زندگی چیستان ہے۔ سماج ایک حیرت کدہ۔
انسانی سماج کیا‘ کائنات ہی ایک عجائب خانہ ہے۔ انسانی عقل و خردکی پرواز جاری ہے لیکن اس کا عجز بھی ایک واقعہ ہے۔ ابنِ آدم کا ہر نیا قدم اعتراف ہے کہ تمنا کا دوسرا قدم‘ نہیں معلوم کہاں ہو۔ ایک دنیا سائنس دان کی ہے اور ایک شاعر کی۔ شاعر کا ذہنی کینوس وسیع تر ہے۔ ماورائے عقل معاملات‘ اس کو مضطرب کرتے ہیں تو ہنس دیتا ہے۔ اس کا تخیل پرواز کرتا اور یہ خبر لاتا ہے کہ خالق بھی اپنے اس کارنامے پر خندہ زن ہے۔
تخلیقِ کائنات کے دلچسپ جرم پر
ہنستا تو ہوگا آپ بھی یزداں کبھی کبھی
یہ عبدالحمید عدم کی شوخی ہے۔ جون ایلیا نے اس مضمون میں اپنی فسلفیانہ طبع کا رنگ بھر دیا ہے۔
حاصلِ کن ہے یہ جہانِ خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
اقبال کارنگ الگ ہے:
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرم سار ہو‘ مجھے کو بھی شرم سار کر
یہ سوال بھی اقبال ہی نے اٹھایا ہے: اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا؟ افتخار عارف بھی بے بسی کا اعلان کرتے اور اُس دن کے انتظار کا مشورہ دیتے ہیں جب حالات و واقعات کی یہ بساط ہی لپیٹ دی جائے گی:
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
یہ شاعروں کی باتیں ہیں۔ کالم نگار کی دنیا سیاست ہے۔ حالاتِ حاضرہ اور وہ بھی سیاسی۔ اسے تو کائنات کی نہیں‘ عالمِ سیاست کی عقدہ کشائی کرنی ہے۔ اس باب میں‘ اس کا معاملہ بھی مگر کائنات کی گتھیاں سلجھاتے شاعر سے مختلف نہیں۔ سیاست تخیل کی دنیا میں نہیں‘ حقائق کی زمین پر جنم لیتی اور واقعات میں ڈھلتی ہے۔ اس ملک کی سیاست کے احوال کیا ہیں؟ واقعات کا دھارا کس رخ پر بہہ رہا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ کیا ہمیں بھی تماشا ختم ہونے کا انتظار کرنا ہوگا؟ یہ تماشا مگر کب ختم ہوگا؟ ہوگا بھی یا نہیں؟
ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے روایتی تصور کا مصداق کہیں نہیں پایا جاتا۔ عمران خان کیا قائدِ حزبِ اختلاف ہیں؟ جس کی جماعت ملک کے دو بڑے صوبوں میں حکمران ہو۔ ملک کی کم و بیش بہتر فیصد آبادی پر اس کا اقتدار قائم ہو‘ وہ قائدِ حزبِ اختلاف کیسے ہو سکتا ہے؟ حزبِ اقتدارکون ہے؟ نون لیگ؟ بقول تحریکِ انصاف‘ جس کا اقتدار اٹھائیس کلومیٹر تک محدود ہو‘ وہ حزبِ اقتدار کیسے ہو سکتی ہے؟ کیا ایسا سیاسی نظام‘ کبھی آپ نے دیکھا جس میں یہ طے ہی نہ ہو سکے کہ اقتدار کس کا ہے اور اپوزیشن کون ہے؟
پاکستان کے شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ صحت‘ تعلیم اور سب سے بڑھ کر جان و مال کا تحفظ۔ یہ کس کی ذمہ داری ہیں؟ ظاہر ہے صوبائی حکومتوں کی۔ مطعون کون ہو رہا ہے؟ مرکزی حکومت۔ مہنگائی کئی اسباب کا جامع نتیجہ ہے۔ روپے کی قدر‘ جس کا تعین مرکزی حکومت کی پالیسیوں سے ہوتا ہے۔ چور بازاری‘ جس کو قابو میں لانا صوبائی حکومت کا کام ہے۔ ناجائز منافع خوری‘ جس کو روکنا صوبائی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ پٹرول‘ بجلی کی قیمت‘ جس کا فیصلہ مرکزی حکومت کرتی ہے۔ گویا مہنگائی کی ذمہ داری میں بھی سب شریک ہیں۔اس سارے نظام کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ واقعات کی گواہی یہ ہے کہ ایک ہی قوت کا ایک دستِ شفقت ایک کے سر پر ہے اور دوسرا دوسرے کے سر پر۔ جو بطلِ حریت سرگرم ہیں‘ ان کے لہجے کی یہ تمکنت بے وجہ نہیں۔ ان کا ماضی شہادت دیتا ہے کہ ان کی معلومات کا منبع کہاں تھا۔ وہ خود اس کا اعتراف کر چکے کہ وہ کس کے کہنے پر اہلِ سیاست کو کرپٹ کہتے تھے اور اس کے حق میں مواد کون فراہم کرتا تھا۔ اس مواد کو کسی نے انفرادی طور پر جانچنا ضروری نہیں سمجھا۔ جس نے جانچا‘ وہ اس کاحصہ بننے پر آمادہ نہ ہوا۔
ایک شتر گربگی اور بھی ہے۔ برادرِ اکبر نام لے کر کہتے ہیں کہ آپ کو حساب دینا ہوگا۔ برادرِ اصغر خدمات کی تحسین کا کو ئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب عوام کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ کس کی زبان کو ترجمانِ حق قرار دیں۔ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں؟ حساب مانگیں یا خدمات پر خراجِ تحسین پیش کریں؟ ووٹ کی عزت کا نعرہ بلند کریں یا ریاستی اداروں کے خدمات کا اعتراف کریں؟ دوسری طرف حال یہ ہے کہ اسمبلی کی رکنیت ملی تو استعفیٰ دے دیا۔ ضمنی الیکشن کا اعلان ہوا تو نو حلقوں سے کھڑے ہوگئے۔
ایک تیسرا زاویہ بھی ہے۔ کیا ہم صرف امریکہ کے غلام ہے؟ کچھ آفات صدیوں سے ہم پر مسلط ہیں۔ علامہ اقبال نے انہیں ایک مصرع میں جمع کر دیا: سلطانی‘ پیری اور ملائی۔ یہاں جاگیرداری نظام ہے۔ خانقاہی سلسلے ہیں۔ مذہب کے خود ساختہ نمائندے ہیں۔ ابنِ آدم ان اغلال اور بیڑیوں میں بندھا ہوا ہے۔ ان سے رہائی کی کسی کو فکر نہیں۔ خان صاحب امریکہ کی غلامی سے آزادی کی بات تو کرتے ہیں مگر ان مقامی خداؤں کا بھولے سے ذکر نہیں کرتے۔ یہ تو ان کے دست وبازو ہیں۔ ان کی پارٹی کا نائب چیئرمین ان تمام کا تنہا مآخذ ہے۔ تین غلامیاں قبول ہیں اور ایک غلامی کا انکار ہے۔ آزادی تو یہ ہے کہ ہر جھوٹے خدا سے اعلانِ برأت کیا جائے۔ یہاں مگر آزادی کا انوکھا تصور ہے۔
جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں‘ ابہام در ابہام کے سوا کچھ نہیں۔ اس ملک میں ایسی سیاست ہو رہی ہے جس کا سرہے نہ پاؤں۔ ہیجان میں کسی کو سوچنے کا وقت دیا جارہا ہے نہ موقع۔ جہاں ہیجان نہیں ہے‘ وہاں ابہام ہے۔ کوئی بیانیہ ہے نہ کوئی منزل۔ جو بیانیہ تھا‘ اس کا ذکر نہیں ہو رہا۔ صبح شام پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ دعویٰ‘ جوابِ دعویٰ۔ الزام‘ جوابِ الزام۔ کووڈ نے سیاسی سرگرمیوں کو روک دیا تھا۔ سیلاب لیکن اس میں کامیاب نہیں۔ ایک طرف پناہ گاہ آباد ہے‘ دوسری طرف جلسہ گاہ۔
یہ اس ملک میں پہلی بار ہوا ہے۔ سیاست کی تصویر کوئی بنانا چاہے بھی تو نہیں بنا سکتا۔ یہ ایسا اونٹ ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ آمریت‘ جمہوریت‘ پاپائیت‘ سب کے خدوخال ہمیں معلوم ہیں۔ سیاست کا طالب علم دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ یہ کیا ہے۔ موجودہ نظام کی کوئی شناخت نہیں۔ جہاں بقا کا سوال درپیش ہو‘ وہاں شناخت غیر اہم ہو جاتی ہے۔ بچہ پیدائش کے بعد زندگی اور موت کی کشمکش میں ہو تو ایمرجنسی کا رخ کیا جاتا ہے‘ بچے کا نام رکھنے کے لیے مشاورت نہیں ہوتی۔
ہمارا اس وقت یہی حال ہے۔ نظام کا سوال غیر اہم ہو گیا ہے۔ ایک دوڑ ہے جس میں سب شریک ہیں۔ عمران خان صاحب کو ہر بات کی وضاحت دینا پڑ رہی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب آدمی راستے کے بارے میں واضح ہو نہ منزل کے بارے میں۔ حکومت کا مسئلہ ایک ہے: کہیں سے ڈالر آجائیں اور معیشت ڈوبنے سے بچ جائے۔ کیسے آ جائیں‘ اس کا کوئی جواب نہیں‘ بس کہیں سے آ جائیں۔ آئی ایم ایف دے دے‘ امریکہ دے دے‘ قطر دے دے۔شاعروں کواس طلسمِ کدہ کائنات کی سمجھ نہیں آئی۔ اس کالم نگار کو اس نظامِ ریاست کی سمجھ نہیں آ رہی۔ عرضِ مدعا کے لیے کالم نگار بھی ایک شاعر کے الفاظ مستعار لینے پر مجبور ہے:
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved