تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     07-09-2022

جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع

وطنِ عزیز پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے۔ جس کے قیام کے لیے مسلمانانِ ہند نے وسیع پیمانے پر قربانیاں دی تھیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں تر بتر کیا گیا، نوجوانوں کے سینوں میں سنگینوں کو اُتارا گیا، بچوں کو نیزوں کی انیوں پر تڑپایا گیا، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی چادروں کو نوچا گیا اور اُن کی عصمت کو تار تار کیا گیا۔ گھر بار کو چھوڑ کر لاکھوں کی تعداد میں مسلمانانِ برصغیر نے ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ گھر بار لٹانے اور بے شمار قربانیاں دینے کے باوجود برصغیر کے مسلمان اس بات سے مطمئن تھے کہ وہ ایک آزاد ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا وجود بھارت کی ریاست کے لیے ایک چبھتا ہوا کانٹا تھا اور وہ ہمیشہ پاکستان کے وجود کو تار تارکرنے کے درپے رہی۔ پاکستان کے خلاف مختلف قسم کی سازشیں کرتی رہی، یہاں تلک کہ 6 ستمبر 1965ء کو ایک بڑی جنگ کو پاکستان پر مسلط کر دیا گیا۔ پاکستان کی بہادر افواج نے عوام الناس کے تعاون سے بھارت کی کھلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ لاہور اور سیالکوٹ کے سیکٹر پر بھارت کی افواج کو پسپا کرنے کے لیے پاکستان کی فوج نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کیا۔ پاکستان کی فوج کے پیچھے ملک کے عوام کی مکمل تائید تھی اور عوام الناس پاکستان کے دفاع کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دینے پر آمادہ و تیار تھے۔ قومی اتحاد کی وجہ سے بھارت اپنی جارحیت اور اپنے مذموم مقاصد میں مکمل طور پر ناکام رہا اور پاکستان پر حملے اور قبضے کا ناپاک بھارتی خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔
6 ستمبر 1965ء کا دن دفاعِ وطن کی ایک عظیم یادگار ہے اور ملک بھر میں اس دن کو ملی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ 7 ستمبر کو اسی مناسبت سے یومِ فضائیہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کی فضائیہ پیشہ ورانہ اور فنی مہارت کے مظاہرے بھی کرتی ہے۔ کسی بھی وطن کے جغرافیے کی حفاظت کے لیے افواج کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے اور افواج اس وقت ہی مؤثر کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں جب عوام اُن کی پشت پر ہوں۔ اگر عوام کی تائید میسر نہ ہو توکوئی بھی ملک اپنا دفاع صحیح طریقے سے کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جغرافیے کے ساتھ ساتھ ملک کے دفاع کے لیے اس کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ بھی انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا تھا اور اس کی نظریاتی بنیاد کلمہ طیبہ ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پر رکھی گئی ہے۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی وہ واحد ریاست ہے جس کو خالصتاً اسلامی نظریے کی بنیاد پر قائم کیا گیا۔ ہندوستان میں رہنے والے ہندوؤں کے ساتھ رنگ، نسل، زبان اور تہذیب کے اشتراک کے باوجود مذہب کی دوری کی وجہ سے پاکستان دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ پاکستان کے دفاع کے لیے جہاں افواج پاکستان نے ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا‘ وہیں اس کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے علماء کرام اور اسلام پسند عوام نے بھی بھرپور طریقے سے جدوجہد کی ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد ختم نبوت سے انحراف کرنے والے گروہ اپنے آپ کو مسلمان باور کرواتے تھے۔ علمائے اسلام نے پاکستان کے محب وطن اور محب دین عوام کی ہمراہی میں ایک منظم تحریک چلا کر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے لیے بھرپور انداز سے جدوجہد کی۔ اس حوالے سے ملک کی تمام مذہبی جماعتیں اپنے اپنے دائرۂ کار میں مؤثر کردار ادا کرتی رہیں۔ مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، پروفیسر غفور، نواب زادہ نصر اللہ خان اور چودھری ظہور الٰہی اس حوالے سے مؤثر اور نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ اس تحریک کے پس منظر میں علمائے اسلام کی مذہبی اور علمی کاوشیں بھی بھرپور طریقے سے موجود تھیں؛ چنانچہ تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اس حوالے سے اس تحریک کے چلنے سے قبل بھی عوام الناس کی رہنمائی کرتے رہے تھے۔ مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی، پیر مہر علی شاہ، مولانا انور شاہ کشمیری اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اس حوالے سے عوام الناس کی بھرپور طریقے سے رہنمائی کی اور ان کو یہ بات اچھے طریقے سے سمجھائی کہ ختم نبوت سے انحراف کرنے والا کوئی بھی گروہ اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے کا حق نہیں رکھتا اور جو شخص بھی ختم نبوت سے انکار کرے گا‘ اس کو دائرۂ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔ علمائے اسلام کے اجماع اور ان کی علمی کاوشوں کے باوجود قادیانی اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہے اور اہلِ اسلام کو قرآن و سنت کا نام لے کر دھوکا دینے کی کوشش کرتے رہے۔ بہت سے سادہ لوح مسلمان اور بڑی تعداد میں مفاد پرست عناصر تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے حصول کے لیے قادیانیت کے ہم رکاب ہو گئے؛ چنانچہ اس فتنے کی بیخ کنی کے لیے علمائے اسلام نے اس بات کو واضح کیا کہ اس گروہ کا دینِ اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ختم نبوت کے حوالے سے کتاب و سنت کے دلائل بہت واضح ہیں۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ ''محمد رسول اللہﷺ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں‘‘۔ جہاں قرآنِ مجید نے مسئلۂ ختم نبوت کو واضح کیا‘ وہیں احادیث مبارکہ سے بھی اس مسئلے کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے بعض احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری و صحیح مسلم‘ مسند احمد بن حنبل اور سنن الکبریٰ للبیہقی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: میری اور سابق نبیوں کی مثال ایک شخص کی ہے‘ جس نے ایک خوب صورت گھر بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کر اس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ''قیامت اُس وقت تک نہیں آئے گی‘ جب تک تیس بڑے جھوٹے نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے‘‘۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ ''رسول اللہﷺ جب جنگ تبوک کے لیے نکلے تو آپﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا نائب مقررکیا۔ حضرت علیؓ نے عرض کی کہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑکر جانا چاہتے ہیں؟ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے علی! کیا آپ اس بات پر خوش نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ علیہ السلام کو ہارون علیہ السلام سے ہے‘ مگر میرے بعدکوئی نبی نہیں‘‘۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ''بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیاء کرام حکومت کرتے رہے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جب ایک نبی کا انتقال ہو جاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعدکوئی نبی تو نہیں ہوگا؛ تاہم خلفاء ہوں گے اور تعداد میں بہت ہوں گے‘‘۔ سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''میرے بعد تیس بڑے جھوٹے آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے جبکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔
حضرت رسول اللہﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے علمائے اسلام نے جو کردار ادا کیا‘ اس کا نتیجہ قادیانیوں کو قانونی طور پر غیر مسلم قرار دینے کی شکل میں نکلا اور قادنیوں کی ریشہ دوانیوں کے سامنے علم کے ساتھ ساتھ قانون کا بند بھی باندھ دیا گیا۔ قادنیوں کی ریشہ دوانیوں کے آگے بند باندھنے کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر گروہوں کا تعاقب کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ بہائی فرقہ حسین علی مازندانی، بابی فرقہ علی محمد باب اور نیشن آف اسلام کے لوگ علیجاہ محمد کو (نعوذ باللہ) رسول مانتے ہیں۔ امریکہ ہی میں ڈاکٹر رشادخلیفہ کو بھی یونائیٹڈ سب میٹرز (United Submitters) کے نام سے ایک گروہ رسول تسلیم کرتا ہے (العیاذ باللہ)۔ ان تمام فتنوں کا مقصد اُمت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور لوگوں کے ذہنوں میں کتاب و سنت کے حوالے سے شکوک وشبہات کی آبیاری کرنا ہے۔ ان تمام گروہوں اور جماعتوں کا علمی تعاقب کرنا اہل اسلام کی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے ریاست پاکستان کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ 7 ستمبر 1974ء کو ملک کی قومی اسمبلی نے ختم نبوت سے انحراف کرنے والے گروہوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے کر نہ صرف یہ کہ پاکستان کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی بلکہ اُمت مسلمہ کو یہ راستہ دکھلایا اور سمجھایا کہ جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ختم نبوت کا منکر ہے وہ درحقیقت دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان کے نظریے اور جغرافیے کے تحفظ کے لیے افواج پاکستان، علماء کرام اور قوم کو کردار ادا کرنے کی توفیق دے، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved