اپنے بیانیے سے عوام کو اپنا ہمنوا بنانے میں عمران خان اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران انہوں نے متعدد بیانیے تشکیل دیے‘ انہیں کیش کرایا اور ضرورت پڑنے پر نیا بیانیہ تشکیل دینے میں ذرا بھی تاخیر نہ کی۔ 2013ء کے الیکشن میں ناکامی کے بعد انہوں نے دھاندلی کا بیانیہ تخلیق کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت انہیں الیکشن ہرایا گیا ہے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت قائم ہو گئی مگر اس کے باوجود وہ تواتر سے کہتے رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت الیکشن میں دھاندلی کے سبب وجود میں آئی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اُن کے الیکشن میں دھاندلی کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے صرف چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرا لی جائے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیا۔ عمران خان کے مطالبے پر لاہور سے این اے 122 کا حلقہ کھولا گیا جہاں سے عمران خان کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار ایاز صادق نے الیکشن میں حصہ لیا تھا‘ دوبارہ گنتی میں سردار ایاز صادق کے ووٹ پہلے سے بھی بڑھ گئے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ عمران خان کی بات پر یقین کرنے لگے۔
تحریک انصاف کو اس بیانیے کا فائدہ یہ ہوا کہ الیکشن 2018ء میں کامیابی کیلئے اُسے سازگار ماحول میسر آگیا۔ اس دوران عمران خان نے کرپشن کا نیا بیانیہ تشکیل دیا اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے ملک و قوم کا پیسہ بیرونِ ملک منتقل کیا ہے۔ عمران خان اور اُن کے قریبی رفقا نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا جو پیسہ ملک سے باہر پڑا ہے اگر اسے واپس لایا جائے تو پاکستان کا بیرونی قرض اُتر سکتا ہے‘ اور یہ کہ تحریک انصاف کی حکومت وہ پیسہ واپس لائے گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت تو قائم ہوئی مگر جس دولت کو واپس لانے کا دعویٰ تحریک انصاف نے کیا تھا وہ واپس نہ لائی جا سکی۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ہر طرح کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود جب وہ ڈِلیور نہ کر سکی‘ اس کی پونے چار سالہ کارکردگی نہایت مایوس کن رہی اور مہنگائی میں ہونے والے کئی گنا اضافے نے عوام کی زندگی اجیرن کردی تو اپوزیشن جماعتوں نے آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو گئی مگر خان صاحب نے اسے تسلیم نہ کیا اور فوری یہ نیا بیانیہ بنا لیا کہ ان کی حکومت کو ختم کرنے کیلئے امریکہ نے سازش کی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک سفارتی سائیفر بطور ثبوت پیش کیا۔ ان کے امریکہ مخالف بیانیے پر بھی بہت سے لوگوں نے یقین کر لیا حالانکہ حقائق اس کے بالکل برعکس تھے اور بعدازاں یہ ثابت بھی ہوا کہ خان صاحب کی برطرفی میں امریکی مداخلت کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے میں تضاد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سیاسی جلسوں میں امریکہ مخالف تقاریر کی جا رہی ہیں مگر امریکہ میں موجود تحریک انصاف کے کارکنان کو امریکہ مخالف نعرے لگانے سے روک دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف امریکہ سے معاملات معمول پر لانے کیلئے درونِ خانہ اپنے تعلقات استعمال میں لا رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے 25 ہزار ڈالر کے عوض امریکہ میں ایک لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ امریکی سازش والا بیانیہ ابھی لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا تھا کہ عمران خان نے یہ نیا بیانیہ تشکیل دے دیا کہ چار لوگوں نے بند کمرے میں بیٹھ کر ان کی حکومت کے خلاف سازش کی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ عمران خان جب بھی کوئی نیا بیانیہ تشکیل دیتے ہیں ان کے حامی اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ اب عمران خان کی پوری توجہ ریاستی اداروں کی طرف ہے‘ اپنے جلسوں میں وہ جیسے بعض شخصیات کو مخاطب کرکے تنقید کے نشتر چلاتے ہیں‘ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ حالانکہ عمران خان کی شدید خواہش ہے کہ انہیں دوبارہ اقتدار دلا دیا جائے۔ عمران خان بظاہر مزاحمت کا رویہ اپنا کر بیک ڈور رابطے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ کسی بھی طرح انہیں حمایت بھی حاصل ہو جائے مگر خان صاحب کے جارحانہ رویے سے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُنہیں یہ حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ دیکھا جائے تو عمران خان کو ویسی مشکلات کا سامنا نہیں ہے جیسی مشکلات سے ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو دوچار ہونا پڑا تھا‘ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان کے دورِ اقتدار میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت پر قائم کردہ مقدمات اب بھی چل رہے ہیں‘ تاہم ان تمام تر مشکلات کے باوجود کسی لیڈر نے کبھی ایسا رویہ نہیں اپنایا جو ملک کے اجتماعی مفاد کے خلاف ہو۔
نئے آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کا صوابدیدی اور آئینی استحقاق ہے‘ عمران خان 2019ء میں اپنے اس اختیار کو استعمال کرکے جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دے چکے ہیں‘ اب اگر شہباز شریف بطور وزیراعظم ملک کے نئے آرمی چیف کو تعینات کرتے ہیں تو یہ اُن کا صوابدیدی اور آئینی اختیار ہوگا لیکن تحریک انصاف نے اس حوالے سے باقاعدہ پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ عمران خان نے اپنے فیصل آباد جلسہ میں کہا ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری الیکشن سے اس لیے بھاگ رہے ہیں کیونکہ یہ نومبر میں اپنی مرضی کی تعیناتی کرنا چاہتے ہیں‘ ان کی پوری کوشش ہے کہ ایسی تعیناتی کی جائے جو اِن کے حق میں بہتر ہو۔ ہر دور میں سیاسی جماعتوں کے نزدیک یہ تعیناتی بہت اہم رہی ہے مگر یہ پہلا موقع ہے کہ اس تعیناتی کا معاملہ سیاسی جلسوں میں زیر بحث آیا ہے۔ اول تو سیاسی جلسوں میں اس تعیناتی کو موضوع بحث بنانے سے گریز کیا جانا چاہیے تھا لیکن اگر ایسا ہو گیا تھا تو محتاط انداز میں میرٹ کی بات کی جا سکتی تھی لیکن اس حوالے سے احتیاط کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ یہ رویہ ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے شایانِ شان نہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے خان صاحب ملک بھر میں جلسے جلوس جاری رکھے ہوئے ہیں‘ حالانکہ ایسے حالات میں جبکہ ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے‘ ان سیاسی جلسوں کا کوئی جواز نہیں بنتا مگر اب خان صاحب نے اسلام آباد کو بند کرنے کا اشارہ بھی دے دیا ہے جس سے سیاسی بے چینی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا کیونکہ وہ اس سے قبل 2014ء میں بھی اسلام آباد میں 126دن کا دھرنا دے کر دیکھ چکے ہیں۔ اگر عمران خان اسلام آباد کو بند کرتے ہیں تو شہر اقتدار میں نظام زندگی شدید متاثر ہو جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ اس کے نتیجے میں وفاقی حکومت اُن کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کرے۔ عمران خان اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسلام آباد بند کرنے سے وہ فوراً برسر اقتدار آ جائیں گے تو ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان ایک جمہوری ملک اور منظم ریاست ہے۔ خان صاحب اس وقت میں غلطی پر غلطی کیے چلے جا رہے ہیں‘ غلطیاں دیگر سیاستدانوں نے بھی کی ہیں مگر ریاست کی قیمت پر سیاست کسی نے نہیں کی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved