ابھی تک نائن الیون کے اثرات دنیا بھر میں امر بیل کی طرح چڑھتے اور بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمارا المیہ جلیانوالہ باغ کا تھا جسے اشرافیہ کے تاریخ نگاروں نے خیالِ خام سمجھ کر جھٹک دیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے بھگت سنگھ کی اینٹی سامراج قربانی کو۔
اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک Still Picture ماضی و حال کے تقابل کے لیے اَپ لوڈ ہوئی جس میں 6‘7 لوگ 1947ء میں بے سروسامان‘ باقیاتِ حیات کاندھے پر رکھے انجانی راہوں پر چل رہے ہیں۔ دوسری پکچر 2022ء کے اسلامی جمہوریہ کے 6‘7 شہریوں کی ہے۔ بے سروسامانی‘ اُجڑے ہوئے لوگ‘ اُن کی بے بسی اور کاندھے پر باقیاتِ نان و نفقہ‘ حیران کن حد تک 1947ء والی تصویر سے ملتے جلتے ہیں۔میں سوچ میں پڑ گیا۔ 75 سال میں آزادی کی تلاش کرنے والوں کی تصویر میں صرف پکچر کوالٹی‘ کیمرہ لینز اور بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین والی تبدیلی آئی ہے۔ بے آسرا اور بے نوا لوگوں کے لیے حبیب جالب شاعرِ عوام‘ عشروں پہلے ایک نوحہ پُرسوز ترنم کے آنسوئوں میں بھگو کر لکھ گئے۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی اہلِ وفا کی صورتِ حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلافِ عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
وہی دن رات ہیں اسیروں کے
جب حبیب جالب نے بدبودار طبقاتی نظام کے خلاف یہ شعر موزوں کئے تب پاکستان اپنی کمپنیوں کے ذریعے بجلی پیدا کرتا تھا۔ اسی دوران انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز آ گئے جن کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں بس یوں سمجھ لیں کہ بجلی گھر‘ بجلی پیدا کرے نہ کرے میں نے اور آپ نے اس کا بِل ڈالروں میں بھرنا ہے۔ جس سے 100 میگاواٹ کا معاہدہ ہے‘ 10میگاواٹ بھی بنائے‘ بل 100 میگاواٹ کا ادا ہو گا۔ ساتھ ہی لائن لاسز بھی۔ جس کا مطلب ہے جہاں باہمت بجلی چور‘ بجلی چوری کرے وہاں اُس چوری شدہ بجلی کی پے منٹ وہ عزیز ہم وطن ادا کریں گے جن میں چوری کرنے کی ہمت نہیں۔
فیول چارجز تو آپ جانتے ہی ہیں‘ جن کو ابھی تک نہیں پتا وہ ذرا اپنا بل پڑھ لیں۔ میں نے بھی اپنے گھر کا بل پڑھا ہے۔ صرف ایک لاکھ 25 ہزار روپے سکہ رائج الوقت پاکستانی۔ اس میں سے 26 ہزار روپے کی میں نے بجلی جلائی ہے اور صرف 99 ہزار روپے ٹیکس + ٹیکس + ٹیکس + ٹیکس کے لگے ہیں۔ ہمارا مشہورِ زمانہ وزیر خزانہ کہتا ہے: ہم نے ٹیکس پہلے سے زیادہ جمع کیا۔ وہ ٹھیک کہتا ہے‘ ٹیکس تو زیادہ جمع کیا مگر وہ یہ نہیں بتاتا کہ یہ ٹیکس کسی نئے ٹیکس دینے والے سے نہیں لیا گیابلکہ جو پہلے سے ٹیکس دینے والے ہیں اُن پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر اُن کی کمر دہری کر دی گئی ہے۔ کتنے ٹیکس لگے‘ میں نہیں بتاتا۔ ''امپورٹڈ‘‘ حکومت کے شوبوائے سے سن لیجئے جس نے کہا :مجھے تو چھینک مارنے کے لیے بھی IMF سے پوچھنا پڑتا ہے۔
بات دوسری طرف چلی جائے گی لہٰذا اسے یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے بھی جو پاکستانی آٹے‘ دال کا بھائو پوچھتا ہے یا آلو‘ پیاز اپنے کمائے ہوئے پیسوں سے خریدتا ہے اُس کی معلومات میں ہم کیا اضافہ کر سکتے ہیں۔ دو چیزیں مجھے سمجھ نہیں آ رہیں‘ وہ میں وکالت نامہ کے مہربان قارئین سے جاننا چاہتا ہوں۔
ناسمجھی معاف نمبر 1: ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو قرض ملنے پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں۔ شادیانے بجانے والوں کا شور مچ جاتا ہے کہ اب ملک اور اس کی معیشت کو استحکام آ گیا۔ آئی ایم ایف آئے تو ایسے لگتا ہے جیسے ماموں لڈّو لے کر آیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر گفتگو یا اُن کی جانچ پڑتال غداری ہے۔ ان دنوں بھی سوا ارب کے قریب امریکی ڈالر ملنے پر ہر طرف ملکہ ترنم کی مشہور دُھن بجتی سنائی دے رہی ہے۔
سیّو نی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آ گیا
انجھ لگدا اے جیویں رانجھن
مینوں ہیر بناون آگیا
ارے بھولے بادشاہو! اتنا تو سمجھائو اس سال ہم نے آئی ایم ایف کو صرف سود کی مد میں 21 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔ کوئی دھیلا‘ ٹیڈی‘ پیسہ یا قصیرہ نہیں۔ تو پھر جو رانجھن آیا ہے وہ ہیر نہیں اُلّو بنانے آیا ہے۔
اب یہ بھی کوئی بتانے کی ضرورت ہے اگر 21 ارب ڈالر کا سود ادا نہ ہوا تو آپ اُس کا نام بدل کر رکھ دیں۔ وہی جو بات بات پر کہتا ہے‘ میرا نام بدل دینا۔
ناسمجھی معاف نمبر 2:ہم ریاست کی حیثیت سے گرانٹ اور مالی امداد کے کس قدر رسیّاہو گئے۔75 سالوں میں دو سالانہ سیلاب‘ پھر بھی ہر عشرے میں آنے والے بڑے سیلابوں سے بچنے کے لیے کچھ نہیں کرتے‘ ماسوائے سیلاب آنے کے بعد عالمی امداد کی اپیل کے جس میں انسانی ہمدردی کے دردناک پہلوئوں کے اشتہار چلتے ہیں۔ اور تو اور ہمارے پاس سانپوں اور بچھوئوں کے درمیان لیٹے ہوئے متاثرہ بچوں اور بے گھر خواتین کے لیے نہ ٹینٹ ہوتے ہیں نہ گدّے‘ Make shift housing تو دُور کی بات ہے۔ اس کے باوجود ہم ساری دنیا میں لڑی جانے والی جنگوں میں شرکت کو مقدس فریضہ جانتے ہیں۔ اب کوئی پوچھے‘ یوکرین اور روس لڑ پڑے تو اس میں ہمارا کیا لینا دینا؟ پس ثابت ہواایسا سوال پوچھنے والا پکاملک دشمن ہے۔ جی ہاں! آپ ٹھیک سمجھے۔ عالمی گائوں کے سب سے بڑے نمبردار کا دشمن۔
دو دن پہلے تربیلا جانا ہوا۔ اہل خانہ لنگر بانٹنے کا شرف رکھتے ہیں۔ بتانے لگے :ان کے گائوں کا سفید پوش اُونٹ پر لکڑیاں لاد کر بیچتا ہے۔ علیک سلیک کرتا ہے مگر کبھی آیا نہیں۔ پہلی بار آیا تو اُس کی آنکھیں آنسوئوں کی چغلی کھا رہی تھیں۔ کہنے لگا :جو کچھ کمایا تھا اُس سے بجلی کا بل دیا اور خاندان کے لیے آٹا خریدا۔ پانچ دن سے روٹی قہوے سے کھا رہے ہیں۔ آپ تھوڑی دال دے دیں یا تین چارآلو۔ اس سے زیادہ سننے کی ہمت نہ پڑی اور نہ ہی لکھنے کا حوصلہ پاتا ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved