وفاقی حکومت خاص طور پر وزارتِ خزانہ اس بات پر خوش ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے ایک ارب سترہ کروڑ ڈالر کے توسیعی فنڈ کی سہولت کی منظوری دے دی ہے اور اسی مہینے ختم ہونے والے بیل آؤٹ پلان میں بھی جون 2023ء تک توسیع دینے پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اس پلان پر جولائی 2019ء میں پی ٹی آئی حکومت کے دور میں دستخط ہوئے تھے۔ موجودہ حکمرانوں نے‘ جو 2019ء میں اپوزیشن میں تھے‘ آئی ایم ایف کے ساتھ اس پلان پر دستخط کرنے پر پی ٹی آئی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
یہ امر قابلِ فہم ہے کہ وفاقی حکومت آئی ایم ایف سے یہ قرضہ ملنے پر اتنی خوش کیوں دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومت کو کچھ دیر کے لیے سانس لینے کا مزید موقع مل جائے گا اور وہ دیگر ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضے لے سکے گی اور یوں پاکستان اس سال اپنے واجب الادا قرضے واپس کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ پاکستان کے قرضوں اور مالیاتی ذمہ داریوں میں تو اضافہ ہو جائے گا مگر وہ ڈیفالٹ کرنے سے بچ جائے گا۔ ملک کے فارن ایکسچینج ریزروز اور روپے کی قیمت میں بھی استحکام آجائے گا۔ پاکستان کو مالیاتی گرانٹس مل جائیں گی اور وہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی اور آباد کاری کے لیے سپیشل فنڈز بھی لے سکے گا۔
یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا کہ حکومت اور بیوروکریسی سیلاب متاثرین کی بحالی خاص طور پر سڑکوں‘ پلوں‘ ذرائع مواصلات اور لوگوں کے رہائشی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے کس خلوص سے کا م کرتی ہے۔ ماضی کے تجربے سے تو ثابت ہے کہ حکومت اور بیوروکریسی نے 2005ء میں (کشمیر اور اس سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں زلزلے) اور 2010ء میں آنے والے سیلاب کے دوران بہت ناقص اور غیر تسلی بخش کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس مرتبہ اسے بارشوں اور سیلاب کے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے مستقل اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ اگر حکومت معیشت کی بحالی اور سیلاب کی تباہی کے بعد متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے ریلیف ورک کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ جاری سیاسی محاذ آرائی میں کمی لا کر ملک میں سیاسی ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کام کرے۔ فوری طور پر اس طرح کی تبدیلی کا بظاہر کوئی امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کو خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ کے خط کے تنازع سے عندیہ ملتا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے پاس وفاق کو ٹرانسفر کرنے کے لیے سرپلس فنڈ ز دستیاب نہیں ہوں گے کیونکہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد اس کے کندھوں پر اضافی مالی ذمہ داریاں آن پڑی ہیں۔خیبر پختونخوا کی حکومت نے اس خط کی ایک کاپی آئی ایم ایف کو بھیج کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔اس طرح وفاقی حکومت کو پی ٹی آئی قیادت کے خلاف سنگین پراپیگنڈا کرنے کا موقع مل گیااور اس نے خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور جھگڑا اور سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کے مابین ہونے والی گفتگو کو قومی مفاد اورحب الوطنی کے خلاف قراردے دیا، نیز یہ کہ اس اقدام کو آئی ایم ایف کے ساتھ ممکنہ مالیاتی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش سے تعبیر کیا۔مسلم لیگ (ن) نے اس پراپیگنڈاکو پی ٹی آئی کے خلاف ایک مجموعی پالیسی کے طورپر استعمال کیا۔
جو لوگ اس امر سے آگا ہ ہیں کہ بین الاقوامی ادارے کس طرح کام کرتے ہیں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جب وفاقی حکومت آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر چکی ہے تو خیبر پختونخوا حکومت کے خط سے پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انٹرنیشنل ڈپلومیٹس یہ جانتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کی اپوزیشن جماعتیں حکومت کو عالمی سطح پر پریشان کرنے کے لیے اکثر اس طرح کے حربے استعمال کرتی ہیں۔ اس طرح کا منفی خط یا پیغام کبھی کبھی کسی حد تک کامیاب بھی ہو جاتا ہے بشرطیکہ یہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ یا بین الاقوامی مالیاتی اور دیگر اداروں کے ایجنڈا کے مقاصد پور ے کرتا ہو۔خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ کا خط اس لیے بھی مغربی ایجنڈے پر پورا نہیں اُترتا تھا کیونکہ امریکہ پی ٹی آئی کی برخاست شدہ حکومت کے مقابلے میں موجودہ حکومت کو زیادہ قابلِ قبول سمجھتا ہے۔ مزید برآں وفاقی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی مذاکرات ہو چکے تھے اور وہ ان سے پوری طرح مطمئن بھی تھا۔ عالمی ادارے ہمیشہ کسی ملک کی وفاقی حکومت کے ساتھ ہی ڈیل کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اس ملک کی ماتحت حکومتوں کے ساتھ وفاقی حکومت کی مرضی سے ہی ڈیل کرتے ہیں۔ تاہم مغربی ممالک کی اکثریت کسی خاص ملک سے ناخوش ہو تو اس ملک کے اختلافی کمنٹس کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے کیونکہ اس طرح انہیں اس ناپسندیدہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے مواد مل جاتا ہے۔ یہی نیرنگی ٔسیاستِ دوراں ہے اور اس کی حرکیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ پی ٹی آئی کے بغیر پاکستان کے ساتھ دوستی رکھنا چاہتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی اپنی حکومت کے خاتمے کے پس پردہ ایک غیر مصدقہ امریکی سازش کے بیانیے سے پیچھے ہٹ جائے تو امریکہ پی ٹی آئی حکومت کو بھی قبول کر سکتا ہے۔
جب آئی ایم ایف آئندہ سال پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لے گا تو وہ صوبوں سے ملنے والے سرپلس فنڈز کو بھی پیش نظر رکھے گا۔ اگر طے شدہ وسائل دستیاب نہ ہوئے تو آئی ایم ایف وفاقی وزارتِ خزانہ سے اس کی وضاحت طلب کرے گا۔ تاہم سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے پیش نظر وہ ساری نہیں تو ان میں بعض کوتاہیوں کو نظر انداز کردے گا بشرطیکہ اسے ہماری معیشت میں کچھ بہتری کے آثار نظر آئیں۔ خاص طور پر اگر بجٹ خسارے‘ ادائیگیوں میں توازن اور ریونیو جمع کرنے کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ بھی کیا گیا ہو۔
ہمیں آئی ایم ایف ڈیل اور خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ کے خط کے حوالے سے دو ایشوز کو دیکھنا ہوگا۔ اول یہ کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل سے ایک بار پھر پاکستانی معیشت کے غیرملکی وسائل پر انحصار کی تصدیق ہوتی ہے۔ اگر پاکستان اپنے اہم ریاستی اثاثے کسی غیرملکی نجی یا ریاستی گروپ کو فروخت کرنے یا ان سے کوئی معاہدہ کرنے کا اعلان کرتا ہے تو پاکستان اپنی معاشی‘ داخلی اور فارن پالیسی کے حوالے سے فیصلہ سازی سے محروم ہو جائے گا۔ لہٰذا بیرونی وسائل پر روزافزوں انحصار قابلِ تشویش امر ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی زراعت اور صنعت میں جدت لانے پر توجہ دے کر اپنی معیشت کے ملکی ذرائع کو مضبوط کیا جائے۔ علم اور ٹیکنالوجی پر زور دینے کے علاوہ سماجی امور اور ریاستی گورننس میں انتظامی بہتری لانے پر بھی مناسب دھیان دیا جائے۔
آئی ایم ایف کی مدد لینے یا ملکی معیشت کے بیرونی ذرائع پر بڑھتے ہوئے انحصار کی بڑی قیمت تو عام شہری کو ادا کرنا پڑتی ہے جسے بھاری ٹیکس ادا کرنے اور مہنگے داموں اشیائے ضروریہ‘ سروسز‘ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی اور گیس خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چونکہ حکومت پاکستان اپنا بجٹ خسارہ کم کرنے‘ حکومتی اخراجات میں کمی لانے اور زیادہ سے زیادہ ریونیو جمع کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے دبائومیں ہوگی اس لیے وہ عام آدمی کو کسی قسم کا معاشی ریلیف فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ یہ ہماری خام خیالی ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستانی معیشت ایک عام شہری کی زندگی میں کوئی بہتری لا سکے گی۔ ہمارے سماج کا بالا دست طبقہ‘ بڑے بزنس اور صنعتیں تو شاید اس سے فائدہ اٹھا لیں‘ عام پاکستانی شہری کی زندگی پر ہرگز کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved