وہ ایک بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشن کا اعلیٰ عہدیدار تھا۔ بڑا ایگزیکٹو!
کمپنی نے دو گاڑیاں‘ مع دو ڈرائیور‘ دی ہوئی تھیں۔ بہت بڑا گھر ملا ہوا تھا۔ آج کل گھر کی تفصیل بتاتے ہوئے صرف اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ تین بیڈ رومز کا گھر ہے یا چار بیڈ رومز کا۔ مگر گھر کی یہ تعریف یا وضاحت درست نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کمرے کتنے ہیں جہاں بیٹھا جا سکتا ہے؟ تین یا چار تو خواب گاہیں ہو گئیں! اس کے بعد ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے۔ ایک لاؤنج ہوتا ہے جہاں موجودہ زمانے کا جامِ جمشید یعنی ٹی وی رکھتے ہیں۔ پھر طعام گاہ ہوتی ہے یعنی ڈائننگ روم! بہت سے گھروں میں راہداری ہوتی ہے جس سے گزر کر گھر کے اندر جاتے ہیں۔ فرنگی زبان میں اسے Passage کہتے ہیں۔ یہ بھی ایک لحاظ سے کمرہ ہی ہوتا ہے۔ پرانی طرز کے گھروں میں ڈِیوڑھی ہوتی تھی جس سے گزر کر گھر کے اندرونی حصے میں جاتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تین یا چار بیڈ رومز نہیں‘ گھر میں کم از کم چھ یا سات کمرے ہوتے ہیں۔ آج کل پانچ یا آٹھ یا دس مرلے کے گھروں میں بھی اتنے ہی کمرے ہوتے ہیں‘ سائز ان کمروں کا بے شک چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ فرنگی طرزِ تعمیر کی نقالی کا اثر یہ ہوا کہ رقبہ گھر کا پانچ مرلے ہو تب بھی وہ کوٹھی ہی کہلاتا ہے۔ گھر کا مالک اکثر و بیشتر خود بھی کوٹھی کہہ کر مسرور ہوتا ہے۔
ہم اس شخص کی طرف پلٹتے ہیں جو ملٹی نیشنل ادارے میں بہت بڑا ایگزیکٹو تھا۔ ایک دن‘ شام ڈھلے‘ وہ کام سے واپس آیا تو بیوی نے کہا کہ بیٹا اکھڑا ہوا ہے۔ کہتا ہے کہ گھر میں جگہ ہی نہیں جہاں میں سکون سے بیٹھ کر پڑھوں اور امتحان کی تیاری کروں! بیوی کی بات سن کر وہ خاموش رہا۔ دوسرے دن اتوار تھا۔ ناشتے کے بعد اس نے بیٹے کو بلایا اور بتایا کہ دو پہر کے کھانے کے لیے وہ اسے ایک بہت اچھے ریستوران میں لے جائے گا۔ کھانا بھی کھائیں گے اور باپ بیٹا گپ شپ بھی لگائیں گے۔ دوپہر سے پہلے اس نے صاحبزادے کو جہازی سائز کی اُس گاڑی میں بٹھایا جو اسے کمپنی کی طرف سے ملی ہوئی تھی۔ اسے وہ شہر کے اس حصے میں لے کر گیا جہاں نچلے درجے کے ملازموں کے کوارٹر تھے۔ بیٹے نے پوچھا‘ یہاں کون سا ریستوران ہے؟ باپ مسکرایا اور صرف اتنا کہا کہ یہاں چھوٹا سا کام ہے۔ وہ نمٹا کر چلتے ہیں۔ گاڑی کھڑی کر کے‘ کچھ دیر چلنے کے بعد‘ وہ ایک گلی میں داخل ہوئے۔ گاڑی اس گلی میں نہیں آسکتی تھی۔ گلی کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے کوارٹر نما گھر تھے۔ وہ گھروں کے نمبر دیکھتا آگے بڑھتا گیا۔ ایک گھر کے سامنے آکر ٹھہر گیا۔ دروازے پر گھنٹی نہیں تھی۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک آدمی باہر نکلا۔ اس نے پہلے تو اس سے معذرت کی کہ اس کے آرام میں خلل انداز ہوا۔ اس کے بعد بتایا کہ فلاں کمپنی کا وہ سینئر ایگزیکٹو ہے۔ یہ گھر اس کے والد کو ملا ہوا تھا۔ تب وہ کالج میں پڑھتا تھا اور اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ اس گھر میں رہتا تھا۔ آج یہ گھر اپنے بیٹے کو اندر سے دکھا نا چاہتا ہے۔ گھر والے نے خندہ پیشانی سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے۔ وہ یوں بھی اس وقت گھر میں اکیلا تھا۔ اس کے بیوی بچے کہیں گئے ہوئے تھے۔
بیٹے کو لے کر وہ گھر میں داخل ہوا۔ گھر میں دو کمرے تھے۔ صرف دو۔ ایک باورچی خانہ تھا۔ ایک غسل خانہ تھا۔ ایک بیت الخلا تھا۔ گھر کی پچھلی طرف چھوٹا سا صحن تھا جس کے ایک کونے میں مالٹے کا درخت تھا۔ وہ ساتھ ساتھ بیٹے کو بتا رہا تھا کہ یہی دو کمرے تھے جو بیڈ روم تھے۔ یہی ڈرائنگ روم تھے۔ یہی ڈائننگ روم تھے۔ یہی لاؤنج تھے۔ یہی راہداری تھے۔ تمہاری پھپھو آتیں تو اپنے بچوں کے ساتھ وہ بھی یہیں رہتیں۔ یہیں میں پڑھتا‘ یہیں امتحان کی تیاری کرتا۔ یہیں میں نے بی اے کا امتحان دیا اور پورے ڈویژن کے چار ضلعوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہیں سے مجھے یورپ کی یونیورسٹی کے لیے سکالر شپ ملا۔ یورپ جانے کے لیے میں اسی ٹوٹل دوکمروں والے گھر سے ایئر پورٹ روانہ ہوا تھا۔ میں نے کبھی اپنے ابو یا امی کو نہیں کہا تھا کہ پڑھائی کے لیے جگہ نہیں ہے۔ یہ جو مالٹے کا درخت صحن میں لگا ہے‘ گرمیوں میں اس کے نیچے لوہے کی یا بان کی چارپائی بچھا کر مطالعہ کرتا۔ میرے پاس میز کرسی نہیں تھی نہ ہی ان دو کمروں میں میز کرسی کی جگہ تھی۔ آج جس گھر میں تم رہ رہے ہو اس میں آٹھ کمرے ہیں۔ باہر بہت بڑا لان ہے۔ ایک کمرہ ''سٹڈی‘‘ کے نام سے اس کے علاوہ ہے۔ بیٹے نے سب کچھ دیکھا۔ سب کچھ سنا۔ اس کے بعد اس موضوع پر کوئی بات باپ نے کی نہ بیٹے نے۔ کھانا باپ نے عمدہ کھلایا۔ بیٹے نے اس کے بعد کبھی جگہ تنگ ہونے کی یا نہ ہونے کی شکایت نہ کی۔
یہ سچا واقعہ کسی پرستان کی کہانی نہیں۔ ارد گرد دیکھیے۔ کئی مثالیں مل جائیں گی۔ لب لباب اس کہانی کا یہ ہے کہ جس بچے یا بچی میں سپارک ہو‘ چنگاری ہو‘ پڑھائی کا شوق ہو‘ محنت اس کے خمیر میں ہو‘ اسے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ مافوق الفطرت داستانیں نہیں۔ گلی کے کھمبے کی روشنی میں پڑھنے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اور آپ کے سامنے وہ بھی ہیں جو لندن میں رہ کر بھی‘ کھرب پتی ہو کر بھی‘ آکسفورڈ یا کیمبرج یا لندن سکول آف اکنامکس کا دروازہ تک نہ دیکھ سکے۔ یہ قلم کار راولپنڈی کے ایک بڑے پرائیویٹ سکول سسٹم میں کام کرنے والی ایک ''مائی‘‘ کو جانتا ہے۔ میاں چار بیٹیوں کو پیچھے چھوڑ کر جہاد کے لیے چلا گیا۔ واپس آیا نہ کوئی اس کی خبر ہی ملی۔ یہ سکول میں نائب قاصد لگ گئی۔ دھن ایک ہی تھی کہ بچیاں پڑھ جائیں۔ آج ایک بچی ڈاکٹر ہے۔ ایک پروفیسر ہے۔ ایک ہیڈ مسٹریس ہے اور ایک کیپٹن ہے۔ یہ قلم کار ایک اور شخص کو جانتا ہے۔ والد اس کا نائب قاصد تھا۔ ماں نے بھینس رکھی ہوئی تھی۔ دودھ بیچ کر بچوں کو پڑھایا۔ آج وہ پی ایچ ڈی ہے۔ بیج اچھا ہو تو زمین کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو‘ زمین کو پھاڑ کر‘ باہر نکلتا ہے اور درخت بن جاتا ہے۔ ٹیلنٹ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ اور جس میں چنگاری نہ ہو‘ اس کے باپ کی جاگیر‘ کارخانہ‘ منصب‘ دولت‘ کچھ بھی کام نہیں آتا۔
اس بات پر بھی غور کیجیے کہ دوران امتحان‘ نقل کرنے والا زیادہ لکھے گا یا وہ جو اپنے ذہن سے لکھ رہا ہے؟ دونوں کی رفتار کبھی برابر نہیں ہو سکتی۔ کسی کو بازو سے پکڑ کر آپ کتنا اوپر لے جائیں گے اور لے بھی گئے تو کب تک تھامے رکھیں گے۔ جیسے ہی آپ نے چھوڑا‘ دھڑام سے نیچے گر پڑے گا۔ شکر ادا کیجیے قسّامِ ازل کا جس نے ذہانت کا خزانہ اپنے پاس رکھا‘ تقسیم اس کی اپنے ہاتھ میں ر کھی اور محنت کی صلاحیت خود بانٹی۔ ورنہ میں اور آپ اپنے اپنے بچوں کی ذہانت کے لیے سرکاری یا نجی شعبے میں عرضی دیتے تو ہماری تو فائل ہی گم ہو جاتی۔ ایک معروف کالم نگار کے بقول قدرت نے اکثر طاقتوروں اور گردن بلندوں کے بچے ''بے عقلے اور بد شکلے‘‘ رکھے ہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved