تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نو مقدمات میں انکوائریوں اور عدالتوں میں پیشیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں بیک وقت تین فورمز پر توہین عدالت کی کارروائیوں کا سامنا ہے‘ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج کو دھمکانے کا معاملہ زیر سماعت ہے‘ الیکشن کمیشن کی توہین کا کیس الگ چل رہا ہے جبکہ لانگ مارچ کے واقعات پر سپریم کورٹ بھی توہین عدالت کا معاملہ دیکھے گی۔ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بظاہر عمران خان کے خلاف آیا ہے جس پر ایف آئی اے مزید تحقیقات کر رہا ہے۔ انہیں توشہ خانہ کیس کا بھی سامنا ہے۔ آثار دکھائی دیتے ہیں کہ عمران خان شاید اگلا کچھ عرصہ مقدمات میں الجھے رہیں گے‘ کسی کیس میں پیشی ہو گی‘ کسی میں ضمانت ‘ یا ممکن ہے کسی کیس میں ضمانت منسوخ ہو جائے اور نئے کیس میں طلبی ہو۔ مگر عمران خان تاثر دے رہے ہیں کہ وہ مقدمات کی وجہ سے پریشان نہیں بلکہ حکومت پر مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ''میں ہر روز خطرناک ہوتا جا رہا ہوں‘ جتنا مجھے دیوار سے لگائیں گے میں اتنا ہی طاقتور ہو جاؤں گا‘‘۔ عمران خان سیلاب کے باوجود جلسوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی مقدمات ہیں‘ وہ ان جلسوں کے ذریعے پریشر بڑھا رہے ہیں تاکہ کیسز سے بچا جا سکے۔ سیلاب کے باعث عوام کی سیاسی جلسوں میں دلچسپی کم ہو گئی ہے لیکن عمران خان جلسے موقوف کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ پشاور کا جلسہ انہیں ملتوی کرنا پڑا‘ اس کی وجہ سیلاب نہیں بلکہ مقامی قیادت کی طرف سے انہیں کہا گیا تھا کہ وہ ان کے شایانِ شان کراؤڈ جمع نہیں کر پائیں گے‘ اسی طرح چارسدہ اور مردان میں بھی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کے خدشے سے جلسہ کرنے سے گریزاں ہیں‘ مگر پنجاب میں مسلسل جلسے کر رہے ہیں کیونکہ پنجاب حکومت کے وسائل اور بڑے شہروں سے عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت کی توقع ہوتی ہے۔ ان سیاسی جلسوں سے عمران خان کا مقصود جلد الیکشن ہرگز نہیں۔ وہ پنجاب یا خیبرپختونخوا کی حکومت کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان حالات میں انہیں وفاق میں بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان ایک ارینجمنٹ کے تحت وفاق میں بھی رہیں گے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت انہی کی ہوگی۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ پھر عمران خان مسلسل جلسے کرکے عوامی مہم کیوں چلا رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عمران خان ان نو کیسز‘ انکوائریوں اور متوقع نااہلی سے بچنے کیلئے عوامی دباؤ کا سہارا لے رہے ہیں‘ کیونکہ جب جلسوں میں ہزاروں لوگ نکلتے ہیں تو وہ اسے اپنی مقبولیت سے تعبیرکرتے ہیں اور اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ مقتدر اداروں کا ایسے مقبول لیڈر کے خلاف جانا مشکل ہو گا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو عمران خان اپنے منصوبے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں‘ شاید وہ اس غلطی کو دہرانا نہیں چاہتے ہیں جو نواز شریف کر چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں جب نواز شریف پر کیسز قائم ہوئے تو وہ مقدمات کا سامنا کرتے رہے‘ بقول شخصے نواز شریف جس طرح بیس‘ بائیس گریڈ کے افسروں کے سامنے پیش ہوتے رہے عمران خان اس اذیت سے بچنے کیلئے عوامی طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔ عمران خان غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح مولانا فضل الرحمن کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے سخت مزاحمت کا مظاہرہ کیا تھا‘ اپنے ووٹرز کو باہر نکالا نتیجتاً وہ کیسز سے بچ گئے‘ اسی طرح مریم نواز پر جب دوسری مرتبہ کیسز قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے بھی جارحانہ رویہ اپنایا تو انہیں ریلیف مل گیا۔ عمران خان بھی اسی سٹریٹجی کے تحت کیسز سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوام کے پاس جانا ان کا جمہوری حق بھی ہے لیکن اگر وہ اداروں کو غیر ضروری طور پر دباؤ میں لا کر انصاف کا راستہ روکنے یادباؤ کا طرزِعمل اختیار کریں گے تو انہیں کچھ حاصل وصول نہ ہو گا۔
دوسری طرف سیلاب نے پاکستان کی سیاست کا رُخ بدل کر رکھ دیا ہے۔ پوری قوم اور عالمی دنیا سیلاب زدگان کے دکھ میں شریک ہونے کیلئے امداد فراہم کر رہی ہے۔ ایسے میں عمران خان حالات کے مخالف سمت میں کھڑے ہو کر سیاسی جلسے کر رہے ہیں‘ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ سیلاب زدگان کی آباد کاری تک زندگی معمول پر نہیں آ سکے گی۔ ابھی تک ریسکیو کا عمل پورا نہیں ہوا‘ کئی مقامات پر لوگ پانی میں پھنسے ہوئے ہیں‘ اس کے بعد ریلیف کا مرحلہ ہے جبکہ آبادکاری کا مرحلہ کافی دور ہے۔ ماہرین کے مطابق سیلاب متاثرین کی آبادکاری کیلئے ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا۔
سیلاب نے عمران خان کو موقع فراہم کیا تھا کہ وہ اپنی ساری توجہ فلاحی کاموں پر مرکوز کرتے تو عوامی حمایت حاصل کر سکتے تھے۔ ٹیلی تھون کے ذریعے انہوں نے جو فنڈنگ حاصل کی ہے اس سے یہی لگ رہا تھا کہ عمران خان کچھ عرصہ کیلئے سیاسی سرگرمیوں کو موقوف کر دیں گے مگر ٹیلی تھون مہم کے دوران ہی انہوں نے کہہ دیا کہ سیاست اور سیلاب زدگان کی مدد ساتھ ساتھ چلیں گے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان مزاحمت کو ترک کرنے پر کسی صورت آمادہ نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چار لوگوں نے بند کمرے میں بیٹھ کر سازش کر کے ان کو نااہل کرانے کا منصوبہ بنایا۔ عمران خان نے کہا کہ اگر انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو مجبوراً قوم کے سامنے ان لوگوں کی شکلیں رکھ دیں گے جنہوں نے اپنے مفادات کیلئے ملک کو اس مشکل میں ڈالا ہے۔ عمران خان نے اپنے اقتدار کے خاتمے کا چار افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے‘ اگرچہ یہ حساس معاملہ ہے تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے‘ اس سے قبل بھی پاکستان کی سیاست میں ایسے کرداروں کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 80ء کی دہائی میں ضیا الحق کے خلاف ''گینگ آف فور‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں دخل اندازی پر چند کرداروں کے نام پیش کیے تھے۔ پاکستان میں سب سے پہلے ضیا الحق اور ان کی انتظامیہ کے ارکان جنرل اختر عبدالرحمن‘ کے ایم عارف اور زاہد علی اکبر کو ''گینگ آف فور‘‘ کا نام دیا گیا‘ جس پر سیاسی بحث مباحثے بھی ہوئے‘ پھر 1999ء میں کارگل کی جنگ میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف پرویز مشرف کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور ''گینگ آف فور‘‘ کی اصطلاح سامنے آئی‘ اب عمران خان کی چار لوگوں سے کیا مراد ہے‘ یہ بہت اہمیت کا حامل سوال ہے۔ اگر عمران خان بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرح سیاسی مصلحت کا شکار ہو گئے اور ان چار افراد کے نام ظاہر نہ کئے تو جس طرح پیپلزپارٹی کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑا حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو بھی راہیٔ ملک عدم ہوئیں۔ اسی طرح نواز شریف نے جس ''گینگ آف فور‘‘ کا نام لے کر الزامات عائد کئے پھر انہی کے ساتھ مفاہمت اور ڈیل کی‘ نواز شریف کو بھی اس ڈیل کے سیاسی نقصانات ہوئے۔ بظاہر عمران خان بھی دانستہ طور پر وہی غلطی کرنے جا رہے ہیں کیونکہ وہ مقتدرہ کو مخاطب کرکے اقتدار حاصل کرنے کا واضح پیغام دے رہے ہیں۔ عمران خان اگر کسی ڈیل یا مفاہمت کے تحت دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں اور اس کے عوض ان لوگوں کا نام لینے سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں تو انہیں بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ( ن) کی طرح سیاسی و جانی نقصان کیلئے تیار رہنا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved