وطنِ عزیز میں سیلاب سے تباہی اس قدر شدید ہے کہ بین الاقوامی میڈیا نے اسے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دنیا بھر کیلئے ایک وارننگ قرار دیا ہے۔ سیلاب سے اجڑنے والی بستیوں سے آنیوالی تصاویر اور مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔ شام کے ایک مہاجر بچے ایلان کردی کی تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس بچے کی موت نے دیگر شامی مہاجرین کیلئے دنیا بھر کی سرحدیں کھلوا دیں‘ مگر سیلاب کی نذر ہونے والے بہت سے پاکستانی شیرخواروں کی تصویریں ایلان کردی کی تصویر سے زیادہ دلدوز ہیں۔ جو زندہ بچ گئے ہیں ان کی حالت بھی شدید پریشان کن ہے اور کسی بھی درد دل رکھنے والے کی نیندیں اڑا دینے کیلئے کافی ہے۔ کہیں دو روٹیاں میسر ہیں اور ماں چار بچوں میں آدھی آدھی روٹی بانٹتی نظر آتی ہے‘ کہیں پکے ہوئے چاول کی ایک چھوٹی سی تھیلی کو پورا خاندان مل کر کھاتا دکھائی دیتا ہے۔
سیلاب کے بعد پاکستان بھر میں مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی مدد کیلئے جو جذبہ نظر آیا وہ بھی دیدنی ہے‘ ایک بچہ اپنی جمع پونجی پشاور کے ریلیف کیمپ میں یہ کہہ کر جمع کراتا نظر آیا کہ یہ پیسے عمرے کے لیے جمع کر رکھے تھے لیکن اب مصیبت زدہ بہن بھائیوں کو دے دیں‘ ایک بچہ جو خود حالات کا مارا اور سکول جانے کی عمر میں بوٹ پالش کرکے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ بھرتا ہے‘ روزانہ اپنی کمائی میں سے ریلیف کیمپ میں رقم جمع کراتا دکھائی دیا‘ ایک بچی جو بھیک پر گزر بسر کرتی ہے اور اس معاشرے نے اس کی کوئی مدد نہیں کی‘ وہ بھی بھیک میں ملنے والی رقم کا کچھ حصہ ریلیف کیمپ کو دیتی نظر آئی۔ بڑے پیمانے پر ریلیف کیلئے این جی اوز اور مذہبی جماعتیں بھی سرگرم ہیں لیکن تباہی اس قدر ہے کہ لوگوں کی زندگیوں کو دوبارہ معمول پر لانے کیلئے پاکستانیوں کے عطیات اور حکومتی وسائل کافی نظر نہیں آتے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے جنرل اختر نواز کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ملک میں مجموعی طور پر اوسط سے 190 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جن سے بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک میں رواں سال موسم بہار نہیں آیا جبکہ گرمی کی چار لہریں آئیں۔ 20 سے 25 فیصد اضافی بارشیں متوقع تھیں مگر 190 فیصد سے زیادہ بارشوں کا سامنا کرنا پڑا‘ البتہ بلوچستان اور سندھ میں 400 فیصد سے زیادہ بارشیں ہوئیں۔ بلوچستان کے مشرقی‘ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے جنوبی اور سندھ کے ان علاقوں میں بارشیں ہوئیں جہاں ان کی توقع نہ تھی۔ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے 1265 لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے‘ زخمی افراد کی تعداد بھی 1200 سے زیادہ ہے۔ 5563 کلو میٹر سڑکیں اورسات لاکھ 35 ہزار سے زائد مویشی بہہ گئے جبکہ 14 لاکھ سے زیادہ گھر اور دیگر عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔ ایک تہائی پاکستان حقیقی معنوں میں زیر آب آ چکا ہے‘ یوں حالیہ سیلاب ماضی کی تمام حدیں پار کرگیا۔ ان حالات میں پاکستان نے اقوام متحدہ کا ڈونر اجلاس بلایا اور وہاں امداد کے وعدے بھی ہوئے ہیں۔
یہ بارشیں اور سیلاب عالمی حدّت(گلوبل وارمنگ) کی وجہ سے آیا۔ گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک جو 80فیصد گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ہیں‘ وہی گلوبل وارمنگ کی اصل وجہ ہیں۔ بین الاقوامی برادری کا پاکستان کے ساتھ تعاون اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان ان کے کیے دھرے کو بھگت رہا ہے۔ بین الاقوامی اداروں نے سیٹلائٹ سے پاکستان میں سیلاب سے تباہی کی تصاویر لی ہیں جن میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ سیلابی پانی سے ملک میں سو کلومیٹر طویل جھیل وجود میں آچکی ہے۔ اگر یہ سیلابی پانی جلد زمین میں جذب نہ ہوا اور اکتوبر میں سندھ میں گندم کی بوائی نہ ہو پائی تو ملک میں غذائی بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو بھی شاید اس کا احساس ہے‘ اسی لیے امریکی کانگریس کا ایک وفد پاکستان پہنچ رہا ہے۔ اس وفد میں رکن کانگریس اور پاکستان کاکس کی چیئرپرسن شیلا جیکسن لی اور رکن کانگریس ٹام سوازی شامل ہیں اور اس وفد کے دورہ ٔپاکستان میں ڈیموکریٹ رہنما طاہر جاوید کا بھی اہم کردار ہے۔ شیلا جیکسن لی دورے کے اعلان سے پہلے ہی امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھ چکی ہیں جس میں انہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کو تنہا نہ چھوڑنے اور سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کی استدعا کی ہے۔ دورے کے اعلان کے موقع پر ڈیمو کریٹ رہنما طاہر جاوید کے مطابق شیلا جیکسن لی پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد نقصانات کی رپورٹ مرتب کریں گی اور امریکی امداد میں اضافے کا مطالبہ کریں گی۔
سیلاب زدہ علاقوں اور ان کے مکینوں کی بحالی بلا شبہ ایک بڑا ٹاسک ہے۔بین الاقوامی برادری کی مدد سے متاثرین کو کسی حد تک دوبارہ آباد کرنے میں مدد ملے گی لیکن اہم نکتہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں سیلاب اور تباہی کا پلٹ کر آنا ہے۔پاکستان دنیا کے نقشے پر جس جگہ پر واقع ہے اسے دو موسمی نظاموں کا سامنا کرناپڑتا ہے‘ ایک کی وجہ سے سخت گرمی اور خشک سالی آتی ہے جیسا کہ اس سال مارچ میں ہوا اور دوسرا نظام مون سون کی بارشیں لاتا ہے۔پاکستان کی زیادہ تر آبادی دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ہے ‘ یہ علاقہ مون سون سیلابوں سے زیادہ متاثرہ ہوتا۔ ماحولیاتی تبدیلی اور شدید مون سون کے باہمی تعلق کو بیان کرنے والی سائنس نہایت سادہ ہے۔ عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہوا اور سمندر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اور زیادہ بخارات بننے لگتے ہیں اور گرم ہوا زیادہ نمی جذب کرتی ہے جس سے مون سون کی بارشوں میں زیادہ شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ پوٹسڈیم انسٹی ٹیوٹ فار کلائمیٹ امپیکٹ ریسرچ کا کہنا ہے کہ سائنسدان ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بھارت میں گرمیوں کے دوران مون سون کی بارشوں کی اوسط میں اضافے کی پیشگوئی کر رہے ہیں‘ مگر پاکستان میں ایک چیز ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے مقابلے میں اسے کمزور بناتی ہے‘ اور وہ ہیں اس کے عظیم گلیشیرز۔ ملک کے شمال میں موجود گلیشیرز کو ''تیسرا قطب‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں موجود برف قطب شمالی اور جنوبی سے باہر کسی بھی خطے سے زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ترقی کے مطابق دنیا میں گرمی بڑھنے کے ساتھ گلیشیرز میں موجود برف بھی پگھل رہی ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں موجود گلیشیرز تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے تین ہزار جھیلیں بن چکی ہیں‘ ان میں سے 33 کے اچانک پھٹ جانے کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے لاکھوں مکعب میٹر پانی اور مٹی بہہ کر 70 لاکھ لوگوں کیلئے خطرہ پیدا کر سکتی ہے۔
حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ مل کر اچانک سیلاب آنے کے خطرات کو کم کرنے کیلئے پہلے سے خبردار کرنے والا نظام یا وارننگ سسٹم نصب کر رہے ہیں اور ساتھ ہی حفاظتی بند اور دیگر انفراسٹرکچر بھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں غریب ممالک‘ جن میں سیلاب کو روکنے والے بند یا پشتے کمزور ہوتے تھے اور جہاں مکانات بھی اچھے معیار کے نہیں تھے زیادہ بارشوں کے اثرات کا مقابلہ نہیں کر پاتے تھے‘ لیکن ان گرمیوں میں آنے والے تباہ کن سیلابوں کے مقابلے کی سکت امیر ملکوں میں بھی نہیں تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بالکل الگ صورتحال ہے‘ یہ بارشیں اور سیلاب اس قدر شدید تھے کہ مضبوط سے مضبوط بند بھی ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتے تھے‘ اس کی مثال 2021ء میں جرمنی اور بلجیم میں آنے والے سیلاب ہیں۔ یہ سیلاب پاکستان کے علاوہ ان حکومتوں کو بھی خواب غفلت سے بیدار کرنے کیلئے کافی ہونے چاہئیں جنہوں نے کلائمیٹ چینج سے نمٹنے کیلئے اقوام متحدہ کی مختلف کانفرنسوں میں وعدے کیے تھے۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں 1.2 سینٹی گریڈ اضافہ چکا ہے‘ اس سے زیادہ اضافہ پاکستان کے لوگوں کیلئے شدید مصائب کا موجب ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved