پاکستان جب سے قائم ہوا ہے‘ اسے طرح طرح کی مشکلات‘ آفات‘ آزمائشوں اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نقصانات بھی اٹھانا پڑے ہیں‘ جانیں بھی دینا پڑی ہیں اور اموال و اسباب سے ہاتھ بھی دھونا پڑے ہیں‘ لیکن بحیثیت قوم ہم ثابت قدم رہے ہیں اور خندہ پیشانی سے مصائب کا سامنا کیا ہے۔ کس موقع پر کامیابی کا تناسب کیا تھا‘ کتنے فیصد کون سا ہدف حاصل کیا گیا‘ یہ بحث کی جا سکتی ہے‘ اس پر مختلف افراد مختلف آراء رکھ سکتے ہیں‘ ان کا اظہار بھی کر سکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آزمائش کی کسی گھڑی میں ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے ہوں‘ ہم ایک دوسرے سے الجھ پڑے ہوں‘ اور ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے لگ گئے ہوں یا اپنے سیاسی حریفوں کو زچ کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے ہوں۔ وسائل کم تھے یا زیادہ‘ اداروں کی استعداد تھی یا نہیں‘ ہم نے اِدھر اُدھر نہیں دیکھا‘ جو پاس تھا اور جو بھی صلاحیت تھی‘ اسے بروئے کار لانے کے لیے میدان میں اترے ہیں‘ اور ہوائوں کا رخ بدل ڈالا ہے۔1971ء کی جنگ جس طرح شروع ہوئی‘ جس طرح لڑی گئی‘ اور اس کا نتیجہ جو بھی ہوا‘ اسے یہاں زیر بحث لانا مقصودنہیں ہے‘ اس لمحۂ تاریک کو استثنیٰ دیا جا سکتا ہے‘ اس کا جائزہ اور اس کے اسباب و نتائج کا تذکرہ کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں لیکن اتنا اس حوالے سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ یحییٰ خان اور اس کے ٹولے نے اگر اقتدار پر غاصبانہ قبضہ نہ کیا ہوتا تو ہمیں وہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا‘ جو ہمارے دل اور ہماری تاریخ کا داغ بن گیا ہے۔ اگر ہمارا دستوری نظم بحال رہتا تو حالات اور جذبات وہاں نہ جا پاتے جہاں ان کو دھکیلا گیا۔1971ء کو ایک طرف رکھیے تو ہر مشکل اور ہر آزمائش میں ہم متحد رہے ہیں۔ 1965ء کی جنگ مسلط ہوئی تو مثالی اتفاق کا مظاہرہ ہوا۔ زلزلہ ہو‘ طوفان ہو یا سیلاب یا دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ہم نے حوصلہ نہیں ہارا‘ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہے‘ اور وہ کچھ حاصل کر دکھایا ہے جسے محال سمجھا جا رہا تھا۔
1965ء کی جنگ کا آغاز ہوا تو پاکستان سیاسی طور پر منقسم تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کچھ ہی عرصہ پہلے صدر منتخب ہوئے تھے‘ ان کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں‘ اپوزیشن نتائج کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی‘ دھاندلی اور دھونس کے الزامات ہر زبان پر تھے‘ مخالف سیاسی رہنما ایوب خان کا نام تک سننے کے روادار نہیں تھے‘ انہیں غاصب قرار دیا جا رہا تھا‘ ایوب خان نے قوم کو 1962ء میں جو صدارتی دستور عنایت فرمایا تھا‘ قوم کا بڑا حصہ اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا۔ 1956ء کے متفقہ دستور کی منسوخی دل کا زخم بنی ہوئی تھی‘ لیکن جونہی بھارتی فوجیں واہگہ کی سرحد پر پہنچیں‘ اور ایوب خان نے اپنی نشری تقریر میں قوم سے کلمہ پڑھتے ہوئے نکلنے اور دشمن پر ٹوٹ پڑنے کی اپیل کی‘ سارے اختلافات ہوا میں اڑ گئے۔ اپوزیشن اور حکومت میں تمیز ممکن نہ رہی‘ سب رفاہی سرگرمیوں کا حصہ بن گئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے مخالف سیاسی رہنمائوں کو ملاقات کے لیے مدعو کیا‘ تو کوئی پیچھے نہ رہا۔ مشرقی پاکستان سے پروازوں کا سلسلہ منقطع تھا‘ گورنر عبدالمنعم خان اور ان کے مخالف وہاں کے گورنر ہائوس میں شیر و شکر نظر آئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان جب اپنے سیاسی مخالفین سے ملاقات کیلئے پریذیڈنسی کے ڈرائنگ روم میں پہنچے تو انہوں نے اپنے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر سے سرگوشی کے انداز میں کہا‘ تم نے میرے سارے دشمن اکٹھے کر لیے ہیں؟ لیکن ان سیکرٹری صاحب کا کہنا تھا کہ جونہی جناب صدر آگے بڑھے‘ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ ان کا کوئی بھی دشمن موجود نہیں ہے‘ سب دوست بن کر کھڑے تھے‘ دوست بن چکے تھے۔ سیاسی اختلافات بھلائے جا چکے تھے‘ کسی زبان پر ان کا تذکرہ نہ آیا‘ ایک ہو کر جارحیت کا مقابلہ کرنے پر سب یک زبان ہو گئے۔
سترہ سال پہلے آزاد کشمیر اور بالا کوٹ میں جو ہولناک زلزلہ آیا‘ اس نے بھی پوری قوم میں بجلی بھر دی تھی۔ دیوانہ وار لوگ اپنے بھائیوں کی مدد کو نکلے‘ کراچی‘ لاہور اور کوئٹہ سے زلزلہ زدہ علاقوں کو سامان پہنچانے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ اب ملک کے بڑے حصے کو سیلاب اور بارش کے نتیجے میں جن نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ اس کی کوئی مثال ہماری تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ تین کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں‘ سینکڑوں ہلاک ہو چکے‘ ہزاروں زخموں سے چور ہیں‘ ہزاروں سائبان گر چکے‘ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں‘ پل ٹوٹ گئے‘ متاثرین کیلئے خشک زمین تلاش کرنا مشکل ہو رہا ہے‘ دیکھنے والی آنکھوں میں پانی خشک نہیں ہو رہا اور دل ہیں کہ تڑپ رہے ہیں۔ حکومتی ادارے اور رفاہی تنظیمیں برسر پیکار ہیں‘ لیکن اہلِ سیاست کی زبانیں بدلی ہیں نہ دل بدلے ہیں‘ وہ ایک دوسرے کے لتّے لے رہے ہیں‘ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں‘ ایک دوسرے پر گولے برسا رہے ہیں‘ عمران خان اور ان کے حریف اپنی لڑائی کو مؤخر کرنے‘ اور ساری توانائی متاثرین سیلاب کی بحالی کیلئے لگانے پر تیار نہیں ہو پا رہے۔ محاذ آرائی میں کس کا حصہ زیادہ ہے‘ اور کس کا کم‘ اس سے قطع نظر یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے‘ اور دونوں ہی ہاتھوں سے بجائی جا رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ منظر پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ غم بھی اہلِ سیاست کو ایک صفحے پر لا نہیں پایا۔ وہ الگ الگ امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں‘ لیکن یکجہتی کا وہ پیغام نہیں دے پائے جوآج کی ضرورت ہے‘ اور کل بھی جس کی ضرورت رہے گی کہ بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے۔ لاکھوں گھر آنِ واحد میں تعمیر ہو سکیں گے‘ نہ بسائے جا سکیں گے۔
یہی بات ایوانِ صدر میں رونق افروز مردِ دانا‘ ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ ہو رہی تھی۔ کم و بیش دو گھنٹے ان کے ساتھ تبادلہ خیال رہا۔ برادرِ عزیز سہیل وڑائچ اور بیدار مغز اویس رئوف کے ساتھ سفر تو لاہور سے شروع ہوا تھا۔ رفیقِ دیرینہ نواب کیفی اور باخبر ایڈیٹر گوہر زاہد ملک ایوانِ صدر میں آ ملے۔ پاکستانی سیاست کے سینے میں دل داخل کرنے کی تدبیریں زیر غور تھیں۔ جنابِ صدر ہماری باتیں غور سے سن رہے تھے‘ ان کا منصب احتیاط کا متقاضی تھا‘ سو وہ اس سے کام لینے میں بخل نہیں برت رہے ہیں‘ لیکن یہ خواہش ان کے ہونٹوں پر بھی تھی کہ اختلافی سیاست کو مؤخر کر کے متاثرین سیلاب کی بحالی کا کام کیا جائے‘ پوری قوم اس میں یک سو ہو جائے۔ صدر صاحب کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ متحارب گروہوں سے ان کے رابطے تو موجود ہیں لیکن اس سے آگے نہ وہ جا پا رہے تھے‘ نہ ہم ان کو دھکیلنے کی گستاخی کر سکتے تھے۔ دعا ہی کی جا سکتی تھی‘ سو کی جا رہی تھی‘ اور کی جاتی رہے گی۔ اے اللہ ہمارے رہنمائوں کی رہنمائی فرما‘ انہیں اپنے رویوں پر نظرثانی کی توفیق عطا فرما دے‘ سیلِ آب کے ساتھ ساتھ مخاصمانہ سیاست کے سیلاب سے بھی ہم سب کو بچا لے کہ... تیرے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved