زندگی کے میلے میں تمام آئٹم یکساں دلچسپ ہوں‘ یہ لازم نہیں۔ ہر معاملے میں صرف رنگینی ہو یہ بھی ضروری نہیں۔ بہت کچھ ہے جو ہماری آپ کی توقع سے کم ہے مگر پھر بھی موجود ہے، کامیاب ہے اور قبولیت کی منزل سے گزر چکا ہے۔ تمام انسان یکساں معیار کے ہیں؟ کیا تمام انسانوں میں یکساں اہمیت کی صلاحیت پائی جاتی ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ تمام انسانوں میں کام کرنے کی بھرپور یا یکساں نوعیت کی لگن پائی جاتی ہو؟ اِن تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ یہ بھی کوئی حوصلہ شکن بات نہیں۔ یہ دنیا ایسی ہی واقع ہوئی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ ہر عہد میں دنیا طرح طرح کے لوگوں کی میزبانی کرتی آئی ہے۔ ہر عہد کے انسان صلاحیت، سکت، لگن اور ذہنیت کے اعتبار سے مختلف رہے ہیں۔ یہ اختلاف نوعیت میں بھی رہا ہے اور شدت یا درجے میں بھی۔ پھر بھی دنیا کی رنگینی کم نہیں ہوئی۔ معاملہ یہ ہے کہ قدرت نے ہم سب کو ایک خاص منصوبے کے تحت خلق کیا ہے۔ سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ جن میں صلاحیت کم ہوتی ہے اُن میں لگن زیادہ ہوتی ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ سکت تو ہوتی ہے، لگن زیادہ یا توانا نہیں ہوتی۔ بعض آپ کو ایسی حالت میں ملیں گے کہ صلاحیت بھی ہوگی اور کام کرنے کی لگن بھی بھرپور ہوگی مگر سکت کے معاملے میں وہ مار کھا رہے ہوں گے۔
دنیا کے ہر انسان میں چند خوبیاں اور چند خامیاں‘ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اِسی فرق سے دنیا کا کاروبار چلتا ہے۔ کسی میں صلاحیت کا کم ہونا کوئی بُری یا پریشان کن بات نہیں۔ یہ قدرت کا طے کردہ معاملہ ہے۔ ہاں‘ کچھ کرنے کی لگن کو توانا نہ رکھنا ضرور قابلِ تنقید ہے۔ قدرت کسی کو کسی ایک معاملے میں کمزور رکھتی ہے تو دوسرے کسی معاملے میں زیادہ نواز کر کسر پوری کردیتی ہے۔ یہ بھی قدرت ہی کا کام اور کمال ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی میں کوئی کمی پائی جاتی ہے تو وہ اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کمی کو کس طور دور کرتا ہے۔ آپ کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن میں صلاحیت اور سکت زیادہ نہیں مگر پھر بھی وہ کامیاب ہیں اور دوسروں کے لیے مثال بنے ہوئے ہیں۔ بہت سوں کو آپ ایسی حالت میں دیکھیں گے کہ محض لگن کی بنیاد پر کامیاب ہیں اور بعض کا یہ حال ہے کہ زیادہ باصلاحیت نہ ہونے پر بھی محض اس لیے کامیاب ہیں کہ اچھے منصوبہ ساز ہیں یعنی معاملات کو سمجھتے ہیں، خطرات کو بھانپنے کی صلاحیت پروان چڑھاکر وہ اپنے لیے پہلے ہی کچھ نہ کچھ انتظام کر رکھتے ہیں۔
قدرت نے کسی کے معاملے میں عدل سے کام نہ لیا ہو ایسا ہو نہیں سکتا۔ ہاں‘ ہمیں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کس کے لیے کہاں، کیا اور کتنی گنجائش ہے۔ سوال ہماری توجہ کا ہے۔ اگر ہم اپنے ماحول پر متوجہ رہیں، اُس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کریں تب اندازہ ہوتا ہے کہ بعض معاملات میں پائی جانے والی کمزوریاں بہت سے دوسرے معاملات میں ہمارے لیے برتری کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی ہمارے لیے مواقع پیدا کرتی ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی میں کوئی خامی پائی جاتی ہے اور ماحول میں رونما ہونے والی کسی تبدیلی کے نتیجے میں وہی خامی بہت بڑی خوبی بن کر سامنے آتی ہے۔
صلاحیت و سکت اور خوبی و خامی کے کھیل کو اگر ڈھنگ سے سمجھنا ہو تو علم و فن کی دنیا کے ساتھ ساتھ شوبز کی دنیا سے بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ علوم و فنون اور شوبز کی دنیا میں ایسے بہت سے لوگ بلندی پر دکھائی دیتے ہیں جنہیں اُصولی طور پر عمومی سطح پر ہونا چاہیے تھا! تو کیا وہ محض حالات کی مہربانی سے بلندی پر پہنچ گئے؟ جی نہیں! کسی کسی کے معاملے میں تو ایسا ہوسکتا ہے مگر زیادہ تر کے حوالے سے یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ شوبز کی دنیا میں وہی لوگ کامیاب رہتے ہیں جو اپنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کو بھی سمجھتے ہیں اور اُن سے کام لینے کا ذہن بنا پاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ میٹھی اور سریلی آواز والا کوئی شخص ہی کامیاب گلوکار بنے۔ ایسے گلوکار بھی کامیاب ہو رہتے ہیں جن کی آواز میں خاص مٹھاس نہیں پائی جاتی۔ بعض گلوکاروں اور گلوکاراؤں کی آوازیں کانوں کو چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں مگر پھر بھی اُن کی ڈیمانڈ میں کمی نہیں آتی۔ سبب اس کا یہ ہے کہ وہ ماحول کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے وہی کچھ دے رہے ہوتے ہیں جس کی اُن سے توقع رکھی جاتی ہیں۔ پروفیشنل اِزم وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ہر شعبے میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو ڈھنگ سے اوسط درجے کا کام بھی نہیں کر پاتے۔ کام دینے والے بھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ ہر باصلاحیت انسان جینئس نہیں ہوتا۔ سب جینئس ہو بھی نہیں سکتے۔ ایسے میں زیادہ کامیاب وہ رہتے ہیں جو صلاحیت اور مہارت میں دوسروں سے بلند نہ ہوں تو بعض دوسرے معاملات میں اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ کمتر صلاحیت اور واجبی سی مہارت کا حامل ہونے پر بھی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا بہت مشکل کام ہے مگر اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے، اپنے مزاج کو ایک خاص حد میں رکھتے ہوئے مطلوب معیار کا کام بروقت اور پُرسکون یعنی غیر پریشان کن انداز سے کرنا بھی بہت بڑی خوبیوں میں شمار ہوتا ہے۔ بہت حد تک یہی پروفیشل اِزم ہے۔
غیر معمولی صلاحیت اور بھرپور لگن رکھنے والے خال خال ہوتے ہیں۔ ہر شعبے کا یہی حال ہے۔ اکثریت اُن کی ہے جو اوسط درجے سے بھی کم سطح پر رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ اُن میں کچھ الگ یا کچھ زیادہ کرنے کا جذبہ کم ہی پایا جاتا ہے اور اُنہیں اعلیٰ زندگی کی طرف بلانا بھی بہت بڑا دردِ سر ہے۔ وہ دوسروں کو دیکھتے ہیں، اُن کی کامیابی سے متاثر ہوتے ہیں، اُن کا ذکر بھی کرتے رہتے ہیں، حوالہ دیتے رہتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ وہ خود بھی حوالہ بن سکتے ہیں، دوسروں کے لیے مثال کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ اپنی مخصوص ڈگر پر چلتے ہوئے خاصی نچلی سطح کی زندگی بسر کرنا تو اُنہیں قبول ہوتا ہے۔ تھوڑی سی توجہ اور لگن کے ساتھ کچھ الگ سے کر دکھانے کی تحریک اُنہیں نہیں مل پاتی۔ ہر شعبے میں کام لینے والے یعنی آجر یہ حقیقت اچھی طرح جانتے اور ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے ہیں کہ غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہونا اور دیے ہوئے کام سے ہٹ کر کچھ کرنا اور اپنے آپ کو منوانا ہر ایک کا شوق نہیں۔ وہ ہر اجیر کو اُس کے مزاج کے مطابق کام دیتے اور اس سے اُتنی ہی توقعات وابستہ رکھتے ہیں جتنی وابستہ رکھی جانی چاہئیں۔ یہی سبب ہے کہ اگر کسی میں کام کرنے کی غیر معمولی لگن پائی بھی جاتی ہو تو اُسے زیادہ تیزی سے دوسروں پر ترجیح نہیں دی جاتی کیونکہ اِس سے بے دِلی پھیلتی ہے۔ کوئی بھی آجر یہ نہیں چاہتا کہ اُس کے ہاں بالکل معمول کی صلاحیتوں کے حامل افراد بے دِلی سے کام کریں۔ جو لوگ اوسط درجے کی زندگی گزارتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کبھی اپنے معاشی و معاشرتی معاملات کو اَپ گریڈ کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے اُنہیں رفعت کی حامل زندگی کی طرف بلانا خاصا مشکل کام ہے۔ انسان جس سانچے میں رہتے ہوئے جیتا آیا ہو اُس سے نکلنا اُسے زیادہ پسند نہیں ہوتا۔ اِسی کو کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا کہتے ہیں۔ کمفرٹ زون کے باسی باہر کی دنیا میں آنے سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف ہی اُنہیں زندگی بھر پست درجے کی زندگی کے دائرے میں گھومتے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
اگر کسی کو بلند ہونے اور کچھ کر دکھانے کی تحریک دینی ہے تو اِس کا بہترین وقت بچپن ہے اور اُس کے بعد بہترین وقت عنفوانِ شباب ہے کہ جب انسان کسی حد تک تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر تحریک دی جائے تو زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔ سکول اور کالج کی سطح پر نئی نسل کو اعلیٰ معیارِ زندگی کے لیے تیار ہونے کی تحریک دی جانی چاہیے۔ کسی کو بلند تر زندگی کے لیے تیار کرنے کا اِس سے اچھا وقت کوئی نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved