تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     09-09-2022

گیلانی‘ نواز شریف سے عمران خان تک

وہی ہوا جس کی کم از کم عمران خان اور ان کے حامیوں کو توقع نہیں تھی۔
ایک اور سابق وزیراعظم اس وقت عدالت کے رحم و کرم پر ہے۔ بظاہر ایک اور وزیراعظم کو توہین عدالت کیس میں سزا ہو سکتی ہے جیسے کبھی یوسف رضا گیلانی کو ہوئی تھی۔ عدالت نے دو سماعتوں کے بعد عمران خان پر فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ انہوں نے عدالت سے اپنے اُن ریمارکس پر معافی مانگنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے اُن کے خلاف کارروائی ہو رہی تھی۔ عمران خان کا سیاسی مستقبل یقینا خطرے میں ہے۔ شاید انہیں معاملے کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ شایدوہ سمجھ رہے تھے کہ جیسے ماضی میں ایک دفعہ سپریم کورٹ نے انہیں توہینِ عدالت کے کیس میں وارننگ دے کر چھوڑ دیا تھا‘ اب بھی ویسا ہی ہوگا۔
پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر دور میں سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایکٹ کرتے رہے ہیں۔ یہی سیاستدان ایک دوسرے کو سزائیں دلوا کر نااہل کراتے رہے ہیں۔ پہلے یہ کام نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان بڑا عرصہ چلتا رہا۔ بینظیر بھٹو کے بعد یہ کام آصف زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور عمران خان کے درمیان چل پڑا۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں نواز شریف کے وزیر بھی شریک تھے لیکن پھر سب نے دیکھا کہ یہی نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سامنے پیش ہو کر میمو گیٹ سکینڈل پر کمیشن بنوا کر لوٹے۔ عمران خان نے بھی گیلانی صاحب کے خلاف ایک پٹیشن فائل کی جس میں گیلانی صاحب کو سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے توہین عدالت پر سزا دی تھی لیکن انہیں وزیراعظم کے عہدے سے نہیں ہٹایا۔ گیلانی صاحب کچھ عرصہ وزیراعظم رہے لیکن پھر عمران خان نے ایک اور پٹیشن فائل کی کہ اب چونکہ عدالت گیلانی صاحب کو سزا دے چکی ہے تو انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا جائے۔ اس پر افتخار چوہدری صاحب نے اس پٹیشن پر وزیراعظم گیلانی کو فارغ کر دیا۔عمران خان نے اس برطرفی پر بڑا کریڈٹ لیا تھا۔ اعتزاز احسن اس عملداری بینچ کے سامنے گیلانی صاحب کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے تھے لیکن وہ وزیراعظم کو نہ بچا سکے۔ وقت کچھ آگے بڑھا اور پاناما سکینڈل سامنے آیا تو عمران خان سپریم کورٹ میں پٹیشن لے کر گئے کہ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن سکینڈل پر کارروائی کی جائے۔ اس پٹیشن پر نواز شریف برطرف بھی ہوئے اور جیل بھی گئے۔ یوں عمران خان کے کریڈٹ پر مزید سیاسی کامیابیاں آ گئیں۔
خان صاحب اپنے تئیں ملک میں قانون کی بالادستی کے لیے کام کر رہے تھے۔ وہ اس ملک کی آخری امید تھے جو سب کے خلاف اکیلے لڑ رہے تھے۔ اس طرح عمران خان کو اُس وقت بھی بڑی شہرت ملی اور سیاسی فائدہ ہوا جب ان کے خلاف حنیف عباسی کے مقدمے میں انہیں صادق اور امین قرار دیا گیا۔ عمران خان کو اگرچہ عدالتوں سے بڑا ریلیف ملا جبکہ دوسری طرف ان کے مخالفین کو رگڑا لگتا رہا جس پر وہ سیاسی جماعتیں تنقید بھی کرتی رہیں۔ جب عمران خان وزیراعظم بنے تو وہ عدالتوں سے شریف خاندان کو ملنے والے ریلیف سے خوش نہیں تھے اور اس کا اظہار وہ بار بار اپنی تقاریر میں بھی کرتے رہے تھے بلکہ کئی مواقع پر تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کہیں کوئی عدالت عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس نہ بھیج دے لیکن عمران خان ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ جو بھی بات کرتے ہیں وہ حق اور سچ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت خوش قسمت رہے اور ان کے سب کام سیدھے ہوتے چلے گئے لیکن میرا خیال ہے انسان کو اپنی قسمت پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ کسی وقت بھی دھوکادے سکتی ہے۔ ایک وقت تھا قسمت بھٹو کا ساتھ دے رہی تھی۔ وہ ملک کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی بن گئے۔ اپنے ابتدائی تین چار برسوں تک وہ طاقتور ترین انسان تھے لیکن پھر قسمت ساتھ چھوڑ گئی اور بھٹو پھانسی جا لگے۔ یہی قسمت کا کھیل ہم نے نواز شریف کے کیس میں دیکھا۔ ان کی خوش قسمتی دیکھیں کہ پہلے وہ وزیراعلیٰ پنجاب رہے اور پھر تین دفعہ وزیراعظم رہے لیکن پھر وہی ہوا کہ ایک دن قسمت ان کا ساتھ بھی چھوڑ گئی اور وہ نہ صرف وزیراعظم کے عہدے سے برطرف ہوئے بلکہ جیل بھی گئے۔ چار پانچ سال ہونے والے ہیں وہ ابھی تک اس کیس سے بری نہیں ہو سکے اور اب لندن میں مفرور زندگی گزار رہے ہیں۔
عمران خان کے اردگرد موجود خوشامدی ہجوم نے انہیں احساس دلا دیا ہے کہ وہ بہت غیرمعمولی انسان ہیں اور کوئی عظیم کام کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ غلط بات کہتے ہیں نہ غلط کام کرتے ہیں‘ لہٰذا وہ جو بھی کہتے یا کرتے رہیں ان سے کوئی جواب طلبی نہیں ہو سکتی۔ اس خوشامد کی وجہ سے وہ بہت سے لوگوں اور اداروں سے سینگ پھنسا بیٹھے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اب توہین عدالت کا معاملہ عدالت میں ایک معافی مانگ کر ختم کیا جا سکتا تھا لیکن جب آپ ایک ایسی سٹیج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ کی اپنی ذات سے محبت اس سطح پر پہنچ جاتی ہے جہاں ایک لفظ ''معذرت‘‘ یا ''معافی‘‘ آپ کے لیے اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ آپ اس پل کو عبور نہیں کر پاتے۔ آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ نے معافی مانگ لی تو آپ کی ذات کو بڑا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ آپ کے لاکھوں فین اور چاہنے والے کیا سمجھیں گے کہ آپ ڈر گئے؟
جب آپ کو بار بار یہ بتایا جائے کہ آپ پاکستان کے سب سے پاپولر لیڈر ہیں اور آپ کو کوئی ہاتھ لگانے کی جرأت نہیں کر سکتا تو آپ کی شخصیت میں وہ تبدیلیاں آتی ہیں جو آپ کے زوال کا سبب بنتی ہیں۔ تو کیا قسمت اب عمران خان کا بھی ساتھ چھوڑ رہی ہے جسے وہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں جیسے بھٹو اور نواز شریف کا ساتھ چھوڑ گئی تھی؟ یا عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ اس ملک میں بہت مقبول ہیں‘ لہٰذا کوئی بھی عدالت یا جج انہیں سزا دیتے وقت بہت کچھ سوچے گا؟ دراصل ہر طاقتور اور مقبول انسان ایک ایسے اعتماد کا شکار ہو جاتا ہے جس کا اسے بعد میں بڑا نقصان ہوتا ہے۔ بات وہی ہے کہ بڑا آدمی یہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔ یہی اعتماد اس کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب امریکہ میں بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کا سکینڈل سامنے آیا تھا تو اس پر انگریزی کے جریدے ٹائمز نے ایک خصوصی رپورٹ تیار کی تھی کہ آخر بڑے لوگ سکینڈلز میں کیسے پھنس جاتے ہیں؟ یہ بڑے لوگ تو بڑے سمجھدار ہوتے ہیں پھر ان سے کیا ایسی غلطی یا غفلت ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ مصیبت میں پھنس جاتے ہیں اور زوال پذیر ہو جاتے ہیں؟اس رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر بڑا آدمی احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جس طرح ماضی میں وہ غلط صحیح کرتا رہا اور سب نتائج اس کے حق میں نکلے‘ لہٰذا اب بھی وہ جو کچھ کرتا رہے گا اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ یہ سوچ بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک لے گئی‘ نواز شریف کو جیل لے گئی اور اب عمران خان بھی اپنے سیاسی مستقبل کو خطرات میں ڈال رہے ہیں۔
اب اسے مکافاتِ عمل یا کرما کہیں یا پاکستانی جمہوریت کا حسن کہ انہی عمران خان کی پٹیشنز پر پہلے 2012ء میں یوسف رضا گیلانی برطرف ہوئے پھر ان کی پانامہ پٹیشن پر 2017ء میں نواز شریف برطرف ہو کر جیل گئے۔ آج وہی عمران خان خود یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی طرح عدالت کے سامنے ملزم بن کر کٹہرے میں کھڑے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved