وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں کہا کہ سیلاب کے ہاتھوں فصلوں‘ خصوصاً سبزیوں کی تباہی کے بعد پاکستان کو بھارت سے چند اشیا درآمد کرنا پڑیں گی‘ جبکہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اعلان کر چکے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت کا ابھی وقت نہیں آیا۔ وزیر خارجہ کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تجارت کے مسئلے پر بھارت کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے اس بیان کا مقصد غالباً بعض حلقوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے اس تاثر کو زائل کرنا تھا کہ سیلاب کے ہاتھوں زرعی شعبے کی تباہی کے پیش نظر موجودہ حکومت شاید بھارت سے بعض اجناس خصوصاً ٹماٹر اور پیاز درآمد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کے بعد پاکستان نے بھارت کے بارے میں سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تقریباً تمام شعبوں‘ بشمول دو طرفہ تجارت‘ میں تعلقات کی بحالی کا عمل معطل ہے۔ اگر کبھی کسی مجبوری کے تحت پاکستان کی کسی حکومت کی طرف سے بعض اشیا کی درآمد پر غور کیا بھی گیا تو اسے رائے عامہ کی مخالفت کی وجہ سے ترک کرنا پڑا۔ اس کی مثال گزشتہ برس پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کی طرف سے بھارت سے چینی اور کپاس (محدود پیمانے پر) درآمد کرنے کا فیصلہ تھا جسے سابقہ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے اراکین کی مخالفت پر واپس لینا پڑا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اور روابط کے فقدان کا یہ حال ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (SEO) کے ایک علاقائی اجلاس میں اکٹھے شریک ہونے والے پاکستانی اور بھارتی وزرائے خارجہ نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا‘ حالانکہ دونوں ملکوں کو شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت دینے کا مقصد ان کے درمیان باہمی تعلقات اور تعاون کو فروغ دینا تھا۔مفتاح اسماعیل نے بھی بھارت سے پیا ز اور ٹماٹر درآمد کرنے کے امکان کو ظاہر کرتے ہوئے فوری طور پر یہ کہنا مناسب سمجھا کہ ان اشیا کو واہگہ کے بجائے براستہ دبئی‘ ایران اور افغانستان درآمد کیا جائے گا۔ یہ بیان انہوں نے اسی ڈر سے دیا ہے کہ کہیں ان کی تجویز کا حشر گزشتہ برس کپاس اور چینی بھارت سے درآمد کرنے کے فیصلے جیسا نہ ہو۔ پاکستان کے عوام یقینا اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دبئی کے راستے ایک عرصہ سے تجارت جاری ہے‘ اس لیے اگر پیاز اور ٹماٹر بھی دبئی کے راستے بھارت سے درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے تو اس پر سیاسی موقع پرست شور نہیں مچائیں گے۔ لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ واہگہ کے بجائے‘ دبئی کے راستے پیاز‘ ٹماٹر یا دیگر اجناس درآمد کرنے پر ڈیڑھ گنا زیادہ خرچ آتا ہے۔ اگر حکومت پاکستان اس آپشن کو اختیار کرتی ہے تو پاکستانی عوام کو یہ اشیا مہنگے داموں خریدنا پڑیں گی۔ اس لیے مفتاح اسماعیل کے بیان کے بعد میڈیا میں ماہرین ان فوائد کا ذکر کر رہے ہیں جو دونوں ملکوں کو دو طرفہ تجارت کی بحالی سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ ان ماہرین میں صحافی شامل ہیں‘ سیاستدان بھی اور معاشی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے افراد بھی۔
کافی عرصہ تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ پاکستان کے تاجر اور صنعت کار بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت کے خلاف ہیں‘ کیونکہ ایک مفروضے کے مطابق بھارت ایک بڑی معیشت ہے اور پاکستان جیسے چھوٹے ملک کی معیشت کیلئے یہ تعلقات سود مند ثابت نہیں ہوں گے‘ لیکن اب یہ دلیل کارآمد نہیں رہی۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد چھوٹا ملک نہیں‘ خطے میں پاکستان سے بھی چھوٹے اور کمزور معیشت والے ملکوں نے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارتی تعلقات بلکہ آزاد تجارت کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کے سامنے بھارت کی وسیع اور تیزی سے فروغ پذیر منڈی ہے‘ جس تک رسائی حاصل کرکے وہ اپنی برآمدی تجارت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا کی اس ضمن میں مثالیں دی جا سکتی ہیں‘ جنہوں نے 2006ء کے معاہدے SAFTA کے تحت بھارت کے ساتھ سود مند تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں بھی ماہرین کی رائے ہے کہ دو طرفہ تجارت کے کھلنے سے بھارت کو پاکستانی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے ہمیں کم برآمدات کے دیرینہ معاشی مسئلے سے نجات حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ آج سے تقریباً دس برس قبل پاکستان اور بھارت نے دو طرفہ تجارت کی بحالی کی طرف کافی سفر طے کر لیا تھا اور اسلام آباد نئی دہلی کو موسٹ فیورڈ نیشن (MFN) کا درجہ دینے کیلئے تیار تھا‘ لیکن 2011-12ء کے دوران لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف سے فائرنگ کے تبادلے میں اضافے سے یہ منزل پر نہ پہنچ سکے۔
پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے جیو پولیٹکل دباؤ اور جیو اکنامک ضروریات کے درمیان کشمکش جاری ہے؛ تاہم کچھ عرصہ سے سرحد کے دونوں طرف یہ احساس تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ پاک بھارت تعلقات جیو سٹریٹیجک دباؤ کے بجائے جیو اکنامک ضروریات پر مبنی ہونے چاہئیں۔ سوچ میں اس تبدیلی کے تحت پاکستان اور بھارت نے گزشتہ سال فروری میں لائن آف کنٹرول کے آر پار فائرنگ کے تبادلے کو بند اور نومبر 2003ء کے معاہدے پر سختی سے عملدرآمد کرنے کا عہد کیا تھا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس عہد کو اب تک نبھایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ خیر سگالی اور ایک دوسرے کیلئے احترام اور محبت پر مبنی چھوٹے بڑے دیگر واقعات بھی جنم لے رہے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے کی جیلوں میں برسوں سے پڑے قیدیوں کی رہائی‘ اس سال 14 اگست کے موقعہ پر واہگہ سرحد پر پاکستانی اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے درمیان مٹھائیوں کا تبادلہ اور سب سے بڑھ کر دبئی ایشیاء کپ کرکٹ میچ کے دوران سٹیڈیم کی پوری کپیسٹی سے بھرے ہوئے پاکستانی اور بھارتی شائقین کی طرف سے دونوں ٹیموں کے کھیل کو سراہتے ہوئے‘ میچ سے لطف اندوز ہونا بھی شامل ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تنازعات‘ جن میں یقینا کشمیر سرفہرست ہے‘ کے حل کی طرف پیش قدمی نہ ہونے سے‘ دو طرفہ تجارت اور علاقائی تعاون کے شعبوں میں بھی بات آگے نہیں بڑھ سکی۔
پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادت پر لازم ہے کہ وہ تجارت‘ سیاحت‘ ثقافت اور موسمی تغیرات کے شعبوں میں تعاون کے راستے میں رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے سیاسی تنازعات کے حل کی بھی کوشش کریں کیونکہ گزشتہ 75 برسوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس طرف پیش قدمی کے بغیر دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا مشکل ہے۔ تاہم اس خطے کی تاریخ میں بعض مواقع پر ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے‘ جب ہر اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر خالصتاً انسانی بنیادوں پر پاک بھارت تعاون مفید ہی نہیں بلکہ لازمی ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی صورتحال حالیہ سیلاب سے پیدا ہو چکی ہے۔ جنوبی ایشیا کے ملکوں کو موسمی تغیرات کی صورت میں جو چیلنج درپیش ہیں‘ پاکستان اور بھارت کیلئے لازم ہے کہ وہ مل کر اس کا مقابلہ کریں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہی سے عوام پر جو اثرات پڑتے ہیں ان کو مٹانے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان اس قسم کے شعبوں میں تعاون کا آغاز ہو جائے تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر جیسے دیرینہ اور پیچیدہ مسئلے بھی حل ہو سکتے ہیں۔ میرے خیال میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو وفاقی کابینہ کے سامنے‘ بھارت سے پیاز اور ٹماٹر براہِ راست درآمد کرنے کی تجویز رکھنی چاہیے۔ اس سے پاکستانیوں کو بھی ریلیف ملے گا اور علاقائی امن اور تعاون کیلئے حوصلہ افزا ماحول پیدا کرنے میں مدد ملے گی جو آگے چل کر پیچیدہ مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved