تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     09-09-2022

یومِ دفاع سے یومِ فتح تک

''جس رفتار سے پاکستان کی فوج کشمیر میں آگے بڑھ رہی ہے‘ اس طرح تو یہ لوگ چند دنوں میں دہلی پہنچ جائیں گے‘‘۔ یہ الفاظ کسی عام شخص کے نہیں بلکہ پاکستان میں تعینات امریکی سفارت خانے کے سیاسی اتاشی کے ہیں جو موصوف نے بھارتی آرمی کی صاف نظر آتی شکست کو دیکھ کر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے دفتر میں کہے تھے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس راز سے پردہ اٹھانے والا بھی کوئی عام شخص نہیں بلکہ عالمی شہرت یافتہ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان صاحب ہیں۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ہم 1965ء کی جنگِ ستمبر کی بات کر رہے ہیں۔ شمشاد خان مزید انکشافات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نہ صرف امریکہ کی جانب سے سخت ترین الفاظ میں پاکستان آرمی کی پیش قدمی کو فوری طور پر روکنے کیلئے سخت دبائو ڈالا گیا بلکہ اس کام کو سرانجام دینے کیلئے دو اہم ترین افراد بھی پاکستان آئے تھے۔ یہ دو افراد امریکی وزیر خارجہ اور برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ تھے۔ ان دونوں عالمی طاقتوں کا ایک ہی مطالبہ تھا اور وہ دونوں طاقتیں اس کو منوانے میں کامیاب بھی رہیں۔ ان دونوں سے پہلے چین کے ایک جنگی ہیرو Chen Yi‘ جو چین کے وزیر خارجہ بھی رہے ہیں‘ پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرکے انہوں نے کشمیر سے متعلق اہم معلومات فراہم کی تھیں۔ یہ چین کے وہی جنرل تھے جنہوں نے تین سال قبل 1962ء کی چین‘ بھارت جنگ میں بھارت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی اب سب کے سامنے ہے کہ 1962ء میں چین نے بھارت کے خلاف اپنی جنگ کے دوران پاکستان کو بھی دعوت دی تھی کہ ہم نے بھارت کو گردن سے پکڑا ہوا ہے‘ اگر آپ اس وقت کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو یہ ایشو نمٹ سکتا ہے۔ صدر ایوب کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت میں یہ سارا واقعہ بیان کیا ہے کہ کس طرح بھارت پر حملہ کرنے کے بعد آدھی رات کو چین نے پاکستان کو اس جنگ کی اطلاع دی اور پاکستان کو آفر دی مگر امریکہ کی بعض یقین دہانیوں اور ''چینی جنگ‘‘ میں شمولیت سے امریکہ کی ناراضی کے پیشِ نظر صدر ایوب نے یہ موقع ضائع کر دیا۔ اس وقت کی مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی مرضی نہیں تھی کہ ایسا کوئی بھی کام ہو۔ اس کے بعد جب 1965ء میں پاکستان کی فوج‘ جس کی تعداد بھارت کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم تھی‘ نے بھارت کو روندنا شروع کیا توبھی امریکہ اور برطانیہ کی اہم شخصیات نے وعدہ کیا کہ وہ کشمیر کا جھگڑا جلد ختم کرا دیں گی۔ باقی سب آپ کے سامنے ہے۔
اب یہ مسند ترین حوالہ جات میں نے اس لیے آپ کے سامنے رکھے کہ باقی دنیا کو چھوڑیں‘ پاکستان کے اندر بھی اب ایک طبقہ ایسا پایا جاتا ہے جو یہ باور کرانے اور نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کو کوئی فتح نہیں ملی تھی‘ یہ جنگ برابری کی بنیاد پرختم ہوئی تھی بلکہ پاکستان نے اپنا کافی علاقہ کھو دیا تھا۔ یہ سب پروپیگنڈا ہے‘ جو جنگ کے کئی دہائیوں بعد ایک منظم انداز سے شروع ہوا۔ یہ لوگ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ یہ جنگ بھارت کی حال دہائی پر مغربی طاقتوں نے ختم کرائی تھی اور بھارت کے وہ علاقے‘ جہاں سے بھارت فوج شکست کھا کر بھاگ چکی تھی‘ بھارت کو واپس کرا دیے گئے تھے۔ بدقسمتی سے یہ الفاظ موجودہ ایک اہم وزیر صاحب نے اپنی قومی اسمبلی کی ایک تقریر میں بھی کہے تھے، جس میں موصوف نے فرمایا تھا کہ ہم نے خود ساختہ جیت کا اعلان کیا تھا۔ اس قسم کے الفاظ بہت سارے لکھنے اور بولنے والے اب بھی استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ اب میں یہاں ایک استاداور ایک محقق کے طور پر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ ایسا کون سا صحیفہ یا دستاویز لائوں کہ ان مٹھی بھر خود ساختہ دانشوروں کی سمجھ میں یہ بات آ سکے کہ اصل میں جیت پاک آرمی یعنی پاکستان کی ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں ایک آسٹریلوی اخبار آج بھی گواہی دیتا نظر آتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد‘ چونڈہ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی میں پاکستان کو فتح ملی تھی۔ لیکن اس بات کا ایک رخ اور بھی ہے، اس جنگ سے تین سال پہلے ہی بھارت چین کے ہاتھوں‘ جس کی عسکری استعداد بھارت ہی کے برابر تھی اور جو اس وقت ایک ترقی پذیر ملک تھا‘ چاروں شانے چت ہونے کے علاوہ اپنے زیرِ قبضہ بہت سے علاقے بھی گنوا بیٹھا تھا۔ بھارت نواز عالمی طاقتیں یہ نہیں چاہتی تھیں کہ بھارت کی اس ذلت بھری شکست کا چرچا تو درکنا‘ کہیں ذکر بھی ہو‘ اس لیے اس بات کو پوری طرح دبا دیا گیا۔ آج کی طرح‘ اُس وقت بھی عالمی میڈیا مغرب ہی کے تابع تھا۔ واضح رہے بھارت 1962ء کی جنگ میں اپنی شکست کے نتیجے میں لداخ کا ایک بڑا حصہ چین کے قبضے میں دے چکا ہے ۔ چین اس علاقے کو ایک نیا نام دے چکا ہے اور اب اس کو اقصائے چن کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دو چھوٹے علاقے Dem Chong اور Gem Chong بھی چین کے قبضے میں ہیں۔ مزید یہ کہ لداخ کے اسی علاقے میں متعدد بار بھارتی فوج کی پیپلز لبریشن آرمی کے ہاتھوں پٹائی ہو چکی ہے۔ میں نے لفظ 'پٹائی‘ اس لیے لکھا ہے کیونکہ چین کی فوج بھارتی فوج کو لاتوں، مکوں اور گھونسوں یا زیادہ سے زیادہ لاٹھیوں سے مار کر بھگا دیتی ہے۔ واضح رہے کہ ایک معاہدے کے تحت 'ایل اے سی‘ پر تعینات بھارت اور چین کے فوجیوں پر ہتھیار رکھنے کی پابندی ہے۔ اسی طرح بھارت کے شمال مغرب میں واقع اروناچل پردیش کے علاقے پر بھی نہ صرف چین دعویٰ کرتا ہے بلکہ اب تو اس ریاست کے اندر وہ کئی گائوں نما رہائشی علاقے بھی آباد کر چکا ہے۔
واپس آتے ہیں پاک بھارت جنگ کی طرف‘ تو پہلا قابلِ ذکر نکتہ یہ ہے کہ اس جنگ کی تفصیل جب کتابوں میں لکھی جاتی ہے تو شمشاد صاحب کے پیش کردہ شواہد کے مطابق عالمی طاقتوں کی بھارت نواز مداخلت کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟ اب یہاں پر پھر اسی لابی کا ذکر کرنا پڑتا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں مطالعہ پاکستان کے نصاب پر اعتراض کرتی رہتی ہے بلکہ پہلے اعتراض خود گھڑتی ہے اور پھر ایک منظم انداز سے اسے پیش کرتی ہے۔ اس جنگ سے متعلق عالمی اشاعتوں میں شائع شدہ ان علاقوں کے نام اور نقشوں کو جاننا ہو جہاں تک پاک آرمی اور مقامی آزادی پسند بھارتی آرمی کو پسپا کر کے پہنچ گئے تھے‘ تو یہ سمجھ لیں کہ آپ ایک سڑک پر بیس سے تیس کلومیٹر آگے بڑھتے جا رہے ہیں‘ اس کے علاوہ دائیں اور بائیں کے ستر سے اسّی کلومیٹر کا علاقہ بھی آپ کی دسترس میں آتا جا رہا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے کہ جو پاک آرمی نے مقبوضہ کشمیر میں صرف ایک محاذ پر زیرِ قبضہ لیا تھا۔ اور یہ بات میں ایک جیو گرافر ہونے کے ناتے پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ اس کھوج کی تفصیل پھر سہی۔ لیکن اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا علاقہ تھا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ کشمیر کی آزادی کی یہ دوسری بڑی کوشش تھی۔ آزادی کا لفظ اس لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ انگریز کے طے کردہ اصول کے مطابق ریاستوں کے مقدر کا فیصلہ عوام کی مرضی سے ہونا تھا کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ بھارت نے جونا گڑھ اور مناودر کی ریاستوں میں صرف اس لیے ریفرنڈم کرا دیا تھا کہ وہاں کی اکثریتی آبادی ہندو تھی اور اس نام نہاد ریفرنڈم کی بنیاد پر ہی اس نے ان دو ریاستوں کو اپنے اندر ضم کر لیا تھا۔ اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حملہ رات کے اندھیرے میں بھارت نے کیا تھا جو ایک جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔ پاکستان نے صرف اپنا دفاع اور کشمیر کو آزاد کرانے کی کوشش کی تھی ۔آخری گزارش یہ ہے کہ ستمبر کے مہینے میں یوم دفاع اور یوم فضائیہ کے ساتھ ساتھ یوم فتح بھی منایا جانا چاہیے۔ اس کیلئے آپ جنگوں کی فتح کا کوئی بھی عالمی معیار طے کر لیں‘ فتح پاکستان ہی کی بنتی ہے‘ لہٰذا یو م فتح کا ذکر کہیں نہ کہیں ضرور ہونا چاہیے۔ اس کیلئے بے شمار بھارتی لکھاریوں کے حوالے بھی مل جائیں گے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو آٹھ ستمبر کو یومِ خواندگی کے طور پر منایاجا رہا ہے اور میں نے قارئین کو ملکی تاریخ کی ایک جنگ سے متعلق خواندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved