سیلاب گزر گیا لیکن اپنے پیچھے ناقابلِ برداشت المیوں کی ایسی تلخیاں چھوڑ گیا ہے جنہیں ہم مدتوں بھول نہیں پائیں گے۔ ریلیف انٹرنیشنل کے مطابق سیلاب سے چاروں صوبوں کے 80 اضلاع کے سوا تین کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک 1200 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ 10 لاکھ 36 ہزار سے زائد گھر منہدم ہونے سے ایک کروڑ لوگ شیلٹر سے محروم ہو گئے ہیں، 6000 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہو گئیں، 7 لاکھ 33 ہزار سے زائد مویشی پانی میں بہہ گئے۔ فصلوں کے مجموعی نقصان کا تخمینہ 1042 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ہوا۔ منظور وسان کے مطابق صوبہ سندھ میں تقریباً 14 لاکھ ایکڑ پر کھڑی کپاس کی فصل، 6 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کھڑی چاول اور ایک لاکھ سے زائد ایکڑ پر محیط کھجور کے باغات تباہ ہوچکے ہیں۔ سوا سات لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر گنے کی فصل کے علاوہ تِل، ٹماٹر، مرچ،پیاز اور خریف کی سبزیوں کی تقریباً 50 فیصد فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔سیلاب میں زیادہ نقصان موسمیاتی تبدیلیوں کے دوران فطرت کے ساتھ کوآرڈی نیشن کے فقدان کے باعث ہوا۔ شاید ہم اپنی سرکشی اور روایتی بے حسی کی وجہ سے زندگی کے فطری دھارے سے ہم آہنگ رہنے کا وجدان گنوا بیٹھے ہیں۔ اس بڑے المیے کے بعد ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ بارشوں سے ہونے والی تباہی کی اصل وجہ پہاڑی نالوں اور نکاسیٔ آب کی قدرتی اور روایتی گزرگاہوں کی بندش تھی۔ اگرچہ چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر ہم قیمتی پانی ذخیرہ کرنے کے علاوہ کافی حد تک سیلابی ریلوں کو کنٹرول کرسکتے تھے؛ تاہم ڈیموں کی تعمیر پر اربوں ڈالر کے اٹھنے والے خرچ کے عذر پیش کرکے ہمیشہ جان چھڑا لی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب نہایت معمولی فنڈز سے ڈرینوں کی صفائی اور بحالی کے ذریعے پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلوں کو منیج کرنے میں ماسوائے متعلقہ محکموں کی غفلت کے کوئی اور چیز مانع نہ تھی۔ افسوس کہ ذمہ دار ادارے موسمیاتی تغیرات کے دوران ہماری اجتماعی حیات کو فطرت سے ہم قدم رکھنے کی مہارت سے عاری نکلے۔
حالیہ بارشوں کے دوران کوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں اور دریائے سندھ میں واقع350 کلو میٹر پہ محیط بیلٹ‘ جس میں ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع کے ایک کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے‘ وہاں بھی بنیادی مسئلہ پہاڑی نالوں، نکاسیٔ آب کی قدرتی گزرگاہوں، سڑکوں کے کاز ویز اور انڈس ہائی وے کی کلوٹوں کی مستقل بندش تھی جنہیں اگر سیلابی بارشوں کی پیش گوئی کے فوراً بعد بحال کر لیا جاتا تو اس قدر بڑے پیمانے کی تباہی سے بچا جا سکتا تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹانک زام، گومل زام، شیخ حیدر زام اور چودہوان زام جیسے بڑے پہاڑی نالوں کے علاوہ 32 کے لگ بھگ ایسے قدرتی فلڈ چینلز(رودیں) ہیں، جن میں لاکھوں کیوسک پانی کے اخراج کی فطری استعداد موجود ہے لیکن رودکوہی نظام آبپاشی کی بندش کے بعد محکمہ ایری گیشن کے فلڈ ڈویژن نے انہیں فراموش کر دیا ہوا ہے۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اس بار بھی صرف ٹکواڑہ نالے سے ایک لاکھ کیوسک پانی کا ریلہ گزرا۔ اسی طرح چشمہ بیراج سے تونسہ تک‘ 220 کلو میٹر پہ پھیلی بین الصوبائی چشمہ رائٹ بینک کینال کے کم و بیش سات بڑے سیفن اور 41 فلڈ چینلز‘ جو محکمہ آبپاشی کی غفلت کے باعث خود رو جنگلی جھاڑیوں سے اٹ جانے کے علاوہ تجاوزات کی وجہ سے بند پڑے تھے‘ سے تیزرفتار سیلابی ریلوںکا گزرنا دشوار ہو گیا۔ ڈیرہ غازی خان کے نالہ کوڑا، وہوا، سنگھڑ، سوری لنڈ، ویدور، ایس سرور اور متھن وا جیسے بڑے نالوں کے علاوہ ضلع راجن پور کے نالہ کاہا، چاچڑ، پتھوکی، سوری شمالی، سوری جنوبی، زنگی اور کالا بگاخیسورہ جیسے بڑے نالے بھی جنگلی جھاڑیوں کی بہتات، عدم صفائی اور تجاوزات کی بھرمار کی وجہ سے سیلابی پانی کی نکاسی ممکن نہ بنا سکے؛ چنانچہ منہ زور سیلابی ریلوں نے روایتی راستوں کی بندش کے باعث شہری آبادیوں کا رخ کر کے تباہی مچا دی۔ کسی بھی شکل کی آفات‘ چاہے وہ انسان کی پیدا کردہ ہوں یا فطرت کی نازل کردہ‘ سماجی زندگی میں خلل پیدا کرکے انسانوں، املاک، معیشت اور ماحول کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔ دنیا کے کئی معاشروں نے اس قسم کی آفات سے نمٹنے کی خاطر اپنی استعداد بڑھائی ہے لیکن ہمارے نظام میں آفاتِ سماوی سے نمٹنے کی صلاحیت بتدریج کم ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز وسائل رکھنے کے باوجود تاحال آفات کا مقابلہ کرنے کیلئے مؤثرتیاری خاص طور پر سیلابوں کا سائنسی طریقوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پر قدرت نہیں پا سکیں۔ اگر ایسا ممکن ہو جاتا تو ہم آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کیلئے میسر وسائل کو نہایت حکمت سے بروئے کار لا سکتے تھے۔ اس فانی دنیا میں آفات سے بچاؤ، تیاری، ردعمل اور بحالی کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے ایک خودکار اور منظم طریقہ کار کی تشکیل ناگزیر تھی لیکن اکثر فرسودہ طریقوں کو برقرار رکھنے والے سسٹم یا سرکاری اہلکاروں کی لاپروائی جیسی خرابیاں تباہی کے نتائج کو دوچند کردیتی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ تب درپیش تھا جب 2005ء میں زلزلے نے سماج سمیت بنیادی ڈھانچے کو لپیٹ میں لے کر سارے سرکاری نظام کو مفلوج کر دیا تھا۔ اسی حادثے سے ہمیں یہ سبق ملا تھا کہ انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال اور دیگر کارآمد عوامل پر توجہ دے کر حکومتیں اور تنظیمیں آفات کے نتائج کو روکنے کی صلاحیت حاصل کر سکتی ہیں یا کم از کم ان کے مضمرات کو کم ضرور کر سکتی ہیں۔
جب کسی آفت کا نزول ہوتا ہے تو وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ماتحت کام کرنے والے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اداروں کے کاندھوں پر قلیل اور طویل مدتی بحالی کے کاموں کو منظم کرنے کی ذمہ داری آن پڑتی ہے لیکن ایسے ادارے بھی قدرتی مصائب کی آمد پر فوری رسپانس کے قابل نہیں ہوتے؛ چنانچہ اس بار بھی مشکل کی ان گھڑیوں میں اخوتِ انسانی کے جذبے سے سرشار غیرسرکاری تنظیموں، سماجی کارکنوں اور اہلِ خیر کو آگے بڑھ کر مصیبت زدہ انسانوں کی دستگیری کرنا پڑی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سرکاری اداروں سے قبل دلِ درد مند رکھنے والے رضاکاروں نے ریسکیو سرگرمیاں شروع کرکے ہزاروں انسانوں کو موت کی آغوش میں جانے سے بچا لیا۔ مذہبی تنظیموں نے عالمی سیاست کی خونیں جدلیات سے نکل کراپنی افرادی قوت کو بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب و عقیدہ انسانی خدمت کیلئے وقف کیا، اس لحاظ سے مذہبی گروہوں کی صحت مند سرگرمیوں نے معاشرے میں مذہبی، لسانی اور علاقائی تفریق کی دھار کو کند کرکے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب ہونے کا موقع دیا۔
آفات کے بعد بحالی کا مرحلہ اکثر اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہنگامی ردعمل کی سرگرمیاں تھم جائیں۔ ڈیزاسٹر ریکوری کا عمل تباہی سے متاثرہ کمیونٹیوں کی بحالی، انفراسٹرکچر کی دوبارہ استواری اور معاشرے کی اجتماعی زندگی کو ری آرگنائز کرنے پر مرکوز رہتا ہے۔ اس میں این ڈی ایم اے جیسے مخصوص ادارے تکنیکی معاونت فراہم کرنے اور متاثرہ کمیونٹیوں کی ترجیحات کے مطابق بحالی میں مدد کے لیے ریکوری سپورٹ فنکشنز شروع کرتے ہیں، جن میں کمیونٹی پلاننگ اور صلاحیت کی تعمیرِنو، مکانات کی تعمیر و مرمت، معاشی سرگرمیوں اور نقل و حمل کے ذرائع کی بحالی، صحت کی سہولتیں، قدرتی اور ثقافتی مظاہرکی فوری بحالی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
بعض قدرتی آفات بھی انسانی غلطیوں کے نتیجے میں پیش آتی ہیں، جیسے متعلقہ اداروں کی غفلت کی وجہ سے حالیہ سیلاب میں آبی گزرگاہوں کی بندش وسیع تباہی کا وسیلہ بنی۔ اس کے علاوہ صنعتی ساخت کی خرابیاں بھی انسانی غلطیوں میں شامل کی جاتی ہیں۔ کمیونٹیز کو ایسے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے؛ چنانچہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ادارے ایسی انسانی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی قبل از وقت تیاری کے ذریعے فوری اور مؤثر جواب کا اہتمام کرتے ہیں۔ اکثر خراب طریقوں سے برقرار رکھنے والے عبوری سسٹم یا لاپروائی جیسے مسائل تباہی کے نتائج کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved