ملکوں کی پہچان اداروں سے ہوتی ہے۔ مضبوط ادارے ملک و قوم کی عزت اور وقار میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ پاک فوج ایک منظم اور مضبوط ادارہ ہے اور دنیا بھر میں اپنی پروفیشنل اپروچ اور بہادری کے باعث ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کی جانب سے سیاسی جلسوں میں پاک فوج سے متعلق نا مناسب الفاظ کا استعمال تشویش ناک ہے۔ جس تواتر سے ملکی اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے نہ صرف اداروں کے وقار پر فرق پڑ سکتا ہے بلکہ ملکی سلامتی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہونے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور مسلم دنیا میں یہ اعزاز صرف پاکستان کے پاس ہے۔ پاک فوج نے ہر مرحلے پر یہ ثابت کیا ہے کہ ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ بھارت پاکستان مخالف کمپین اور لابنگ کے باوجود دنیا کو اس بات پر قائل نہیں کر سکا کہ پاکستان کے دفاعی ادارے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کی اہلیت نہیں رکھتے اور یہ ہمارے دفاعی اداروں کی قابلیت اور صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اداروں کے مخالف پروپیگنڈے کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔
ملک میں کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ عوام میں مقبولیت حاصل کر لینا اس بات کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا کہ بغیر کسی ثبوت کے اداروں اور اہم شخصیات پر الزامات لگائے جائیں۔ اگر ایسی کوشش کی جائے تو قانون کو حرکت میں آنا چاہیے۔ تحریک انصاف کو شاید یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ چند سال قبل تک پاکستان شدید دہشت گردی کا شکار تھا۔ ملک کا کوئی شہر دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ نہیں تھا۔ پاک فوج ہی نے آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔ ان آپریشنز میں فوج کے ہزاروں جوانوں اور سینئر افسران نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ سیاستدانوں کی جانب سے غیر ضروری اور ہتک آمیز بیانات شہدا کے خاندانوں کے لیے بھی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور صدرِ پاکستان کی جانب سے چیئرمین تحریک انصاف کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے کئی دیگر رہنما بھی خان صاحب کے بیان کا دفاع کرنے کو تیار نہیں دکھائی دیتے جو خوش آئند امر ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ خان صاحب اس موضوع پر اپنی پارٹی میں مشاورت نہیں کر رہے اور متنازع بیانات کے حوالے سے انہوں نے سولو فلائٹ لی ہے۔ وہ اب یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں جو اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ پہلے بھی اس طرح کے بیانات دیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والی قانون شکنی دوبارہ قانون کو توڑنے کا جواز کیسے ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ جنہوں نے ماضی میں متنازع بیانات دیے تھے ان کے خلاف قانون حرکت میں آیا تھا اور انہیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا تھا۔ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ جب تک تحریک انصاف کے سربراہ کا احتساب نہیں ہو گا تب تک اداروں کی تضحیک کا سلسلہ نہیں رکے گا۔
اس کے علاوہ اس پہلو پر بھی بات کیے جانے کی ضرورت ہے کہ خواتین اور نوجوانوں کی اکثریت کس بنیاد پر پی ٹی آئی کے جلسوں میں شرکت کر رہی ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جس احتساب کے نام پر اُس وقت کی اپوزیشن قیادت کو جیلوں میں ڈالا گیا تھا‘ اس سے ایک روپے کی بھی ریکوری نہیں کی جا سکی تھی۔ اقتدار میں آنے سے پہلے جو وعدے عوام سے کیے گئے تھے‘ ان میں سے شاید کسی ایک پر بھی مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ الیکشن سے پہلے سو لوگوں کی معاشی ٹیم ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور الیکشن کے بعد خان صاحب نے خود اعتراف کیاتھا کہ ان کے پاس اچھی معاشی ٹیم نہیں ہے۔ ایک طرف خان صاحب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب تک ملک کا طاقتور ترین طبقہ خود کو قانون کے تابع نہیں کرے گا‘ ملک ترقی نہیں کر سکتا اور دوسری طرف جب ایف آئی اے تفتیش کے لیے طلب انہیں کرتی ہے تو خان صاحب وہاں پیش ہونا مناسب نہیں سمجھتے۔ ایک طرف وہ عدلیہ کی عزت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف ججوں کے لیے دھمکی آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ پاک فوج کو اپنی فوج کہتے ہیں اور اداروں کے حوالے سے متنازع بیانات بھی دیتے ہیں۔ ان حالات اور حقائق کے پیشِ نظر اگر یہ کہا جائے کہ عمران خان کے قول اور فعل میں تضاد نظر آتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ تحریک انصاف کے سپورٹرز کو اس زاویے سے بھی سوچنا چاہیے اور لیڈر شپ سے سوال کرنا چاہیے تا کہ لیڈر شپ محض جذباتی نعروں میں عوام کو الجھانے کے بجائے عملی میدان میں بھی مثبت اقدامات کرے۔ لیڈر کی اندھی تقلید معاشروں کے لیے درست سمت کا تعین نہیں کر سکتی۔
ملکی اداروں کے حوالے سے بیان بازی کے بجائے خان صاحب اگر ملکی معاشی صورتحال پر بات کریں تو عام آدمی کے مسائل حل ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سیلاب سے تقریباً 12 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے لیکن وفاقی حکومت سیلاب زدہ علاقوں کی امداد پر توجہ دینے کے بجائے نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کر رہی ہے۔ خبر ہے کہ اڑتالیس نئی سکیموں پر ساڑھے تئیس ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ مبینہ طور پر وفاقی حکومت اتحادیوں کے دبائو میں ہے۔ آئندہ عام انتخابات کے پیشِ نظر اتحادی جماعتیں ترقیاتی کام کروا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اس سے قبل وزارتِ خزانہ نے اعلان کیا تھا کہ ڈویلپمنٹ فنڈز کو سیلاب زدہ علاقوں کی بحال پر خرچ کیا جائے گا لیکن عملی اقدامات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف حکومت عالمی اداروں اور بیرونی ممالک سے سیلاب زدگان کے لیے امداد کا مطالبہ کر رہی ہے اور دوسری طرف سیاسی فوائدسمیٹنے کے لیے اربوں روپے جاری کر رہی ہے جس سے سیلاب متاثرین کے لیے بین الاقومی امداد ملنے میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ حکومت کو اس بارے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور بطور اپوزیشن رہنما عمران خان کو یہ مدعا عوام کے سامنے رکھنا چاہیے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق‘ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باعث جولائی کے مہینے میں ملکی قرضوں میں تقریباً دو ارب اکہتر کروڑ روپے اضافہ ہو گیا ہے جس سے قرضوں کا حجم تقریباً 51 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ خان صاحب عوام کو ان معاملات سے بھی آگاہ کریں اور حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کریں۔ معاشی مسائل کے حل پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان حالات میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ روس سینٹرل ایشیا سے یورپ جانے کے لیے ازبکستان اور پشاور تک سڑک کی تعمیر میں دلچسپی دکھا رہا ہے۔ اس منصوبے کو چین کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور راستہ چین، کرغزستان، ترکمانستان، ایران اور ترکی کے راستے یورپ جائے گا لیکن پشاور والے راستے پر زیادہ تیزی سے کام ہونے کی توقعات ہیں۔ چینی صدر اس حوالے سے سینٹرل ایشین ممالک کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ گو کہ اس رستے پر سکیورٹی خدشات ہیں لیکن پاک فوج نے سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تجارت کے لیے نئے راستے کھلنے سے پاکستانی معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی زرعی اجناس اور ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ملک کے جغرافیائی محل وقوع سے صحیح معنوں میں فائدہ صرف اسی وقت اٹھایا جا سکتا ہے جب ملک میں امن و امان ہو، سیاسی صورتحال کشیدہ نہ ہو اور سرحدوں پر سکیورٹی کے معاملات درست ہوں۔ ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب سیاستدان اداروں کو متنازع بنانے کے بجائے ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved