تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     08-09-2022

سوال جنم لیتے ہیں

جس وقت پورے ملک کی سیاسی اشرافیہ پنجاب میں حکومت بنانے کے عمل میں مصروف تھی اس وقت مون سون کے بادل بھی برسنے کو تیار تھے لیکن کسی نے ضروری نہیں سمجھا کہ بھل صفائی کرانی ہے، نہروں کی طرف توجہ دینی ہے۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ بیراج، نہریں اور چھوٹے ڈیم حکومتی توجہ کے منتظر تو نہیں۔ واٹر مینجمنٹ کیسے کرنی ہے کہ بارشوں سے اربن فلڈنگ نہ ہوجائے۔ کیا ندی نالے صاف ہیں‘ کیا نکاسیٔ آب کا نظام قابلِ کارہے۔ ان بنیادی مسائل پر کسی کی بھی توجہ نہیں تھی۔ سب کی توجہ اُس وقت اس ایشو پر تھی کہ جس طرح شہباز شریف عمران خان کی جگہ وزیراعظم بن گئے ہیں‘ اسی طرح ان کے صاحبزادے بھی پنجاب کے حکمران بن جائیں۔ کچھ دن کیلئے وہ بنے بھی لیکن پھر عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا اور پی ٹی آئی دوبارہ پاور میں آگئی۔ اس 'سیاسی گیم آف تھرون‘ میں انتظامی امور بری طرح مثاثر ہوئے اور کسی نے دھیان نہیں دیا کہ کتنا بڑا خطرہ ملک پر منڈلا رہا ہے۔ محکمہ موسمیات اور متعلقہ اداروں نے بروقت انتباہ بھی جاری کیا مگر کسی نے کان نہیں دھرے۔ بارشیں ہوتی رہیں اور بالآخر سیلاب کی صورت اختیار کر گئیں۔ جولائی میں بلوچستان سیلابی پانی میں ڈوبنا شروع ہوا اور حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ آخرکار جولائی کے اواخر میں حکومت کو کچھ ہوش آنا شروع ہوا اور کام کا آغاز کیا گیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
اگر ہم اپنے ملک کے دریائی نظام کا جائزہ لیں تو دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم بنا ہوا ہے‘ اس میں دریائے کابل کا پانی بھی شامل ہوتا ہے اور یہ کالا باغ سے ہوتا ہوا چشمہ بیراج‘ تونسہ بیراج سے کوٹ مٹھن میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ گدو سکھر اور کوٹری بیراج سے ہوتا ہوا بحیرہ عرب میں گر جاتا ہے۔ اب اگر ہم دریائے جہلم کا جائزہ لیں تو اس پر منگلا ڈیم تعمیر ہوا ہے۔ یہ رسول ہیڈ ورکس سے تریموں پہنچتا ہے اور اس کے بعد کوٹ مٹھن میں یہ دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے چناب مرالہ ہیڈ ورکس سے ہوتا ہوا خانکی قادر آباد سے تریموں میں داخل ہوتا ہے اور یہیں پر یہ دریائے جہلم میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد یہ پنجند سے کوٹ مٹھن آتا ہے اور یہاں پر یہ بھی دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے راوی جسار سے بلوکی اور اس کے بعد سندھائی کے مقام پر اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔ دریائے ستلج بکر سلیمانکی اور اسلام بیراج سے بہتا ہوا کوٹ مٹھن میں دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اب اگر ہم سیلاب کی بات کریں تو ہمارے یہاں 2.5لاکھ کیوسک سے 3.75لاکھ کیوسک تک نچلے درجے کا سیلاب ہوتا ہے۔ پانچ لاکھ سے 6.5 لاکھ کیوسک تک اونچے درجے کا سیلاب‘ 6.5لاکھ کیوسک سے آٹھ لاکھ کیوسک تک بہت اونچے درجے کا سیلاب اور آٹھ لاکھ کیوسک سے زائد کا ریلا انتہائی اونچے درجے کا سیلاب کہلاتا ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی کئی بڑے سیلاب آچکے ہیں جن میں 1956ء، 1976ء، 1986ء، 1992ء اور 2010ء کے سیلاب بہت تباہی لائے تھے؛ تاہم اس سال جو سیلاب آیا ہے‘ وہ انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ کالا باغ کے پاس سے آٹھ لاکھ کیوسک کا ریلا گزرا‘ اس لیے تباہی بہت زیادہ ہوئی۔ کالاباغ ڈیم اگر بنا ہوتا تو یہ پانی اتنی تباہی نہ پھیلاتا اور بیشتر پانی ہم ذخیرہ کرلیتے۔ کالاباغ ڈیم کو ہمارے ہاں ایک شجرِ ممنوعہ بنا دیا گیا ہے جس پر بات ہی نہیں کی جاتی۔ پاکستان دشمن اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر اس جگہ پر ڈیم بن گیا تو یہ پاکستان کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ اپنوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی اور انہوں نے اس ڈیم کی مخالفت شروع کردی کہ اگر یہ ڈیم بنا تو نوشہرہ‘ چارسدہ اور دیگر علاقے ڈوب جائیں گے۔ اس بار یہ تمام علاقے سیلاب نے ڈبو دیے کیونکہ ڈیم تو بنا نہیں تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی زبانوں میں کالا باغ ڈیم کے حوالے سے متعلقہ علاقوں میں آگاہی دی جائے کہ یہ ڈیم کتنا فائدہ مند ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں ٹی وی پر ایک اشتہار چلتا تھا جس میں یہ بتایا جاتا تھا کہ کالا باغ ڈیم بننے سے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کا کوئی شہر زیرِ آب نہیں آئے گا۔ یہ اشتہاری مہم چلتی رہی لیکن کالا باغ ڈیم نہیں بن سکا اور صوبائی عصبیت جیت گئی۔ ہر ملک کی بقا کیلئے ڈیم ضروری ہیں‘ بالکل ایسے ہی جیسے انسانی زندگی کی بقا کیلئے پانی ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگلی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ ہم پانی کی دولت سے مالا مال ہیں مگر اسے ذخیرہ نہیں کر پا رہے۔ کبھی تو ہم پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں اور ملک میں قحط کی سی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور کبھی اتنا پانی ہوتا ہے کہ ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں بچتی اور یہ پانی سیلاب کی صورت میں تباہی مچا دیتا ہے۔ پاکستان اس وقت دستیاب پانی کا محض دس فیصد سٹور کر پاتا ہے۔ ہمارا فریش واٹر کا ٹوٹل سالانہ فلو 145 ملین ایکڑ فٹ ہے اور ہم صرف 13 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر پاتے ہیں۔ یہ شرح نہایت کم ہے۔ میٹھا اور صاف پانی ضائع ہوکر سمندر برد ہورہا ہے۔ دوسری طرف تمام بڑے شہروں میں پانی کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ خاص طور پر کراچی‘ جو ملک کا معاشی حب ہے‘ صاف پانی کو ترس رہا اور ٹینکر مافیا کی بلیک میلنگ کا شکار ہو رہا ہے۔ میدانی علاقوں میں بھی اب زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے چلی گئی ہے۔ اگر ہم کالا باغ کے مقام اور دریائوں کا جائزہ لیں تو اس جگہ سے کچھ دور دریائے سندھ میں دریائے کابل‘ دریائے سوات‘ دریائے جندی اور تربیلا ڈیم کا خارج کردہ پانی شامل ہوتا ہے۔ حالیہ عرصے میں اُسی جگہ پر سیلاب کی صورتحال پیدا ہوئی جہاں کالا باغ ڈیم تعمیر ہونا تھا۔ اگر یہ ڈیم تعمیر ہوا ہوتا تو پانی کے بہائو کی شدت کو کم کیا جا سکتا تھا مگر ڈیم نہ ہونے سے ایسا نہیں ہو سکا۔
اگر سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی پاکستان کی تازہ تصاویر دیکھی جائیں تو سو کلو میٹر تک سیلاب واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں سیلاب سے جانی اور مالی نقصان ہوا‘ وہاں لائیو سٹاک اور کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوگئیں۔ اب آنے والے مہینوں میں پاکستان کو غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلے ہی ہم معاشی بحران کا شکار ہیں‘ اب مزید غربت پھیل جائے گی۔ اس کے ساتھ بیماریاں بھی پھیلیں گی اور عوام مزید بدحال ہوجائیں گے۔ یہاں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ ریاستی سطح پر طوفانی بارشوں سے نمٹنے کیلئے تیاری کیوں نہیں کی گئی؟ اب تو محکمۂ موسمیات سب کچھ بہت پہلے بتا دیتا ہے‘ اس کے باوجود لوگوں کو دریائوں کے کناروں اور نشیبی علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیوں نہیں کیا گیا؟ وہ سب اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں جو اپنے فرائض کو چھوڑ کر پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ سوال یہ بھی ہے کہ باقی صوبے کیا کر رہے تھے؟لوگ سوال کررہے ہیں کہ جو ممالک بڑے بڑے ڈیم بنارہے‘ وہاں تو سیلاب نہیں آتے اور ہم ہر پانچ‘ دس سال بعد سیلاب میں ڈوب جاتے ہیں۔ کبھی ہم زلزلے میں تباہ ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں سیلاب اور زلزلے آتے ہیں مگر دیگر ممالک نے تعمیرات ایسی کرلی ہیں کہ وہ آفات کی صورت میں کم نقصان اٹھاتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ہر ایشو پر سیاست ہوتی ہے‘ ایسے میں انتظامی امور کون دیکھے گا؟ نہ ہمارے پاس مؤثر ریسکیو سروس ہے نہ ہیلی کاپٹرز ہیں۔ اس وقت سو سے زائد شہر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جہاں پانی ٹھہر گیا ہے‘ وہاں وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ لوگ جلد اور پیٹ کی بیماریوں کا بھی شکار ہورہے ہیں۔ اس قدر تباہی کے بعد بحالی میں کئی سال لگ جائیں گے لیکن یہ بحالی ہو گی کیسے‘ ملکی خزانہ تو خالی ہے۔ کون ان بے گھر افراد کی مدد کرے گا۔ ایک ایٹمی ریاست دنیا بھر سے امداد کی اپیل کر رہی ہے‘ کتنے افسوس کا مقام ہے۔ مون سون کی ابتدا میں ہی پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیوں نہیں لوگوں کو آگاہ کیا گیا کہ سیلاب آنے کو ہے؟ سوال تو بہت سے جنم لے رہے ہیں لیکن ذمہ داری لینے اور جواب دینے کو کوئی تیار نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved