تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     05-09-2022

کہا نہیں تھا کہ دریا کے راستے مت روک

سیلاب نے پورے ملک کو اژدھے کی طرح اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔ ہر طرف ایک کہرام ہے۔دل گداز منظر۔ لیکن انہی کے بیچ کچھ ایسے حوصلہ افز ا واقعات بھی ہیں جن کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ قوم کتنے ہی برے حالات سے گزر رہی ہو‘ ایک بار پھر اٹھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ راکھ میں سے ققنس کی طرح ایک نیا جنم لے کر۔ ایک نئی زندگی لے کر۔
یہ عجیب قوم ہے‘ ایک بار اس کا جذبہ بیدا رہوجائے تو دنیا کو باور کرادیتی ہے کہ ملک حاصل کرنے سے لے کر ایٹمی طاقت بننے تک‘ یہ سب کامیابیاں اس کی جھولی میں خود بخود نہیں آپڑیں۔ یہ مسلسل جدوجہد‘ قربانیوں اور کام کے نتائج ہیں۔ بات صرف اس کے بیدار ہونے کی ہے۔ معاملہ کسی ایک صوبے کا نہیں‘پورے ملک کا ہے اور پوری قوم نے ہی ہر آفت زدہ گوشے کے لیے اپنی جان اور مال کو وقف کیا۔یہ بات سوچ کر تسلی ہوتی ہے کہ قیامت چاہے زلزلے کی شکل میں آئے یا سیلاب کی صورت میں قوم کی بیداری کے روشن مناظر سب کو نظر آتے ہیں۔ حالیہ سیلاب کے شر میں سے خیر کا پہلو یہ نکلا کہ 2005ء کے زلزلے کی طرح اور 2010ء کے سیلاب کی طرح اس قوم کے بچے بچے میں یہ احساس بیدار ہوا کہ مصیبت زدہ بھائی بہنوں کو ضرورت ہے۔یہ احساس جاگنے کی دیر تھی کہ ہر سکول‘ ہر کالج‘ ہر یونیورسٹی‘ہر شہر اور ہر چوک میں سیلاب زدگان کے لیے امدا دی کیمپ کھل گئے۔ مذہبی جماعتوں نے حسبِ سابق اور حسبِ معمول تعاون کا حق ادا کیا۔ دارالعلوم کراچی نے بلوچستان میں سو گھرتعمیر کرنے کی ذمہ داری لی اور بعد ازاں ایک پورا نظام تشکیل دیا جس کے تحت جمع ہونے والی رقوم حقداروں تک پہنچ رہی ہیں۔مذہبی جماعتوں میں ہر مسلک کے لوگ پیش پیش اور فعال نظر آئے۔ اسی کے ساتھ سچ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے اپنے جذبے اور اپنی خدمت کے لحاظ سے فعال ترین ہیں۔ ان کے رضاکاروں نے اس سیلاب کی قیامت میں جس طرح لوگوں کی داد رسی کی ہے وہ خدمت کی بہترین مثال ہے۔
سیاسی جماعتوں کی بے توجہی کا گلہ سب کو رہا لیکن جب ان کی توجہ ہوئی توعمران خان کی ٹیلی تھون میں رقوم کے وعدوں نے سب کو حیران کردیا۔ ابھی وعدوں کی حد تک ہی سہی‘لیکن بالاخر 500 کروڑ روپے میں سے نصف بھی حاصل ہوجائیں تو بڑی رقم ہے۔یہ کام خان صاحب ہی کرسکتے تھے۔ حکومت بھی دیر سے بیدار ہوئی لیکن یہ بات قابلِ داد ہے کہ اس نے اس بڑے المیے کی طرف دنیا کی توجہ دلائی‘اقوام متحدہ کو بیدار کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لدے ہوئے جہاز پہنچنے لگے۔جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم نے اس قیامت کے دنوں میں بڑی قابل ِتقلید مثالیں قائم کیں۔1990 ء میں ایک چھوٹی سی عمارت سے شروع ہونے والا سفر اب ایک بڑے ادارے کی شکل اختیار کرگیا ہے۔سیلاب زدگان ہوں‘ زلزلہ زدگان ہوں‘ آفت رسیدہ لوگ ہوں یابے بس مریض‘ مدد کے کتنی ہی راستے اختیار کیے اور ہر راستہ بنانے کے بعد اسے ترک نہیں کیا۔
میں یہیں رک کر ایک سوال آپ سے اور اپنے آپ سے پوچھتا ہوں ؟کیا آپ نے چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوئے‘ کیچڑ میں لتھڑے ہوئے لوگوں کی مدد کی ہے ؟کیا کبھی آپ نے کسی یتیم بچے کو عمر بھر کے لیے اپنی آغوش میں لیا ہے ؟ کسی کو روزگار کے لیے بلا سود قرض دیا ہے ؟یا کسی طالب علم کی عمر بھر کی فیس‘کتابوں‘اور کپڑوں کی ذمے داری لی ہے ؟ بوند بوند ترستی مخلوق کے لیے صاف پانی کا مستقل بندوبست کیا ہے ؟دو چار کے لیے نہیں‘صرف کسی ایک فرد کے لیے ؟کیا زندگی کی اس سفاک دوڑ میں کسی ایسی مستقل ذمہ داری کو نبھانے کی مشقت اٹھائی ہے؟اگر ہاں ! تو پھر آپ اس راہ کی کٹھنائیوں سے کسی درجے میں واقف ہیں اور اگر نہیں تو آپ اس تگ دو سے تو محروم ہیں لیکن اس کے نتیجے میں ملنے والی خوشی سے بھی محروم ہیں اور یہ بڑی محرومی ہے۔
مجھے یہ بات بھی بہت فخر سے بتانی ہے کہ میری برادری‘یعنی قلم سے وابستہ لوگ‘خواہ وہ صحافی ہوں‘ شاعر ہوں یا ادیب‘انہوں نے ثابت کیا کہ وہ معاشرے کا حساس ترین حصہ ہیں اور خوابوں کی دنیا میں رہنے والے نہیں بلکہ معاشرے کی تکلیف کو محسوس کرنے والے لوگ ہیں۔ بے شمار رضاکار میدان عمل میں نکل آئے۔ ان میں سندھ‘پنجاب اور بلوچستان کے وہ لوگ بھی تھے جن پر قیامت گزری تھی اور وہ بھی جو بڑے شہروں میں ان آفتوں سے محفوظ رہے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا ان کیمپوں اور امدادی سامان اکٹھا کرنے کی پوسٹس سے بھر گیا۔ میں اگر صرف چند ناموں کا ذکر کروں اور صرف لاہور کا تو یہ باقی علاقوں اور باقی لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو گی‘ لیکن میں ان سب اہلِ قلم کو سلام پیش کرتا ہوں خواہ وہ کسی بھی خطے اورکسی بھی شہر سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ بات بھی میں نے محسوس کی کہ یہ حقیقی جذبہ فوٹو شوٹ سے ماورا ہے۔بے شمار خاموشی سے کام کرنے والے ایسے ہیں جن کا مجھے علم ہی نہیں۔
یہ سب ہمارے بیچ ہمارے گردو پیش میں ہورہا ہے۔ہوتا رہا ہے۔ معاشرے اور منظر کو تباہ کرنے والے بھی اپنا کام کرتے رہے ہیں۔ اور تباہی سے دوچار علاقوں کی تعمیرِ نو کا کام کرنے والے بھی۔ وہ باتیں اور وہ مناظر جو بتاتے ہیں کہ پامال کرنے والے کس طرح پامال کرتے ہیں اور کام کرنے والے کس طرح کام کرتے ہیں۔ ہمارا فرض کوئی اور ادا کر رہا ہو‘سال ہاسال سے‘اور ہم سے بہتر طریقے سے‘ تو پھر وہ آپ سے الگ کیسے ہوسکتا ہے ؟کیا آپ ان لوگوں سے ملے جو ہمارا فرض ادا کر رہے ہیں ؟
ہمیں اگر بہتے دریا اور بے شمار خوبصورت جھیلیں ملی ہیں تو ان کی قدر کرنی چاہیے۔ہم نے اپنے سمندر سے کیا سلوک کیا ؟شمالی علاقوں کے دریاؤں اور جھیلوں کے ساتھ کیاکیا ؟منظر تباہ کیے‘پانی آلودہ کیا اور ایسا ماحول بنا دیا کہ اچھے ذوق کے گھرانے کبھی ادھر کا رخ نہ کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ معمولی باتیں ہیں‘ فطرت یہ سب خاموشی سے برداشت کرتی رہے گی‘ لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ زمین کا توازن بنانے والے نے ہر عمل کا رد عمل بھی رکھا ہے۔ ایک سوال بہت اہم ہے‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سوات کے دورے پر کہا کہ جن محکموں اور جن لوگوں نے دریا کنارے غیر قانونی ہوٹل بنانے کی اجازت دی انہیں سزا ملنی چاہیے۔ ہم کالم میں بحرین‘ مدین اور منگورہ میں ہر قاعدے کو بالائے طاق رکھ کر عمارتیں بنانے پر کڑھتے رہے ہیں اور اب ان کے مالکان نے اس کا انجام بھی دیکھ لیا ہے۔ یاد رکھیے دریا اپنی زمین واپس لیتا ہے۔ اپنا انتقام خود لیتا ہے۔ یہ شعر یاد رکھیے:
کہا نہیں تھا کہ دریا کے راستے مت روک
کہ سیلِ آب کو قبضے چھڑانے آتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved