تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     04-09-2022

شہباز شریف اور سیاسی گرداب؟

وزیراعظم بننے کے بعد میاں شہباز شریف نے حال ہی میں عمران خان کے خلاف اب تک کا سخت ترین بیان دیتے ہوئے انہیں ملک دشمن ‘ غدار اور نجانے کن کن القابات سے نوازا۔ شہباز شریف عموماً دھیمے مزاج کے سیاستدان سمجھے جاتے ہیں جن کے بارے مشہور ہے کہ وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر‘ جبکہ معتدل طبیعت کے سیاستدان ہیں جو عموماً بے ضرر سے مذمتی بیانات دے کر کام چلاتے ہیں۔ وہ پرویز مشرف سے لے کر آج تک کی مقتدرہ کے بطور وزیراعظم پسندیدہ امیدوار رہے ہیں کیونکہ وہ سیاستدان سے زیادہ بہتر پرفارم کرنے والے اچھے منیجر کی شہرت رکھتے ہیں‘ لیکن چھوٹے میاں صاحب کی عمران خان کے خلاف یہ یلغار بتاتی ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے ‘ کیونکہ شہباز شریف ایسی زبان اسی صورت میں استعمال کرتے ہیں اگر وہ کسی مسئلے میں گھر چکے ہوں یا انہیں کوئی بڑا سیاسی نقصان ہوتا نظر آرہا ہو۔ مثال کے طور پر شہباز شریف نے 2012ء میں آصف علی زرداری کے خلاف ایسی شدت کی تقاریر شروع کیں کہ ان کی بازگشت آج تک یادگار ساؤنڈ بائٹس کے طور پر سننے کو ملتی ہیں۔ اس زمانے میں آصف علی زرداری صدرِ پاکستان اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے ‘ جب انہوں نے زرداری صاحب کو علی بابا اور چالیس چور‘ لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر دولت نکالنے کے دعوے شروع کئے۔ اس کے پیچھے بھی اُس زمانے کا ایک بڑا سیاسی چیلنج تھا جس نے مسلم لیگ (ن) کو پریشان کر رکھا تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ اکتوبر2011ء میں عمران خان نے لاہور میں ایک بڑا جلسہ کرکے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچادی تھی‘ کیونکہ وہ یکدم محض ایک کرکٹر اور شوقیہ سیاستدان کی کیٹیگری سے نکل کر بڑے سیاسی چیلنج کا روپ دھارچکے تھے۔ ایسے میں (ن) لیگ کے روایتی اور گھاگ سیاستدان سمجھ گئے تھے کہ پنجاب میں ان کا ووٹ بینک کاٹنے کی کوشش ہورہی ہے‘اور عمران خان کی لانچنگ اور کامیاب جلسے میں آصف زرداری کا بھی ہاتھ ہے۔ یہی سیاسی چیلنج آصف علی زرداری کے خلاف شہباز شریف کے غصیلے بیانات کی وجہ بنا۔ شہبازشریف کی ان سخت تقاریر کی وجہ اینٹی پیپلزپارٹی ووٹ کو بھی اپنی جانب کھینچنا تھا تاکہ وہ پی ٹی آئی کی جانب نہ چلا جائے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اب شہباز شریف کا لہجہ اتنا کرخت کیوں ہورہا ہے؟بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان پر کئی سخت کیسز کے باوجود عدالتوں کی جانب سے نرم رویہ وزیراعظم کو پریشان کررہا ہے۔ (ن) لیگ جو سوچے بیٹھی تھی کہ سیاسی میدان میں نہ سہی تو ٹیکنیکل گراؤنڈ پر وہ عمران خان کو آؤٹ کرکے لیول پلے فیلڈ حاصل کرلے گی ‘ تو یہ خواب بھی ایک سراب ثابت ہوا۔ ماضی گواہ ہے کہ عمران خان پہلے بھی توہینِ عدالت جیسے کیسز میں پھنسے اور معافی مانگے بغیر ان سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں ان پر توہینِ عدالت لگی لیکن انہیں معافی مانگے بغیر اگلے چیف جسٹس کے زمانے میں ریلیف مل گیا۔ اسی طرح الیکشن کمیشن میں ماضی میں بھی ان کے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوئی لیکن وہ وہاں سے بھی بچ نکلے ‘ بعد میں انہوں نے موجودہ الیکشن کمیشن پر وار شروع کردیے‘ جس کے پیچھے ان کا یہی اعتماد نظر آتا تھا کہ عوامی حمایت اور جارحانہ پالیسی اپنانے کی وجہ سے کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب حال یہ ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی جماعت کی حکومت ہوتے ہوئے بھی ملک میں واپس نہیں آپا رہے اور ان کی بیٹی مریم نواز چاہ کر بھی لندن نہیں جا پا رہیں‘ جس سے شہباز شریف کی اتھارٹی پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ شہباز شریف کو یہ بھی فکر کھائے جارہی ہے کہ انہوں نے اپنا پولیٹیکل سرمایہ خرچ کردیا‘اگرچہ ملک کو دیوالیہ پن سے بچالیا گیا۔ اس دیوالیہ پن کے خطرے کوعمران خان کی معاشی پالیسیز کو نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن شہباز شریف کو اس سیاسی قربانی کے عوض عمران خان اور ان کی اپنی جماعت کی جانب سے کٹہرے میں کھڑا کیا جارہا ہے کیونکہ ان کی پالیسیاں ملک میں مہنگائی کا سیلاب لے آئی ہیں۔ آئی ایم ایف سے مشکل ترین معاہدہ کسی نہ کسی طرح کامیاب ہوا تو سیلاب نے ملک کو آن گھیرا۔ اس کے نتیجے میں غذائی اجناس کی تباہی نے ملک میں آلو ‘ پیاز اور ٹماٹر مہنگے کردیے ہیں ‘ اس کا ملبہ بھی وزیراعظم اور ان کے وزیرخزانہ پر ڈالا جارہا ہے۔ پہلے پٹرول مہنگا ہونے پرعوام سڑکوں پر سراپا احتجاج تھے تو اب بجلی کے زیادہ بل اور سبزیوں کی مہنگائی پر ہر گھر میں آہ و زاریاں ہورہی ہیں۔
اسی تمام صورتحال نے شہباز شریف کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ انہیں ملک کو مشکل ترین حالات سے نکالنے کیلئے جس طرح کی غیر مشروط حمایت کی توقع تھی وہ شاید انہیں نہیں مل پا رہی۔ ان کا تلخ ہوتا لہجہ اس بات کا غماض ہے کہ وہ بھی اب اس تھیوری پر یقین کرنے لگے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کامیاب ڈیل کے بعد ان کی چھٹی ہوسکتی ہے ‘اور یہ کہ ان کی ساری محنت پلیٹ میں سجا کر عمران خان کو پیش کی جا رہی ہے اور انہیں دوبارہ اقتدار میں لانے کی تیاری ہورہی ہے۔شاید عمران خان کا اعتماد بلکہ حد سے بڑھا ہوا اعتماد شہبازشریف کو مزید طیش دلا رہا ہے۔ خان صاحب عدالت سے ضمانت کروا کر باہر آتے ہوئے جب فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ میں زیادہ خطرناک ہوگیا ہوں تو سیاسی پنڈت ان الفاظ کی گہرائی کو سمجھتے ہیں۔ جب ان کے قریبی ساتھی شوکت ترین ‘ آئی ایم ایف سے ڈیل سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں سرعام عیاں ہوتے ہیں اور جواباً کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آتی تو( ن) لیگ اس رویے کو بھی سمجھتی ہے۔ جب خان صاحب جلسے میں چار افراد کے نام لینے کی دھمکی دیتے ہوئے بڑھکیں لگاتے ہیں تو معاملہ مزید گمبھیر ہوجاتا ہے۔
اب تو سرعام باتیں ہورہی ہیں کہ عمران خان واپس تو آئیں گے ہی ‘ لیکن کیا دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئیں گے یا تین تہائی اکثریت کے ساتھ‘ کیونکہ ہر گزرتا دن ان کے بیانیے کو مقبول بنارہا ہے جبکہ مخالفین کی جانب سے کسی بیانیے کا نہ ہوناعمران خان کیلئے سیاسی سپیس کو مزید بڑھا رہا ہے۔ اس صورتحال میں اگر وزیراعظم شہباز شریف کا لہجہ تلخ ہورہا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں سمجھ بھی نہیں آرہی کہ وہ اس سیاسی دلدل سے کیسے نکلیں جو انہیں مسلسل اپنی جانب کھینچ کر مزید جکڑنے کی کوششوں میں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved