تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     07-09-2022

چھینکنا منع ہے

وزیراعظم شہباز شریف نے نجانے کتنے دکھی دل اور سینے پر پتھر رکھ کر وہ سچ بولا ہے‘ جو اس ملک کا ہر حکمران بولنے سے ہمیشہ کتراتا آیا ہے۔ وہ جملہ جو شہباز شریف صاحب نے دنیا بھر کے سامنے ببانگ دہل کہا‘ اسے ہر حکمران اشاروں کنایوں میں تو کہتا رہا لیکن بڑی ہوشیاری سے تاکہ کسی کے کچھ پلے نہ پڑے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے سب کے سامنے کھلے الفاظ میں زمینی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ''پاکستان کی حالت اب یہ ہو چکی ہے کہ اگر ہمیں چھینک بھی مارنی ہو تو اس سے پہلے آئی ایم ایف سے اجازت لینا پڑتی ہے‘‘۔ وزیراعظم صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ''ہم آزاد نہیں ہیں کہ اپنے فیصلے خود کر سکیں، فیول ایڈجسٹمنٹ پر بھی آئی ایم ایف سے پوچھنا پڑا کہ کہیں وہ ہمارا حقہ پانی بند نہ کر دے، ہمیں اپنے پاؤں پرکھڑاہونا ہے تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہونا چاہیے‘‘۔ وزیراعظم صاحب کی آئی ایم ایف سے چھینک مارنے کی اجازت والی بات کو لے کر پی ٹی آئی اور سوشل میڈیا کے منچلوں کے علاوہ کچھ دائیں‘ بائیں بازو کے دانشور بھی اپنے تبصروں اور تجزیوں میں حکومت کو نشانے پر لیے بیٹھے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی دفتر میں کوئی میٹنگ ہو رہی ہو اور اس دوران اگر کسی جونیئر افسر کو چھینک آ جائے تو وہ سب لوگوں کے سامنے چھینکنے سے ہر ممکن حد تک پرہیز کرتا ہے۔ اب ذرا سوچیں کہ اگر اعلیٰ سطحی بیرونی اجلاس ہو رہا ہو یا ملک کو معاشی وینٹی لیٹر فراہم کرنے والی ٹیم روبرو ہو تو کیا کسی کی جرأت ہو سکتی ہے کہ اس کے سامنے چھینک مار سکے؟ وزیراعظم صاحب نے تو حکومت سنبھالنے سے قبل ہی فرما دیا تھا کہ ''Beggars can't be choosers‘‘۔ لہٰذا منطقی اور عقلی طور پر بات یہاں ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ''ہم کوئی غلام ہیں؟‘‘ یا Absolutely not کی باتیں خوشنما نعروں اور دل کو خوش کرنے کی باتوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اس وقت حکومتی سطح پر جن معاشی حالات کا سامنا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام‘ جسے کل تک ملک کو گروی رکھنے کے پلان سے تعبیر کیا جا رہا تھا‘ کی بحالی پر حکومت کی جانب سے مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں‘ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی‘ جس نے اس پروگرام کی مخالفت کی‘ اس کو وطن دشمن اور نجانے کیا کچھ کہا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے قبل جون کا مہینہ گزارنے کیلئے چین سے امداد طلب کی گئی۔ جولائی میں گزارہ کرنے کیلئے سعودی عرب سے مدد لی گئی اور اگست میں قطر کا دورہ کیا گیا۔ اب ستمبر کیلئے آئی ایم ایف پروگرام پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ وہی پروگرام جس کی شرائط ایسی ہیں کہ بقول وزیراعظم صاحب ''چھینک مارنے سے پہلے بھی اب آئی ایم ایف سے پوچھنا پڑتا ہے‘‘۔
یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے والوں کا معاشرے میں کیا مقام ہوتا ہے۔ جب کسی قوم کا یہ نعرہ بن جائے کہ ''بھیک منگے اپنی مرضی نہیں کر سکتے‘‘ تو پھر قوم کے افراد کو ایک دوسرے سے مانگنے تانگنے کی اجازت نہ جانے کیوں نہیں دی جا رہی۔ وفاقی دارالحکومت میں نجانے یہ فیصلہ کیوں ہوا ہے کہ اسلام آباد کی سڑکوں اور مارکیٹوں کو بھیک مانگنے والے گداگروں سے پاک کیا جائے گا۔ ایک حکم جاری ہوا ہے کہ بھیک مانگنے والوں کو پکڑ کر ''ویلفیئر ہومز‘‘ میں رکھیں اور اگر اسلام آباد کی کسی بھی سڑک پر کوئی بھیک مانگنے والا دیکھا گیا تو اس علاقے کی انتظامیہ، متعلقہ پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف اقدامات کیے جا ئیں گے۔ اگر وزارتِ داخلہ کے ان احکامات پر واقعی عمل کیا گیا تو پھر اسلام آباد کے لنگر خانوں اور ویلفیئر ہومز کا بھی وہی حال ہو جائے گا جو ملک بھر کی جیلوں کا ہو چکا ہے کہ جہاں گنجائش پندرہ سو قیدیوں کی ہوتی ہے مگر پانچ ہزار سے زائد قیدی وہاں ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جلد ہی بھیک مانگنے کے جرم میں پکڑے جانے والے افراد کے لیے ویلفیئر ہومز کم پڑنے لگیں گے اور پھر سرکاری سکولوں اور کالجوں کی عمارات میں ایسے افراد کو منتقل کرنا پڑے گا۔ وزارتِ داخلہ کے احکامات پر بھکاریوں کی پکڑدھکڑ کا سلسلہ اگر ایک بار شروع ہو گیا تو پھر یہ معاملہ نجانے کہاں جا کر رکے گا۔
کہتے ہیں کہ غیر ملکی امداد اور قرضوں کی لت 1954ء میں اس وقت پڑنا شروع ہوئی تھی جب اونٹوں کے گلے میں ''Thank you America‘‘ کے پلے کارڈز ڈال کر ہم گندم اور گندم کا بیج فراہم کرنے والوں کو دعائیں دینے لگے تھے۔ 1974ء میں ہم نے دنیا سے التجا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے تمام قرضے معاف کر کے ہمیں مزید قرضے دیے جائیں کیونکہ ہمارا ملک دولخت ہو چکا ہے۔ 1998ء میں جب ہم ایٹمی طاقت بنے تھے تو معاشی پابندیوں کے باعث سانس لینا بھی محال ہو گیا تھا‘ اس کے بعد سعودی عرب سے گزارش کی گئی تھی کہ ہمیں تیل مفت دیا جائے کیونکہ ہم نے ایٹمی دھماکے کیے ہیں۔ پھر 2000ء میں ہم نے پیرس کلب کے سامنے اپنے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی التجا کی تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی اتنا بدحال ہو چکا ہے کہ اس کے بیٹوں کے پاس اپنی مادرِ وطن کے لیے کچھ نہیں بچا؟ پاک وطن کی یہ سر زمین ہر امیر اور غریب کی ماں ہے اور جس ماں نے ہم سب کو پال پوس کر جوان کیا‘ اپنا خون پلا پلا کر ہمیں اس قابل بنایا کہ اب ہم میں سے کوئی لکھ پتی ہے تو کوئی کروڑ پتی ہے اور کوئی ارب اور کھرب پتی ہے۔ کسی کی ایک فیکٹری یا ایک کارخانہ ہے اور کسی کی فیکٹریوں اور کارخانوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ کسی کا ایک گھر ہے تو کسی کے پاس کئی گھر ہیں۔ کسی کے پاس ایک مرلہ جگہ ہے تو کسی کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ ریاست غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے‘ امداد طلب نظروں سے انہیں دیکھ رہی ہے۔ کیا یہ غیرت مندوں کی نشانی ہے کہ ان کے لاکر بھرے ہوئے ہوں‘ وہ دنیا بھر کے بینکوں میں اربوں ڈالر چھپا کر عیش کر رہے ہوں اور ان کی مادرِ وطن چھینک مارنے کے لیے بھی آئی ایم ایف کی اجازت کی منتظر ہو؟ عمران خان نے 19 اکتوبر 2010ء کو با غبانپورہ لاہور میں پارٹی ورکروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دنیا بھر میں پھیلے ایک ایک پاکستانی کے پاس جا کر اسے مجبور کرنے کے لیے بھی تیار ہیں کہ وہ اپنے اکائونٹس میں موجود پیسے فوری طور پر پاکستان ٹرانسفر کر دے لیکن سب سے پہلے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرنا ہو گا کیونکہ 1997ء میں قرض اتارو‘ ملک سنوارو کے نام پر اور پھر 1998ء میں فارن کرنسی اکائونٹس منجمد ہونے کے سبب وہ ایسے زخم کھا چکے ہیں کہ ان کا اعتماد اس کے بعد کبھی بحال نہیں ہو پایا۔ عمران خان جب وزیراعظم بنے تھے تو اوورسیز پاکستانی ان کی توجہ کا خاص مرکز تھے۔ اوور سیز پاکستانیوں کے لیے ''روشن ڈیجیٹل اکائونٹس‘‘ کی ایسی سکیم متعارف کرائی گئی۔ اس کے علاوہ ملکی معیشت کو سنبھالا دیتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں نے ایک سال میں 31 بلین ڈالر کی ترسیلاتِ زر پاکستان بھیجیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد امید بندھی تھی کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دینے سے پہلے نوکر شاہی کے قانونی اور دفتری طریقہ کار کے نام پر لوٹ مار کے سبھی جاری سلسلے بند کرے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اگرچہ کچھ اقدامات کیے بھی گئے مگر وہ ناکافی تھے؛ تاہم اوورسیز پاکستانی ان پر ہی قناعت کر گئے اور انہوں نے روشن ڈیجیٹل اکائونٹس میں اربوں ڈالر جمع کرانا شروع کر دیے۔ بدقسمتی سے رجیم چینج کے بعد اس اعتماد میں واضح کمی آئی اور روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کا حجم بھی کم ہو گیا۔ کئی افراد نے موجودہ سیاسی بندوبست پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اپنے پیسے واپس لے لیے۔ آج بھی یہ اوور سیز پاکستان کیلئے سب سے زیادہ بے چین ہیں اور اپنے ملک کیلئے سب کچھ نچھاور کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی ایک ہی شرط ہے کہ پہلے اس ملک کے سرکاری افسران، ٹریڈرز، صنعتکار، ممبرانِ پارلیمنٹ، تمام سابقہ اور موجودہ حکمران‘ جن میں وزرا، وزرائے اعلیٰ، گورنرز، وزرائے اعظم اور صدر صاحبان شامل ہیں‘ بیرونی ممالک میں اپنے بینک اکائونٹس میں موجود تمام پیسے‘ اپنی جائیدادیں اور سبھی اثاثہ جات پاکستان لائیں۔ کیا وزیراعظم صاحب اور حکومتِ پاکستان آئی ایم ایف کی غلامی سے رہائی کے لیے اس نسخے پر عمل کرنے کو تیار ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved