چارہ سازی کی منزل مبارک انہیں
پر یہاں تک یہ جس راہ سے آئے ہیں
اس میں ہر گام پر
ان کے دل ان کے پیروں تلے آئے ہیں
نرم و حساس دل کے عوض چارہ سازی خریدی گئی
اور یہ قیمت بہت ہی بڑی ہے، بہت ہی بڑی
پروین شاکر کی مندرجہ بالا نظم جو مسیحاؤں اور ڈاکٹروں کے حوالے سے لکھی گئی تھی‘ عشروں پہلے پڑھی تھی لیکن یہ بات ان دنوں ذہن پر مرتسم ہوگئی تھی کہ مسیحاؤں کے نرم و نازک جذبے ان کے پیشے کی سنگینی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ یہ کانچ اور فولاد کو ایک ہی تھیلے میں مسلسل سنبھالے پھرتے رہنے کا کام ہے اور جب یہ سفر سالہا سال جاری رہے تو جو چیز کرچی کرچی ہوتی ہے وہ کانچ ہے۔ ویسے تو ہر شعبے میں اس بلور کو مسلسل سنبھالے رکھنا بہت مشکل کام ہے لیکن زیادہ کٹھن شعبوں میں طبیب اور ڈاکٹرز خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن اس یقین میں دراڑ اس وقت پڑنے لگی جب میں نے روایتی اطبا کی شاعری پڑھی اور ان کے بے مثال شعری ذوق کا اندازہ ہوا۔ حکیم اجمل خان‘ حکیم نیر واسطی سمیت بہت سے بڑے نام بہت عمدہ شاعر تھے۔ ہمارے دوست جناب حکیم زاہد اشرف اور حکیم حامد اشرف کے شعری اور ادبی ذوق کے ہم سب گواہ ہیں۔ میں نے اپنے لڑکپن میں حکیم نبی احمد خان جمال سویدا کو دیکھا اور سنا جن کا اعلیٰ مجموعہ کلام ''نقشِ سویدا‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ سویدا صاحب حکیم اجمل خان کے خاندان سے تھے۔ ان کے دو شعر یاد آگئے :
کوئی منزل نہ کوئی جادہ ہے
اب مسافر کا کیا ارادہ ہے
کم سہی التفات دوست مگر
میری امید سے زیادہ ہے
لیکن جیسے جیسے شعر و ادب سے وابستگی بڑھتی گئی‘ جدید میڈیکل سائنس سے وابستہ نامور ترین ڈاکٹرز سے بھی تعارف ہوتا گیا جو نہ صرف اپنے شعبوں کے نامور ترین ناموں میں سے تھے بلکہ شعر و ادب کی دنیا میں بھی انہوں نے اپنی دھاک بٹھائی تھی۔ مجھے بتدریج احساس ہوتا گیا کہ ڈاکٹرز میں بھی جن لوگوں کے اندر شعر گوئی کا یہ الاؤ اور تنور مسلسل بھڑکتا رہتا ہے‘ انہیں بیرونی مصروفیات اس سے غافل نہیں کر پاتیں۔ اور یہی اصیل حرف کار کی نشانی ہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ انہی نوجوان ڈاکٹرز میں سے کئی دوست مجھ طالب علم سے فن شاعری کے بارے میں کچھ باتیں پوچھنے اور سیکھنے کے لیے رابطہ کرنے لگے اور مجھے مزید اندازہ ہوتا گیا کہ جن ذہین شاعروں اور شاعرات کو یہ تحفہ قدرت نے دے کر بھیجا ہے‘ وہ ہر صورت میں نمود کرکے رہتا ہے خواہ اس بیج کو سیرابی بہت کم میسر آئے۔
بہت پہلے ایک بار علامہ اقبال میڈیکل کالج کے کسی مشاعرے اور انٹر کالجیٹ شعری مقابلے میں بطور منصف بھی میری شرکت ہوئی۔ اس تقریب کی خاص باتوں میں ایک ڈاکٹر محمود ناصر ملک صاحب سے ملاقات تھی جو پروفیسر آف میڈیسن بھی تھے اور تقریب کے انچارج بھی۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب نہ صرف خود بہت عمدہ شاعر ہیں بلکہ وہ معاصر شاعری پر اچھی اور گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ یہ سرسری ملاقات بعد کی ملاقاتوں اور رابطوں کا پیش خیمہ تھی اور میری خوش قسمتی کہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بعد میں بھی یاد رکھا۔ ملاقات ہو یا نہ ہو‘ غیر مرئی رابطہ بدستور رہا جو سب سے اہم ہوا کرتا ہے۔
اس وقت میرے ہاتھ میں ان کا شعری مجموعہ ''بادل جھکتے پانی پر‘‘ ہے۔ یہ محمود ناصر ملک صاحب کا پہلا شعری مجموعہ نہیں ہے۔ بہت سے شاعر پہلے شعری مجموعے کے بعد مطمئن ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور تمام عمر ان کا دوسرا مجموعہ نہیں آپاتا‘ اس لیے کہ ان کا صاحبِ کتاب ہونے کا شوق پورا ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر محمود ناصر صاحب کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ یہ مجموعہ بتاتا ہے کہ شاعر اپنی شعری وابستگی‘ لگن اور ریاضت میں کتنی راہیں طے کر چکا ہے۔ منیر نیازی‘ شکیل عادل زادہ اور نذیر قیصر کی آرا اس کتاب کی زینت ہیں اور ان مشاہیر کی آرا خود بہت اہم گواہی ہیں۔
حمد ہو یا غزل‘ ناصر کی شاعری میں وہ سکون اور اضطراب بیک وقت لَو دیتے ہیں جن کا ایک وجود میں ہونا خود کسی خوب صورت شعر سے کم نہیں؛
مرے آنگن میں خوشبو کی کمی ہے
مرے مولا! اسے پھولوں سے بھر دے
تری پہچان جب مجھ کو ملی تھی
وہی لمحہ مجھے بارِ دگر دے
مرے دل میں مکیں ہو لامکانی
خبر دے مجھ کو خود اپنی خبر دے
٭......٭......٭
محمود ناصر ملک کی شاعری پڑھتے ہوئے جو ایک بات بہت نمایاں نظر آتی ہے وہ ان کی شعری لطافت اور شعری جمالیات ہے۔ مجموعے کا نام بادل جھکتے پانی پر خود اس کی دلیل ہے۔ مصورانہ خطاطی اور رنگوں سے ان کی وابستگی نے ان کے جمالیاتی ذوق کو جلا بخشی ہے۔
حمد ہو یا غزل اس کے مظاہر جابجا نظر آتے ہیں؛
ہزاروں آئنوں میں بٹ گیا ہے
جہاں سورج گرا چپ پانیوں میں
٭......٭......٭
بڑی مدت سے کوزہ گر نے اس جانب نہیں جھانکا
کہ اب چاکِ زماں پر کس جہاں کی خاک اڑتی ہے
٭......٭......٭
کرتے ہیں سرگوشی کیا
بادل جھکتے پانی پر
دریا لکھتا جاتا ہے
جو بھی بیتے پانی پر
٭......٭......٭
ایک خوشبو سے میں تم کو جانتا
تم مجھے کس حرف سے پہچانتے
میری مٹی گہری چپ سے جاگتی
گر ترے موسم مجھے پہچانتے
٭......٭......٭
کان میں اک سرگوشی سی
کن من ہوتی بارش میں
کونجیں اڑتی جاتی ہیں
ہنستی گاتی بارش میں
ہر سو بارش کی آواز
کتنی چپ تھی بارش میں
٭......٭......٭
انسانی وجود کی کائنات میں خلاق اعظم نے عجیب نظام‘ عجیب اسرار‘ عجیب بھید بھاؤ رکھے ہیں۔ ڈاکٹر محمود ناصر ملک! کون آپ سے بہتر انسان کے اندر ان کرشموں کو جانتا ہوگا۔ ایک کائنات شاعری کی بھی ہے۔ اس کے نظام‘ اس کے اسرار‘ اس کے بھید بھاؤ بھی مبہوت کن ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان دونوں کائناتوں سے بیک وقت جڑے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب! آپ کو بھی دونوں حیرت کدوں کا محرمِ اسرار ہونا مبارک ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved