یوں لگتا ہے کہ پورا ملک توڑی کے ڈھیر پر بیٹھ کر سگریٹ کے کش لگا رہا ہے۔ حالات اور نتائج سے بے پروا حکمران ہوں یا عوام‘ سبھی کے درمیان مقابلے کا سماں ہے۔ جہاں مفادِ عامہ کے منصوبے ذاتی مفادات کے مرہون منت ہوں‘ گورننس شرمسار اور میرٹ تارتار ہو‘ موقع پرست جگاڑ لگانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوں‘ دامن داغ داراور ہاتھ رنگے ہونے کے باوجود صادق اور امین ہونے کی ایکٹنگ کی جاتی ہو‘ زبان و بیان اشتعال انگیزی اور منافرت میں ڈوبے ہوئے ہوں‘ احترامِ آدمیت سے لے کر غیرتِ قومی تک قوم ترجیحات سے کوسوں دور ہو‘ بدنیتیوں اور بد انتظامیوں کے نتیجے میں ہونے والے حادثات اور سانحات کو قدرتی آفت اور آزمائش قرار دیا جاتا ہو‘ اہلیت نامعلوم اور کارکردگی صفر ہو‘ اندھی تقلید اور بھیڑ چال قوم کا مزاج ہو‘ زلزلہ اور سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے امدادی کارروائیوں پر ہاتھ کی صفائی اور شکم پروری کا سوال اٹھتا ہو تو توڑی کے ڈھیر پر بیٹھے سُوٹے لگانے والوں سے خوف ہی آتا ہے کہ کہیں کوئی چنگاری خشک تنکوں پر نہ گر پڑے۔ خدا خیر کرے میرے آشیانے کی۔
مملکتِ خداداد کرۂ ارض پر وہ منفرد ترین خطہ ہے جس کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان تک کا سفر کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ پل بھر میں نصیب بنتے اور بگڑتے ہیں۔ ملک بھر میں کہیں تماشے تو کہیں سہم کا عالم ہے کہ اقتدار کی چھینا جھپٹی کے نتیجے میں ملک کو سچ مچ کے نازک دور اور موڑ سے دوچار کرنے والے کہیں ملک و قوم کو اس اندھے کنویں میں نہ دھکیل ڈالیں جہاں سے نکلنا تو درکنار‘ آواز بھی باہر نہیں آتی۔ حکمرانی کے لیے ملک درکار ہوتا ہے‘ ریاست کے اداروں اور تنظیمی ڈھانچے کو ڈھانچے میں تبدیل کرنے کے بعد کیسی حکومت اور کہا ں کی حکمرانی؟ ملک پر سیاست کو ترجیح دینے والے ہوں یا سالمیت اور استحکام کو شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھانے والے‘ ان سبھی نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو بھیڑ چال کی شکار قوم نما رعایا کے ایسے ہوش ٹھکانے آئیں گے کہ شاید کہیں ٹھکانہ بھی نہ ملے۔ زمینی حقائق کے برعکس گمراہ کن بیانیوں اور جھانسوں سے عوام کو بیوقوف بنا کر مینڈیٹ تو ہتھیایا جا سکتا ہے لیکن اُن ناقابلِ تردید اورتلخ حقیقتوں کو ہرگز نہیں جھٹلایا جا سکتا جنہیں سمجھنے کی حس خدا جانے کہاں کھو گئی ہے۔
کہیں گورننس بانجھ ہے تو کہیں سسٹم اپاہج دکھائی دیتا ہے۔ کہیں قول و فعل کی حرمت پامال ہے تو کہیں عمل تضادات کا شکار ہے۔ نیت سے لے کر معیشت تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک سب تماشا دکھائی دیتا ہے۔ نہ منصب کا لحاظ ہے نہ آئین کی پاسداری۔ قانون کی حکمرانی ہے نہ کہیں اخلاقی و سماجی قدروں کا پاس۔ احترامِ آدمیت ہے نہ تحمل و بردباری۔ احساسِ ذمہ داری‘ رواداری اور وضع داری جیسی صفات تو کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدل کررہ گئے ہیں۔ سیاستدان دلوں میں عناد‘ بغض اور کینہ چھپائے چہروں پر نمائشی اور مصنوعی مسکراہٹیں سجائے کس قدر ڈھٹائی سے منافقانہ معانقے کرتے پھرتے ہیں۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک حکمرانوں کی قابلیت معمہ ہے اور یہ معمہ حل ہونے کے امکانات معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بے کس عوام کتنی دہائیوں سے اُن کی طرزِ حکمرانی کے اثرات سے مسلسل بدحال ہوتے چلے جارہے ہیں۔ برسہا برس بیت گئے‘ کتنے ہی حکمران بدل گئے لیکن عوام کے نصیب بدلتے نظر نہیں آتے۔
بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ ہمارے ہاں قدرت نے جسے بھی گورننس کی نعمت عطا کی اُس نے اس عطا کو اپنی استادی‘ مہارت اور اہلیت سے منسوب کیا۔ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ خود ان کی کسی ادا کا چمتکار تھا۔ برسر اقتدار آنے کے بعد یہ سبھی ایک دوسرے کے ریکارڈ‘ ریکارڈ مدت میں توڑنے کی کوشش میں اپنی آنکھوں میں اچھے خاصے شہتیر لیے پھرنے کے باوجود دوسروں کی آنکھ کے تنکے کو لے کر آسمان سر پہ اُٹھا لیتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں جا بجا بحران ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بحران اس قدر نقصان دہ ہے کہ پوری قوم خسارے کا شکار ہے۔ مہنگائی کا بھڑکتا ہوا الاؤ قوتِ خرید کو خاکستر کرنے کے بعد نجانے کیا کچھ جھلسائے چلے جارہا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان انتظامی افسران پس کر رہ گئے ہیں۔ وفاق کا اصرار ہے کہ پنجاب کے اعلیٰ افسران صوبائی حکومت کے بجائے اس کی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق کام کریں جبکہ پنجاب حکومت نے وفاق سے کچھ افسران کی خدمات مانگی ہیں لیکن وفاقی حکومت کسی طور مذکورہ افسران دینے پر راضی نہیں۔ تقرریوں اور تبادلوں پر لگے اس ڈیڈلاک نے کشیدگی اور تناؤ میں مزید اضافہ کرڈالا ہے۔
دوسری طرف تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے کی پاداش میں پولیس افسران کی یکے بعد دیگرے قربانی بھی جاری ہے۔ تختِ پنجاب پر (ن) لیگ کے اقتدار کی قیمت پولیس افسران مسلسل چکا رہے ہیں‘ حکومتِ وقت کے احکامات کی عملداری ڈسپلن فورس کی یقینا مجبوری تو ہوتی ہے لیکن اقتدار کی تبدیلی کے بعد نئے حکمرانوں کا عتاب ہر دور میں پولیس اور انتظامی افسران نے بھگتا ہے۔ نئی حکومت کے ساتھ نیا عتاب ایک بار پھر جاری ہے۔ پنجاب کے اعلیٰ افسران خود وفاق اور صوبے کے درمیان پھنسے دکھائی دیتے ہیں۔ تختِ پنجاب پر پی ٹی آئی کی انتظامی گرفت بتدریج بڑھتی چلی جا رہی ہے اور عثمان بزدار دور کے منظورِ نظر افسران اہم عہدوں پر واپس آرہے ہیں۔ ان میں اکثر کی واپسی ان ناکامیوں کی یاد تازہ کروانے کا باعث ہے جو تحریک انصاف کی حکومت پر آج بھی سوالیہ نشان ہیں۔ ایک مخصوص افسر کو دوبارہ ایک اہم ترین پیداواری عہدے پر تعینات کرنے سے نیا پنڈورا باکس کھلنے کا خدشہ ہے۔ خیر پنڈورا باکس کھلنے کی پروا کسے ہوتی ہے۔ شکاری کو تو بس اپنے شکار اور ہدف سے مطلب ہے۔عثمان بزدار نے بطور وزیراعلیٰ پروا کب کی تھی جو اب کوئی کرے گا۔
پنجاب حکومت سے انتظامی امور میں تعاون سے گریزاں بعض اعلیٰ افسران کئی معاملات میں وفاقی حکومت کے آگے مجبور اور بے بس دکھائی دیتے ہیں جبکہ پنجاب حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق تقرریاں اور تبادلے کرنے سے بھی تاحال قاصر اور مجبور دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال قانون اور ضابطے جب حرکت میں آتے ہیں تو اپنا راستہ خود بخود بناتے چلے جاتے ہیں۔ پنجاب حکومت کے لیے پہلا قدم ہی بس مشکل مرحلہ ہے‘ آگے راستے خود بتائیں گے کہ منزل کہاں ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ حکومتِ پنجاب اس مشورے پر عمل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔ اس مشورے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے افسران کا فقدان ہی نہیں قحط بھی پڑ سکتا ہے۔ کون خود کو مشکل میں ڈالے گا؟ حکومتوں کا کیا ہے۔ یہ تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ آنے والے وقت کا عذاب اور عتاب کون سہہ سکتا ہے؟ ماضی میں حکمرانوں کے فیصلے ماننے والے آج قربانی کے بکرے بن چکے ہیں اور آج حکم ماننے والے کل قربانی کے بکرے بنتے رہیں گے۔ حکومتیں آتی رہیں گی بکرے ملتے رہیں گے۔ قربان ہوتے رہیں گے۔ موجیں تو حکمرانوں کی ہیں۔ یہ کھال اور جان بچانے کے لیے بدترین مخالف سے بھی بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ ان کے احکامات ماننے والے قربان کر دیے جاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved