کبھی کبھی ایسی تصویر اور تحریر دیکھنے کو ملتی ہے جسے دیکھتے اور پڑھتے ہوئے ایک لرزہ سا طاری ہو جاتا ہے اور ان تکلیفوں کی وجوہات سامنے آجاتی ہیں جن کی وجہ سے کوئی فرد یا پورا معاشرہ نڈھال ہو کر کبھی کانپتا تو کبھی لڑکھڑاتا نظر آتا ہے۔ ملک بھر میں سیلاب کی سبب جو دردناک تباہی برپا ہوئی ہے اور جس طرح بے بسی اور بے کسی نے اپنے خونخوار جبڑوں میں مسکینوں اور غریبوں کو جکڑا ہوا ہے‘ اس پر کچھ عالم اور بہت سے حکمران یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تباہی اور بربادی اﷲ تعالیٰ کا عذاب ہے جو لوگوں کی اپنی وجہ سے ان پر نازل ہوا ہے‘ یہ ان کے اعمال کی سزا ہے۔ یہ کسی فلم یا ڈرامے کے ڈائیلاگ نہیں ہیں بلکہ ہمارے اپنے حکمران ان لوگوں کو‘ جو اپنے گھر بار اور اپنے پیاروں کو پانی کی تند و تیز لہروں کی نذر کرنے کے بعد کہیں سڑکوں تو کہیں دریائوں کے درمیان واقع پاٹ پر کھلے آسمان تلے پڑے ہیں‘ یہ بتا رہے ہیں کہ تمہاری مصیبتوں کا سبب تم خود ہو۔ ''عوامی نمائندوں‘‘ کی جانب سے سیلاب زدگان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ ہم سے کچھ مت مانگو ‘ہم جو تمہیں دیکھنے کیلئے آ گئے ہیں‘ اسے ہی کافی سمجھو! اب اگر یہ امیدیں لگا لو کہ جو کچھ دنیا بھر سے آ رہا ہے وہ بھی تم تک پہنچائیں گے تو تم سے بڑا بیوقوف اور کوئی نہیں۔ یہ مصیبت تمہاری اپنی وجہ سے‘ تمہاری بد ا عمالیوں کی وجہ سے قدرت نے نازل کی ہے اس لیے خواہ مخواہ شور مت مچائو اور چپ چاپ بیٹھے رہو۔ ہم جو تمہارے لیڈر اور تمہاری قسمت کے مالک ہیں‘ جنہیں تم ووٹ دیتے ہو جن کو تم مرنے کے برسوں بعد بھی زندہ رکھتے ہو‘ وہ اس آفت کے ذمہ دار نہیں ہیں۔
سیلاب زدگان سوال کرتے ہیں کہ ان کے وہ کون سے ا عمال تھے جن کی وجہ سے انہیں یہ سزا ملی۔ وہ سوال کناں ہے کہ ہمیں تو اپنے بچوں کیلئے ایک وقت کی روٹی کمانے ہی سے فرصت نہیں ملتی تھی تو ہم نے کون سے ایسے ناقابلِ معافی جرائم کرنے تھے جن کی اس قدر شدید سزا ملی کہ تمام عمر کی کمائی یکایک بہہ گئی؟ سیلاب زدگان کی یہ فریاد یقینا اس ربِ کریم کے ہاں بھی سنی جا رہی ہے جس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند اور جو نہ تھکتا ہے اور اس جیسا انصاف کرنے والا کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس رب کی عدالت میں جب ان سیلاب زدگان کا مقدمہ پیش کیا جائے گا تو یہ حکمران کیا جواب دیں گے‘ جن کا یہ فرضِ منصبی تھا کہ وہ سیلاب اور بارشوں کے پانی کی تباہ کاریوں سے اپنے عوام کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے‘ وہی عوام جن سے وہ ٹیکس وصول کرتے ہیں‘ جن کے نام پر وہ دنیا بھر سے اربوں ڈالر وصول کرتے ہیں‘جو ان کو گرمی اورسردی میں لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر ووٹ دینے کے بعد اپنا حاکم چنتے ہیں۔ عنقریب ہم سب کو اپنے اپنے اعمال کا حساب دینے کیلئے اس رب کے حضور پیش ہونا ہے اور اس وقت کسی کو بھی اس عدالت کی حاضری سے بچنے کیلئے ادھرادھر بھاگنے کا موقع نہیں ملے گا۔ کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک‘ ہم کہیں بھی چھپ نہ سکیں گے اور نہ ہی ہمیں کسی دوسری ریاست میں پناہ ملنے کی گنجائش مل پائے گی کیونکہ اس روز تمام جہانوں کا شہنشاہ وہ ایک‘ اکیلا رب عدالت لگائے ہوا ہو گا اور ہم سب کو اس کے حضور کھڑا ہونا پڑے گا۔ سوچئے جو جان بوجھ کراپنی فصلیں‘ اپنے باغات یا اپنے حامیوں کو بچانے کیلئے نہریں یا بند توڑ کر غریبوں کی بستیوں کی بستیاں ڈبو دیتے ہیں‘ ان کے پاس اس روز کیا جواب ہو گا اور اس روز‘ جب کسی پر نہ تو کوئی ظلم کیا جائے گااور نہ کسی کی حق تلفی کی جائے گی‘ رب کی عدالت کا فیصلہ کیا ہو گا۔ اس دن کے بارے میں فرمایا گیا کہ '' ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک (فرشتہ) لانے والا ہو گا اور ایک گواہی دینے والا‘‘۔ ( سورہ ق: 21)
بحیثیت مسلمان ہم سب کا آخرت پر ایمان تو ہے، ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہم سب کو خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے لیکن اس روز کے لیے ہماری کیا تیاری ہے‘ یہ ہم میں سے بیشتر افراد کی فکر کا محور نہیں۔ کم از کم یہی جان لیجیے کہ اس روز کیسا منظر ہو گا۔ ابھی سے اس پیشی کے مناظر کو ذہن میں بٹھا لیجئے جب ہم سب کے اعمال کی فائلیں پیش ہوں گی۔ قرآن مجید میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت 13 میں ارشادِ ربانی ہے ''اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بہ صورت کتاب) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے روز (وہ) کتاب اسے نکال کر دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا‘‘۔ اس روز سب کو پتا چل جائے گا کہ یہ سیلاب کس کس نے جان بوجھ کر غریبوں کی بستیوں کی جانب دھکیلا۔ کس نے حکومت اور اقتدار کے مزے لوٹے، قوم کے ٹیکس کے پیسوں اور ملک کے خزانوں پر عیاشی کی‘ اپنی جیبیں بھی بھریں مگر سیلابی پانی کو روکنے کیلئے کوئی حکمتِ عملی نہیں بنائی، مضبوط بند نہیں بنائے اور عوامی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی رقم کھا پی لی۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ کی عدالت میں کسی پر کوئی ظلم اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی یا ناانصافی نہیں ہو گی کہ اس کا وعدہ ہے کہ ''ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے‘‘ ( سورۃ ق: 29)، لہٰذا کوئی بھی اس روز اپنے اعمال سے انکار نہیں کر سکے گا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس روز کوئی حیلہ گری اسے بچا لے گی تو یہ نہیں ہو سکے گا کیونکہ پروردگارِ عالم نے ہم سب کو پہلے سے ہی قرآنِ پاک کے ذریعے بتا رکھا ہے کہ اس دن تمہارے دفاع کیلئے کوئی نہیں ہو گا، فرمایا: ''(کہا جائے گا کہ) اپنی کتاب پڑھ لے، تو آج اپنا آپ ہی محاسب کافی ہے‘‘ ( سورہ بنی اسرائیل:14)۔
دنیا میں کسی طاقتور اور امیر شخص پر کوئی کیس ہو جائے‘ اول تو وہ مدعی کے ساتھ مک مکا کرنے کی کوشش کرے گا، ایسا نہ ہو سکے تو پولیس پر پریشر ڈالنے کی کوشش کرے گا کہ کیس کو کسی طرح نمٹایا جا سکے، ایسا بھی نہ ہو سکے تو پھر مہنگے وکیل کرتا ہے‘ قانونی موشگافیاں تلاش کرتا ہے تاکہ ہر ممکن طریقے سے اور تمام دستیاب وسائل کے بل بوتے پر اپنا بہتر دفاع کر سکے۔ اس کے لیے کبھی وہ کسی کی مٹھی گرم کرتا ہے‘ کبھی کسی کو چائے پانی دیتا ہے۔ الغرض اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جتنا بھی پیسہ خرچ ہو جائے‘ کسی طرح وہ ان کیسز سے باہر نکل آئے۔ بنیادی طور پر یہ انسان کی فطرت ہے کہ جیسے ہی اس کے پاس چار پیسے آتے ہیں‘ وہ خود کو دنیا کا طاقتور ترین فرد سمجھنے لگتا ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں طاقتور امرا خود کو قانون سے ماورا سمجھتے ہی نظر آتے ہیں مگر ایسی سوچ رکھنے والوں کو رب کریم نے پہلے ہی سے وارننگ دے رکھی ہے ''اُس دن مال ہی کچھ فائدہ دے سکے گا اور نہ ہی بیٹے‘‘ (سورۃ الشعراء: 88)۔ اہلِ وطن کو لوٹ لوٹ کر لندن، دبئی، پیرس، قطر اور امریکہ سمیت دنیا کے ہر ملک میں جائیدادیں بنانے کا کیا فائدہ کہ جب اس حتمی عدالت میں نہ تو یہ مال کام آئے گا اور نہ ہی کسی بڑے سے بڑے ملک اور سپر پاور کی سفارش اور دھمکی۔
رب کریم کی شان دیکھئے اور اس کا حساب اور انصاف دیکھئے کہ اس نے یہ بھی آگاہ کر دیا ہے کہ جیسے دنیا میں بڑے بڑے مجرم اور چالباز سزا سے بچ نکلنے کے سو حیلے تلاش کر لیتے ہیں۔ اس عارضی زندگی میں کروڑوں اور اربوں کے پلاٹ اورپلازے بطور رشوت دے کر اپنے کسی ہم نام کو کیس میں پھنسا دیتے ہیں تو اس عدالت میں ایسے کچھ نہیں ہو گا۔ اس روز ناموں میں بھی کوئی تشابہ نہیں ہو گا کیونکہ ''تمہارا رب بھولنے والا نہیں‘‘( سورہ مریم: 64) اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عدالت میں کسی فیصلے کو نہ تو محفوظ رکھا جائے گا اور نہ ہی کسی ملزم کی عدم موجودگی میں اس کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا۔ قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے کہ ''سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کیے جائیں گے‘‘( سورۃ یٰسین:32)۔ اس روز وہ اعمال بھی انسان کے سامنے رکھ دیے جائیں گے جن کو انسان بھول چکا ہو گا اور جن کے بارے میں وہ گمان کرتا ہو گا کہ ان کی تو اس سے پوچھ ہی نہیں ہو گی۔ چھوٹے سے چھوٹا ظلم اور بڑے سے بڑے گناہ، انسان کے ہر عمل کی فائل اس دن اس کے سامنے ہو گی اور سب کے اعمال تولنے کا باریک پیمانہ ہو گا، فرمایا: ''اللہ کو وہ سب (کام) یاد ہیں اور یہ ان کو بھول گئے ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے‘‘۔(سورۃ المجادلہ: 6) کیا ہم اس دن‘ اس عدالت کی پیشی بھگتنے کے لیے تیار ہیں جب ہر کسی کے تمام اعمال کی فائلیں خدا کے حضور پیش ہوں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved