کہتے ہیں زندگی تلاش کا سفر ہے۔ اس سفر میں کبھی تو ہم کسی خواب کے تعاقب میں سرگرداں ہوتے ہیں اور کبھی کوئی خواب ہمارا پیچھا کرتا ہوا اچانک ہم سے لپٹ جاتا ہے۔ میں پچھلے ہی مہینے ٹورونٹو آیا تھا۔ اُس روز میں گھر کے ٹیرس پر بیٹھا تیز ہوا سے جھولتے درختوں کو دیکھ رہا تھا۔ لگتا تھا کچھ ہی دیر میں بارش شروع ہونے والی ہے۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ فون کرنے والے نے بغیر تمہید کے بولنا شروع کر دیا ''میرا نام احمد رضوان ہے اور میں ٹورونٹو میں رہتا ہوں۔ آپ کا نمبر انعام رانا صاحب نے دیاہے۔ میرا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ یہاں کئی برسوں سے مقیم ہوں‘ ادب سے لگاؤ ہے۔ ہم کچھ دوست ہر مہینے ملتے ہیں ہر کوئی اپنی تخلیق پیش کرتا ہے۔ اگلے ہفتے ہم روبینہ فیصل کے گھر جمع ہو رہے ہیں۔ آپ کے پاس وقت ہو تو ہماری محفل میں شرکت کی دعوت قبول کریں‘ جہاں آپ کی باقی دوستوں سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ رضوان نے ایک ہی سانس میں ساری بات کہہ دی۔ نجانے اس کے لہجے میںکیا خاص بات تھی کہ میں نے کہا: میں ضرور آؤں گا۔ اگلے ہفتے وقتِ مقررہ پر رضوان مجھے لینے پہنچ گیا۔ وہ مجھے لینے کے لیے خاص طور پر Bramptonسے West Rougeآیا تھا۔ راستے میں ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا تھا۔ یہ میری رضوان سے پہلی ملاقات تھی لیکن میرے گھر سے Oakville تک کے راستے میں باتیں کرتے ہوئے مجھے یوں لگا ہم ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے ہیں۔ باتوں باتوں میں سفر کٹنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ وقتِ مقررہ پر ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے تھے۔ رضوان نے دروازے کی گھنٹی بجائی۔ دروازہ کھلا اور فیصل صاحب نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ہماری میزبان روبینہ فیصل بھی آگئیں اور گفتگو میں شریک ہو گئیں۔ پھر آہستہ آہستہ دوسرے مہمان آنا شروع ہو گئے اور ڈرائنگ روم بھر گیا۔ اب خاتونِ خانہ نے کھانے کے آغاز کا اعلان کیا۔ جب میں نے کھانے کی میز پر نظر دوڑائی تو یوں لگا جیسے لاہور میں بیٹھا ہوں‘ وہی دیسی کھانے جن کی لذت اور قدرو منزلت وطن سے دوری پر اور بڑھ جاتی ہے۔ اب تو ٹورونٹو میں یہ کھانے بہت مقبول ہیں اور آپ کو مختلف علاقوں میں کڑاہی پوائنٹ‘ کڑاہی بوائز‘ بامیان اور نان کباب نامی ریستوران نظر آئیں گے۔ آج سے تیس برس پہلے ہم ان کھانوں کو ترستے تھے۔ تب صرفGerrad Street ایسی جگہ تھی جہاں دیسی کھانے ملتے تھے لیکن اب ٹورونٹو کے مختلف حصوں میں دیسی کھانوں کے اَن گنت مراکز کھل گئے ہیں۔
کھانا کھانے کے بعد ہم بیسمنٹ میں آگئے جہاں پر نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ جولائی کا مہینہ تھا لیکن مجھے ہلکی ہلکی خنکی محسوس ہو رہی تھی۔ ہماری میزبان روبینہ دوسرے کمرے سے بلینکٹ لے آئی۔ یہ ایک دلچسپ منظر تھا‘ ہم بلینکٹ اوڑھے صوفوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے یہ گاؤں کی چوپال ہے جس میں ہم سب قصہ گوئی کی محفل میں بیٹھے ہیں۔ میں نے کہا: ہمارے درمیان کچھ شاعر موجود ہیں کیوں نہ اس کا فائدہ اٹھایا جائے۔ سب نے اس تجویز کی تائید کی۔ مجھے کہا گیا کہ آغاز میں کروں۔ میں نے کہا: میں شاعر تو نہیں‘ البتہ اگر آپ چاہیں تو کسی دوسرے شاعر کے شعر سنا سکتا ہوں۔ سب نے کہا: ضرور۔ میں نے منیر نیازی کی ایک دو نظمیں سنائیں‘ یوں مشاعرے کا آغاز ہو گیا۔ احمد رضوان نے ایک نثری نظم سنائی اور پھر فیصل عظیم نے اپنی نظم اور غزل سے محفل کو گر مایا۔ فیصل عظیم کی شاعری کی کتاب ''میری آنکھوں سے دیکھو‘‘ شائع ہو کر ناقدین سے داد وصول کر چکی ہے۔ اب روبینہ فیصل کی باری تھی۔ روبینہ کے فن کے کئی پہلو ہیں کالم نگاری‘ افسانہ نگاری اور شاعری۔ اس کے کالموں کا ایک مجموعہ ''روٹی کھاتی مورتیاں‘‘ افسانوں کے دو مجموعے ''خوابوں سے لپٹی کہانیاں‘‘ اور ''گمشدہ سائے‘‘ اور نثری شاعری کا مجموعہ ''ایسا ضروری تو نہیں‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ ناول ''نارسائی‘‘ کا مسودہ اشاعت کے لیے تیار ہے۔
سامعین کی فرمائش پر روبینہ نے دو نظمیں سنائیں۔ یہ ذاتی تجربوں میں گندھی ہوئی اثر انگیز نظمیں تھیں جن میںہجرت اور شناخت کی ٹکڑوں میں بٹ جانے کی کیفیت نمایاں ہے۔ زبان سادہ لیکن لفظ جذبوں کی حدت سے سلگتے ہوئے۔روبینہ کی شاعری کا موضوع ہجرت کے دوران شخصیت کی وہ تقسیم ہے جس میں خواب‘ آدرش اور یادوں کے خزانے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ساری زندگی مسافر کے دل میں کسک بن کر جاگتے رہتے ہیں۔ یہی تارکینِ و طن کی زندگیوں کا المیہ ہے جو Displacement سے جنم لیتا ہے اور جس کا احوال ایڈورڈ سعید کی معروف کتاب Out of Place میں ملتا ہے۔
اسی دوران چائے کا ایک اور دور شروع ہو گیا۔ اب محفل میں شامل ڈاکٹر خالدہ نسیم کی باری تھی۔ ڈاکٹر خالدہ ٹورونٹو کے ایک مقامی ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں خیبر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔ وہ خیبر میڈیکل کالج کے رسالے سینا (SENNA) کے پشتو حصے کی مدیر تھیں۔ اُنہی دنوں کی بات ہے وہ پشتو کے معروف شاعر غنی خان کی شاعری سے آشنا ہوئیں۔ غنی خان کی شاعری خیال اور جذبے کے ملاپ کی شاعری تھی جس میں علمِ ثقافت اور خیال یک جان ہو گئے تھے۔ غنی خان کی شاعری کو نوجوانوں کے دلوں میں مہکانے کا کام معروف گلوکار سردار علی ٹکر نے کیا۔ غنی کی شاعری کی یہ مہک خالدہ کے دل میں بھی آبسی۔ پھر اسے کالج میگزین کی مدیرہ کی حیثیت سے غنی خان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ یہ اس کی زندگی کا ایک یادگار دن تھا۔ اس دن سے غنی خان کی شاعری اس کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ اس نے سوچا کیوں نہ غنی کی پشتو شاعری کا منظوم انگریزی ترجمہ کیا جائے۔ وہ چپکے چپکے اپنے خواب کی تعبیر پر کام کرنے لگی۔ پھر قدرت اسے کینیڈا لے آئی۔ کینیڈا کی مصروف زندگی میں وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن غنی خان اس کا عشق تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ غنی کی شاعری کا انگریزی ترجمہ The Pilgrim of Beauty کے نام سے شائع ہو چکا ہے لیکن خالدہ سمجھتی تھی کہ شاعری کا ترجمہ صرف لفظوں کا ترجمہ نہیں بلکہ خیال کی شدت اور اثر پذیری کو بھی دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام ہے۔ کینیڈا کی سخت کوش زندگی میں خالدہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے مصروف اوقات کار سے ہر روزکچھ لمحے چرا کر اپنے خواب پر کام کرتی رہی۔ اب تک وہ پچاس کے قریب نظمیں پشتو سے منظوم انگریزی ترجمے میں منتقل کر چکی ہے۔ آج جب محفل میں خالدہ کی باری آئی تو اس نے روایتی عجزسے کہا: میں تو شاعرہ نہیں ہوں۔ سب نے کہا: آپ غنی خان کی نظم کا منظوم انگریزی ترجمہ سنا سکتی ہیں۔ اب خالدہ کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس نے پرس سے اپنا موبائل فون نکالا اور اس میں سے غنی کی نظم ''تلاش‘‘ کا انتخاب کیا اور اس کا ترجمہ سنانے لگی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ترجمہ نہیں‘ تخلیق لگتی تھی جس میں اصل شاعری کا بانکپن اور جذبوں کا رچاؤ نمایاں تھا۔ خالدہ غنی خان کی نظم ''تلاش‘‘ کا منظوم ترجمہ سنا رہی تھی‘ ہم سب سانس روک کر ساکت بیٹھے تھے‘ ٹورونٹو میں رات کا پچھلا پہر دبے پاؤں گزر رہا تھا اور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ زندگی بھی تو تلاش کا سفر ہے‘ اس سفر میں کبھی تو ہم کسی خواب کے تعاقب میں سرگرداں ہوتے ہیں اور کبھی کوئی خواب ہمارا پیچھا کرتا ہوا اچانک ہم سے لپٹ جاتا ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved