تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     04-09-2022

سیلاب کی تباہ کاریاں اور بے بس ماں

سندھ‘ بلوچستان‘ کے پی اور جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے 33ملین سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک ساڑھے بارہ سو سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی بارہ سو کے لگ بھگ ہے۔ ملک میں سات لاکھ 35ہزار کے قریب لائیو سٹاک سیلابی ریلوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ ساڑھے دس لاکھ سے زائد گھر زمین بوس ہو چکے ہیں۔ سندھ میں 14لاکھ ایکڑ‘ جنوبی پنجاب میں نو لاکھ ایکڑ جبکہ بلوچستان میں دو لاکھ ایکڑ سے زائد پر کھڑی فصلیں اور سبزیاں سیلابی ریلوں نے تباہ کر ڈالی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں غذائی بحران کا خدشہ بھی پیدا ہو چکا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے میں جس کیفیت کا شکار ہوا تھا اُس کااظہار میں نے اپنے ایک گزشتہ مضمون ''کاش نہ ہی دیکھا ہوتا‘‘ میں کیا تھا۔ اس کے بعد جب جنوبی پنجاب کے علاقوں ڈیرہ غازی خان‘ راجن پور‘ تونسہ‘ فاضل پور کے ارد گرد سیلاب سے متاثرہ دیہات کے باسیوں کی حالت زار اور درد ناک تکالیف کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو میرے ناتواں اعصاب جیسے بالکل ہی جواب دے گئے اور میں گھبرا کر ایک بار پھر سے یہی کہنے لگا کہ ''کاش نہ ہی دیکھا ہوتا‘‘۔ میرے اُس مضمون کے بعد مجھ سے بہت سے لوگوں نے پوچھا کہ سیلاب متاثرین کے لیے وہ کیا کر سکتے ہیں تو میں نے دردِ دل رکھنے والے اُن اوور سیز پاکستانیوں سے کہا تھا کہ وہ سیلاب متاثرین کو کم از کم ایک ایک بکری لے دیں کیونکہ ایک بکری بھی اُن غربت اور افلاس کے مارے ہوئے خاندانوں کے لیے ایسا سہارا ہے جس کا ہم شہروں میں رہنے والے تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میری ایک بکری کی بات بہت سے لوگ اب تک بھی نہیں سمجھ سکے لیکن یقین کریں کہ یہ ان کیلئے وہ نعمت ہے جس کا ہم جیسے شہری لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ سیلاب متاثرین سے جب اُن کی بکریوں اور بھینسوں کے نقصان بارے گفتگو کی گئی تو پتا چلا کہ یہ لوگ اپنی گزر اوقات انہی بکریوں سے کرتے ہیں کیونکہ جیسے جیسے ان جانوروں کی نسل بڑھتی جاتی ہے‘ اُن کے پالنے والوں کو اپنے خواب پورے ہوتے دکھائی دینے لگتے ہیں کیونکہ عیدِ قربان پر وہ انہی جانوروں میں سے دو چار بیچ کر اپنی بڑی بڑی ضروریات پوری کر لیتے ہیں۔ میری اپیل پر ایک اوور سیز پاکستانی نے لاکھوں مستحقین میں سے دو گھروں کو دو بکریوں کا تحفہ بھیج دیا ہے۔
راجن پور کے چک پولی‘ محمد پورہ گم والا‘ رسولپور‘ دھندی چک‘ زرانی اور چک موسانی سیلاب سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ اس کا کوئی اندازہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اسی علاقے میں بپھرے ہوئے سیلابی پانی میں پھنسی ایک بوڑھی اور ہڈیوں کے ڈھانچے کی مانند عورت کو ریسکیو کے جانبازوں نے نکالا تو اس بڑھیا کے ساتھ اس کی بکری بھی کشتی پر سوار تھی۔ بڑھیا کہنے لگی کہ یہ بکری میری اولاد ہے‘ یہ میری بیٹی بھی ہے‘ میں اس کی ماں ہوں‘ یہ میرے ساتھ ہی کشتی میں بیٹھے گی کیونکہ میرے علاوہ اس کا کوئی نہیں اور میری یہ بے زبان اولاد ہی مجھ غریب کا پیٹ پالتی ہے۔ اس بڑھیا نے بتایا کہ اس کا سب کچھ پانی میں بہہ گیا ہے اور یہ بکری ہی اب تو اس کا کل اثاثہ ہے۔ کشتی ابھی تھوڑی دور ہی چلی ہو گی کہ بکری کشتی کے انجن اور پانی کی تند و تیز لہروں کے شور سے گھبرا کر پانی میں کود گئی۔ اپنے واحد اثاثے کو یوں ڈوبتا دیکھ کر بڑھیا نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اس کے پیچھے سیلابی پانی میں چھلانگ لگا دی۔ سیلابی پانی کی تند و تیز لہریں اسے دیکھتے ہی دیکھتے بہا لے گئیں۔ اس کے پیچھے سیلابی ریلے میں ریسکیو کے اہلکار بھی پانی میں کود پڑے لیکن بہت تلاش کرنے کے با وجود نہ بکری مل سکی اور نہ وہ بڑھیا۔ سیلاب انہیں نہ جانے کہاں بہا لے گیا ۔ جب بھی وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے‘ میں اپنے ربِ کریم سے شرمندہ ہوتے ہوئے رونا شروع ہوجاتا ہوں کہ اﷲ تو نے مجھے کتنی نعمتیں دیں‘ کس قدر پیارا گھر دیا‘ کس قدر اچھی سواری دی‘ کتنے قیمتی اور جاذبِ نظر لباس دیے‘ مجھے کیا کیا نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں اور میں تیرا شکر بھی ادا نہیں کر سکتا۔ ہم گاڑی کے نقصان یا کچھ قیمتی اشیا کھو جانے یا بچوں کے ہاتھوں گر کی قیمتی اشیا ٹوٹ جانے پر ہنسنے لگتے ہیں اور ایک تیری دنیا کی یہ بوڑھی عورت ہے جس کی کل متاع ایک بکری تھی جس کے چھن جانے پر اس نے موت کی بے رحم سیلابی لہروں میں بے خطر چھلانگ دی۔
ماں تو آخر ماں ہوتی ہے یہ ہم سنتے رہتے ہیں لیکن یہ جو واقعہ لکھ رہا ہوں ایک جانور کا ہے۔ جیسے جیسے سیلاب کی تباہ کاریاں کم ہوں گی‘ سیلابی پانی سمٹ کر رہ جائے گا تو نہ جانے کتنی کہانیاں اور واقعات ہمارے سامنے آئیں گے لیکن یہ ایک واقعہ جس کا تعلق ایک کتیا سے ہے‘ جو بہتے ہوئے پانیوں کے اندر ایک جھاڑی میں پھنسی ہوئی تھی جب ریسکیو اہلکاراسے پکڑنے اور کشتی میں لانے کی کوشش کرتے تو وہ بجائے کشتی میں سوار ہونے کے زور زور سے چیختی اور دور ایک گھر کی جانب لپکنے کی کوشش کرتی۔ ریسکیو اہلکار جب اس گھر کی جانب بڑھے تو وہ یہ دیکھ کر کانپ اُٹھے۔ اس کتیا نے اپنے بچے بچا کر لکڑی کے ایک اونچے ڈھیر پر رکھے ہوئے تھے۔ جب تک ریسکیو اہلکار اس کے تمام بچوں کو‘ جن میں دو مردہ حالت میں تھے‘ کشتی پر نہ لے آئے وہ کتیا کشتی کے نزدیک بھی نہیں آئی۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے چاہے وہ اشرف المخلوقات میں سے ہو یا درند چرند اور پرند ہو۔
اگر کسی کو فاضل پور کے سیلاب کی صورت حال الفاظ میں بتانے کی کوشش کریں تو صحافت کی کتابوں اور مقالوں سے جتنے اثر انگیز الفاظ چاہیں استعمال کر لیں وہ کم ہیں۔ اسی فاضل پور کے سیلاب میں پھنسے ہوئے نہیں بلکہ دھنسے ہوئے ایک خاندان تک جب ریسکیو اہلکار پہنچے تو دیکھا کہ پانی میں ڈوبی ہوئی چارپائی پر ایک کمزور سی عورت ایک بیٹے کے ساتھ خون میں لت پت پڑی ہوئی تھی۔ ریسکیو اہلکاروں نے قریب جا کر دیکھا تو پتا چلا کہ وہ عورت ایک مردہ بچے کو جنم دینے کے بعد خود بھی موت کے منہ میں جا چکی ہے۔ چارپائی کے پاس بیٹھی روتی ہوئی دو بچیاں ابھی زندہ تھیں‘ ان سب کو کشتی میں ڈال کر کنارے کی جانب بڑھے جیسے ہی کشتی کنارے پہنچی تو ایک مفلوک الحال اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس شخص بھاگ کر کشتی کو جانب بڑھا اور جیسے ہی اس کی نظر کشتی پر اپنی بچیوں پر پڑی تو چیخیں مارتا ہوا ان سے لپٹ گیااور جب اُس نے نومولود بچے کو جنم دینے والی اپنی بیوی کو دیکھا تو جلدی سے اس کی جانب بڑھا لیکن پھر اپنی بیوی اور نو مولود بیٹے کو مردہ حالت میں دیکھ کر اسے اسی وقت دل کا ایسا جان لیوا دورہ پڑا وہ خود بھی موت کی وادی میں جا پہنچا۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت وہاں موجود ریسکیو ٹیم اور ہماری کیا حالت ہوئی ہوگی۔ اور وہ دو بچیاں جن کا اس وقت دنیا میں کوئی بھی وارث نہیں‘ کن حالات اور تکالیف کا سامنا کریں گی؟ اپنے اﷲ سے پناہ مانگیں اس سے اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کے واسطے دے کر معافیاں مانگیں اور اپنے بچوں کو اپنے ساتھ آرام اور دنیا جہاں کی ہر خوشی اور آسائش میں ہنستا بستا دیکھ کر شکر بجا لائیں۔ غریب اپنے کچے کانوں میں‘ مرغن کھانوں اور برانڈڈ پیزوں کے بجائے روکھی سوکھی کھا کر بھی ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں لیکن جب اُن کے سر پر کوئی چھت ہی موجود نہ رہے تو وہ اپنی زندگی کیسے گزاریں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved