مصمم ارادہ تھا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں مصیبت زدہ عوام کے درمیان گزرے ہوئے شب و روز کا وہ کرب قارئین سے شیئر کروں گا جو وہاں محسوس کرتا اور اُس پر کڑھتا رہا ہوں۔ یہ بھی طے تھا کہ اس کالم سے مجہول سیاست اور مفادِ عامہ کی نفی کرتے سیاستدانوں کو پرے ہی رکھوں گا‘ لیکن بیانیہ فروشوں نے میری تمام کوششیں اور ارادے اس طرح توڑ ڈالے ہیں کہ سیلاب زدگان پر ٹوٹنے والی قیامت اور ناقابلِ بیان حالتِ زار کے علاوہ اس ہتک آمیز بیان کو بھی کالم کا حصہ بنانا پڑا جس کے ردِ عمل میں پاک فوج سمیت سبھی محب وطن پاکستانیوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ یہ غم و غصہ بجا اور تنگ آمد بجنگ آمد کا طبل بھی ہو سکتا ہے۔ اگلے موضوع پر جانے سے پہلے واضح کرتا چلوں کہ آزمائش کھلے آسمان تلے پڑے سیلاب زدگان کی نہیں بلکہ ان کی ہے جو اس قیامت سے محفوظ اور ان کی بحالی کی استطاعت کے باوجود لاتعلق اور گریزاں ہیں۔ عثمان بزدار کی صورت میںقوم کو دھچکا اور سرپرائز دینے والے کس منہ سے عسکری قیادت پرکوئی سوال اٹھا رہے ہیں؟ تختِ پنجاب کی چولیں ہلانے والوں نے صادق اور امین کے معنی الٹانے کے ساتھ ساتھ انتظامی عہدوں کا نیلام گھر لگا کر کون کون سی بدنامی اور جگ ہنسائیاں نہیں سمیٹیں؟ مردم شناسی سے عاری شخص فیصلہ سازی کے منصب پر فائز ہو جائے تو نامعلوم اہلیت کے حامل افراد صفر کارکردگی کے ساتھ جابجا نظر آتے ہیں۔ صدرِ مملکت نے پارٹی چیئرمین کے بیانیے سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آرمی چیف سمیت پوری فوج محب وطن ہے جبکہ عمران خان اپنے بیان کے خود ذمہ دار ہیں۔
غداری کا 'فتویٰ‘ جاری کرکے کسی کی حب الوطنی کو داغدار کرنے کا اختیار اور ٹھیکہ کسی جماعت کے پاس نہیں۔ محض ایک بیانیے سے کسی کی حب الوطنی اور وطن پرستی کا فیصلہ کرنے والے قوم کو تقسیم اور انتشار کی آگ میں مت دھکیلیں۔ عوام کے پاس جانا ہے تو کارکردگی لے کر جائیں۔ امریکہ مخالف بیانیے کی مارکیٹنگ کرنے والے اپنے دورِ اقتدار میں امورِ حکومت چلانے کیلئے ان در آمدی ماہرین پر انحصار کرتے رہے ہیں جن کی اکثریت امریکہ سے آئی تھی۔ ان سبھی کی اہلیت تاحال نامعلوم اور کارکردگی صفر تھی۔ ان درآمدی مشیروں نے کابینہ میں شامل اچھے اچھے وزیروں کو اس طرح نکڑے لگایا کہ وہ آج میرٹ پر اپنے حلقۂ انتخاب میں جانے کے قابل نہیں۔ عوامی ووٹ سے منتخب ہوکر آنے والے وزیرں پر امریکہ سے درآمدی مشیروں کو فوقیت دینے والے کس منہ سے 'امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے‘ جیسے بیانیے مارکیٹ کررہے ہیں۔
امپورٹڈ حکومت‘ بیرونی مداخلت اور عالمی سازش جیسے بیانیے حب الوطنی اور غیرتِ قومی کو جگانے کے علاوہ عوام کو اکسانے‘ اشتعال دلانے اور تقسیم کرنے کا بھی باعث ہو سکتے ہیں۔ بیانیہ سازی سے لے کر بیان بازی تک‘ پوائنٹ سکورنگ سے لے کر غلبہ حاصل کرنے تک‘ مخالفین کے لتے لینے سے لے کر کردار کشی تک‘ سیاسی اختلافات کو ذاتی عناد‘ بغض اور دشمنیوں میں تبدیل کرنے سے لے کر عسکری اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے حالات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جانے تک‘ ایک دوسرے کی وطن پرستی پر انگلی اٹھانے سے لے کر غداری کا طعنہ دے کر سبھی کچھ تار تار کرنے تک منظرنامہ اس قدر تشویشناک ہوتا چلا جارہا ہے کہ خدا خیر کرے میرے آشیانے کی۔ حصولِ اقتدار کے لیے بے تاب اور بے چین رہنے والے ہوں یا طولِ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے والے‘ سبھی کردار تو بدل چکے ہیں۔ بیانیوں کی حدت اور شدت میں غیرمعمولی اضافہ سیاسی درجہ حرارت کے علاوہ دیگر حالات کو بھی خطرناک حد تک لے جا چکا ہے۔
کارکردگی اور قول کی حرمت سے بے نیازحصولِ اقتدار کے لیے مارے مارے پھرنے والے سیاسی لیڈر ناکردہ گناہوں کی سزا اور عذابِ مسلسل لگتے ہیں۔ وہی چہرے وہی کردار‘ وہی دعوے وہی بڑھکیں‘ وہی بیانات وہی الزام تراشیاں‘ نہ کوئی اخلاقیات ہیں نہ کوئی پاس و لحاظ‘ نہ احترام آدمیت۔ تحمل‘ برداشت اور بردباری جیسے اوصاف تو گویا ناپید ہی ہو چکے ہیں۔ زبانوں سے ایک دوسرے کے خلاف یوں شعلے اگلتے ہیں کہ بس نہیں چلتا مدِمقابل کو بھسم کر ڈالیں۔ ایسی چیخ و پکار کرتے ہیں جیسے ان کی جائیدادوں کے جھگڑے اور ذاتی دشمنیاں ہوں۔ ملک کو کہیں اکھاڑا تو کہیںعناد‘ بغض اور انتقام کی آگ نے انگار وادی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ قسمت ہی روٹھ گئی ہے۔ تبھی تو یہ سیاہ بختی پون صدی گزرنے کے باوجود ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
بیانیہ سازی سے لے کر بیانیہ فروشی تک سبھی کردار فراموش کرنے پر آتے ہیں تو قانون اور ضابطوں سے لے کر آئین اور حلف تک سب یکسر فراموش کر ڈالتے ہیں۔ ان سبھی سے انحراف کرکے بھی محض اس لیے اترائے پھرتے ہیں کہ ان کا بیانیہ سپرہٹ ہو گیا۔ بس بیانیہ چلنا چاہیے بھلے اور کچھ چلے نہ چلے۔ ان جمہوری چیمپئنز سے کوئی تو پوچھے کہ وہ کون سا سنہری دور تھا‘ وہ کون سے خوش نصیب دن تھے‘ وہ کون سے یادگار لمحات تھے کہ مملکتِ خداداد میں حقیقی جمہوریت کی کونپلیں پھوٹی ہوں‘ عوامی مینڈیٹ کے درخت پھل پھول سے لدے ہوں‘ تحمل‘ برداشت اور بردباری کی فضا نے سیاسی ماحول کو مہکایا ہو‘ آئین کی پاسداری اور قانون اور ضابطوں پر عملداری ہوئی ہو‘ انتخابی دعووں اور وعدوں کو برسراقتدار آکر عملی اقدامات کی شکل دی گئی ہو‘ مفادِ عامہ کو نصب العین بنایا گیا ہو‘ سرکاری وسائل اور خزانے کو امانت سمجھا ہو‘ صادق اور امین کے معانی نہ الٹائے گئے ہوں‘ دادرسی کیلئے سائل در در کی خاک نہ چھانتے ہوں‘ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے نہ بھٹکی ہوں‘ قانون اور ضابطے جبر اور ظلم کے اشاروں پر نہ ناچے ہوں‘ سربلند کو سرنگوں کرنے کیلئے انتظامی مشینری کا ناجائز استعمال نہ کیا ہو‘ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ نہ کی گئی ہو‘ پیداواری عہدوں کی بولی نہ لگی ہو‘ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے نہ ہوئے ہوں‘ بوئے سلطانی کے ماروں نے اداروں کو نہ للکارا ہو‘ بندہ پروری اور اقربا پروری کے ساتھ ساتھ شکم پروری کی بدعت کو فروغ نہ دیا ہو‘ حرام حلال کی تمیز کو نہ مٹایا ہو؟ ان چشم کشا اور ناقابلِ تردید تلخ حقائق کی موجودگی میں کس منہ سے بیرونی مداخلت اور عالمی سازش کی بات کی جاتی ہے؟
مسلسل بداعمالیوں کے بعد کسی سازش کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ انحراف آئین سے ہو یا عوام سے کیے گئے وعدوں سے‘ دونوں صورتوں میں یہ ملک و قوم کے خلاف سازش ہے۔ بیرونی مداخلت کا بیانیہ بھی ضرور بیچیں لیکن خیال رہے کہ شعلہ بیانی اور اشتعال انگیزی میں اس حد تک نہ چلے جائیں کہ اپنی لگائی آگ کل خود سے بھی نہ بجھے۔ گوڈے گوڈے اندرونی و بیرونی مسائل میں دھنسے اور بال بال قرضوں میں جکڑے ممالک کو قرضہ دینے والوں کی شرائط اور ٹکے ٹکے کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ جس ملک میں قرضوں کی قسط کی ادائیگی کیلئے بھی قرض لینے کا رواج ہو۔ ٹیکسز اور بجٹ ان قرضوں کی کڑی شرائط کے گرد گھومتے ہوں۔ جہاں معاشی ڈھانچہ محض ڈھانچہ بن چکا ہو‘ اقتصادی اصلاحات صرف کاغذوں کا پلندہ ہو‘ نیت اور ارادے کارِ بد میں لت پت ہوں وہاں ڈکٹیشنز اور مداخلتوں کے عذاب جھیلنے پڑتے ہیں۔ سبھی بوئے سلطانی سے مجبور اور نظریات سے عاری ہی پائے گئے ہیں۔ عوام کی سادگی کا ماتم کیا جائے یا ان کے نصیب کا‘ جو ہر بار انہیں مینڈیٹ دے کر مقدر کا سکندر تو بنا دیتے ہیں لیکن اپنے مقدر کو ووٹ کی سیاہی مل کر خود ہی سیاہ کر لیتے ہیں۔ ووٹ کی سیاہی مقدر کب تک سیاہ کرتی رہے گی؟ کب تک؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved