‘ حکمرانی‘ مسلسل جستجو‘ انسانیت اور جمہوریت‘ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر کسی اور موقع پر سہی۔ وہاں کے اخبارات‘ ریڈیو اور ٹیلی وژن پروگراموں کو دیکھتے عمر گزر گئی۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی لائف‘ ٹائمز میگزین اور نیوزویک‘ جو اب معدوم ہو چکا ہے‘ پڑھتے تھے۔ اب تو سب کچھ گھروں میں چوبیس گھنٹے دیکھا جا سکتا ہے۔ میں اس وقت اُن لکھنے اور بولنے والوں کی بات کر رہا ہوں جن کا تعلق ہمارے شعبے سے ہے۔ نظریاتی طور پر اختلاف ہو سکتا ہے‘ سیاسی طور پر بھی۔ اور یہ نہ صرف فطری بات ہے بلکہ ضروری بھی ہے مگر اس دھڑلے سے میں نے مغرب کے ان ملکوں میں جہاں جمہوری روایات پختہ ہیں اور سیاسی ثقافت کا رنگ نکھرا ہوا ہے‘ کھلی کرپشن اور دھاندلی کا دفاع کرتے شاید ہی کسی کو دیکھا ہو۔ ایسا کوئی زاویۂ نگاہ نہیں ہوتا کہ ایک بدحال ملک میں‘ غریب اور پس ماندہ‘ گئے گزرے عوام کا پیسہ کوئی تواتر سے لوٹ رہے ہوں اور دانشور بڑھ چڑھ کر ان کا دفاع کریں۔ دل کڑھتا ہے۔ اخلاقیات اور پتا نہیں کیا کیا سبق روزانہ کی بنیاد پر ہم سنتے ہیں۔ مگر وہ جو ناجائز دولت اور سیاسی جھتے بندی کے سہارے ملک اور معاشرے کو تباہ کرنے کی طاق میں ہیں‘ اُن کے بارے میں لب کشائی کی ہمت نہیں۔ خیر حصے داری کا نظام بہت وسیع ہو چکا۔ بہت سے طبقات‘ پیشے اور گروہ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ اوپر سے نیچے تک اخلاقی انحطاط‘ منافقت اور ریا کاری کی حالت میں ہم رہتے ہیں۔ جن کے پاس طاقت‘ اثرو رسوخ اور دولت کی فراوانی ہے‘ ان کی آواز میں وزن تو ہر معاشرے میں ہوتا ہے۔ مگر مہذب اور غیر مہذب میں فرق اتنا ہے کہ آپ کے ذرائع آمدن کھلے‘ شفاف اور قانون کے مطابق ہیں یا نہیں۔ جب ہمارے جیسے ممالک میں ایسی مشکوک دولت کے انبار لگے ہوں تو زندگی کے ہر شعبے میں راہ بن جاتی ہے۔ اس عالم میں ضمیر جاگ کر کیا کرلے گا؟ ادارے تباہ اور معاشرہ مجموعی طور پر اس کی فطری توانائی سے محروم ہو جاتا ہے کیوں کہ معیار اہلیت نہیں‘ کاسہ لیسی‘ ذہنی غلامی اور درباروں میں حاضری قرار پاتا ہے۔
ہم تو مدّرس ہیں۔ حالاتِ حاضرہ سے صرفِ نظر کیسے کر سکتے ہیں؟ سوچتے ہیں کہ دنیا کے سامنے ہم وطنِ عزیز کی کیا سیاسی تصویر کشی کر سکتے ہیں۔ جب کسی ملکی یا غیرملکی فورم پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو ہم کیسے آلو اور پیاز کو سنگترہ اور سیب ثابت کر سکتے ہیں؟ کیا کہیں کہ کون سا کھیل کھیلا جارہا ہے؟ اور کون ہمارے محترم سیاسی میدان میں اترے ہوئے ہیں؟ سب تو آپ کے سامنے ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ پارلیمان میں سب سے بڑی جماعت استعفیٰ دے کر ایوان سے نکل چکی ہے۔ نصف کے قریب اراکین اب مقننہ کا حصہ نہیں‘ مگر قوانین وہ بنائے جارہے ہیں جن سے مسلط ٹولوں کو بدعنوانی کے مقدمات میں فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ نیب کے ہاتھ میں اب کیا رہ گیا ہے؟ سمندر پار محنت مزدوری کرکے ہماری برآمدات سے زیادہ زرِ مبادلہ بھیجنے والے شہریوں کو ووٹ کے حق سے اس خدشے کے پیشِ نظر محروم کر دیا گیا کہ ان کی اکثریت تحریک انصاف کی حامی دکھائی دیتی ہے۔
ملک بھکاری بنا ہوا ہے۔ قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جارہے ہیں۔ غربت اور مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور موجودہ حکومتی کابینہ ہماری تاریخ میں سب سے بڑی ہے۔ ساٹھ سے زائد وزیروں کے علاوہ کئی مشیر اور معاونین خصوصی جھنڈے لگائے خطیر معاوضے اور مراعات سمیٹتے جب دنیا کو نظر آتے ہیں تو وہ جو کہتے ہیں ہم آپ کو بتا نہیں سکتے۔ باتیں تو یہاں صرف کمزوروں اور مخالفین کے بارے میں میڈیا میں اچھالی جاتی ہیں‘ مگر دنیا ہمارے سیاسی خاندانوں‘ وزیروں‘ مشیروں اور موروثی خاندانوں کی دولت کے ذرائع کا حساب کتاب رکھتی ہے۔ تیسری دنیا کے ایسے حکمرانوں سے جب کام لینا مقصود ہو‘ جو اکثر اہم امور میں لیا جاتا ہے تو اُن کی کمزوریاں اور اُن کے ممالک میں چھپائی دولت کی طرف ہلکا سا اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں ان امور میں تیسری دنیا میں ہم سرفہرست ہیں۔ لوٹ ما ر کا کاروبار اتنا وسیع ہے کہ اب دولت رکھنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں گنجائش نہیں۔ جو یہاں بھی ہے‘ وہ کسی چپڑاسی اور کسی ریڑھی بان کے کھاتوں میں پڑی ہے۔
کبھی کسی ملک میں دیکھا ہے یا اس کے بارے میں سنا ہے کہ ساٹھ فیصد کابینہ کے اراکین کرپشن کے مقدمات اور غیرقانونی کاروبار میں ملوث ہوں؟ ان کے کیسز عدالتوں میں ہوں اور وہ ضمانت پر رہائی کا پروانہ لہراتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں میں جا بیٹھیں۔ یہ رہے دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کے حکمران!
اب تو ہم نے عرصۂ دراز سے یہ کارروائیاں دیکھنی موقوف کی ہوئی ہیں کہ کیسے سب کابینہ کے اراکین حلفِ وفاداری اٹھاتے ہیںکہ ہم اس ملک اور آئین کے وفادار رہیں گے۔ سن سن کر سب کو یاد ہو چکا۔ عوام سوچتے ہوں گے کہ یہ کیسی وفاداری ہے ملک و قوم سے؟ امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور طاقت ہے مگر اس کی کابینہ میں شامل اراکین کی تعداد پندرہ سے زیادہ نہیں۔ اسمبلیوں کے اندر کئی اور عہدے بھی ہیں جنہیں وہی مراعات حاصل ہیں جو وزیروں کو حاصل ہیں۔ اور یہ بھی سوچیں کہ ہم شاید دنیا کا واحد ملک ہیں جہاں اسمبلیوں کے اراکین نے خود کو پنشن کا حق دار بھی قرار دے دیا ہے۔ کیا کہیں گے اس نظام کو؟ کون ان حالات پر کیا تبصرہ کرے؟ بس کھائو‘ پیو‘ عیش کرو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved