تقریباً تمام انسانوں کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ جنہیں ترکے میں بہت کچھ ملا ہو وہ بھی کچھ نہ کچھ کرتے ہیں تاکہ مصروف رہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ذہن الجھتا چلا جاتا ہے۔ معاشی سرگرمی انسانی مزاج میں گوندھ دی گئی ہے۔
کوئی بھی انسان ہمہ وقت فارغ نہیں بیٹھ سکتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے وجود پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ آپ کے مشاہدے میں بھی یہ بات آئی ہوگی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بہت سوں کی زندگی ایسی ہو جاتی ہے جیسے نچوڑا ہوا لیموں۔ ریٹائرمنٹ زندگی کا سارا رس نچوڑ لیتی ہے۔ کیوں؟ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بیشتر نے ریٹائرمنٹ کے بعدکچھ کرنے کی منصوبہ سازی ہی نہیں کی ہوتی۔ اُن کے ذہن میں اُس زندگی کا کوئی واضح تصور ہی نہیں ہوتا جو ریٹائرمنٹ کے بعد بسر کرنا ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب ملازمت ختم ہوتی ہے اور گھر بیٹھنا پڑتا ہے تب زندگی میں کچھ رونق باقی نہیں رہتی۔ یہ قصہ تو ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کا ہے۔ سرِدست مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں نوجوانوں کی اکثریت معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے اتنی بھی سنجیدہ نہیں جتنا کم از کم ہونا چاہیے۔ جب سنجیدگی ہی نہیں ہوگی تو کام کرنے کی لگن کہاں سے پیدا ہوگی؟ یہ سنجیدگی ہی تو ہے جو انسان کو کچھ سیکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ عملی زندگی لاپروائی کے انداز سے شروع نہیں کی جاسکتی۔ جو نوجوان ایسا کرتے ہیں وہ تادیر بھٹکتے پھرتے ہیں۔ زندگی کا ہر معاملہ منصوبہ سازی اور نظم و ضبط کا طالب ہے۔ پھر بھلا کیریئر جیسا معاملہ کیونکر لاپروائی کی نذر کیا جاسکتا ہے؟
ہماری نئی نسل بھی دیگر معاشروں کی نئی نسل کی طرح جذباتی ہے اور زندگی کے تلخ حقائق کو سمجھے بغیر ہم بہت کچھ راتوں رات حاصل کرنے کی تمنائی ہیں۔ بہت تیزی سے بھرپور، قابلِ رشک اور تسلی بخش کامیابی تو کامیاب و خوشحال معاشروں میں بھی ممکن نہیں۔ پھر بھلا پاکستان جیسے معاشروں میں ایسا کیونکر ممکن ہے؟ وقت نے ایسی کروٹ لی ہے کہ بہت کچھ سمجھ میں آنے پر بھی 'ناسمجھا‘ رہ جاتا ہے۔ ایک طرف تو معاملات سمجھ میں نہیں آتے اور دوسری طرف ہم ہار ماننے میں دیر نہیں لگاتے۔ مشکل یہ ہے کہ آج کے انسان میں سمجھنے، سوچنے اور محنت کرنے کا مزاج ہی نہیں رہا۔ بہت سوں کو کچھ زیادہ کیے بغیر ہی بہت کچھ پاتے ہوئے دیکھنا عام آدمی کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوتا ہے۔ اِس بھیڑ چال، چھینا جھپٹی اور یکسر غیر اخلاقی نوعیت کی مسابقت کے زمانے میں لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ مال کس طور بہت تیزی سے آئے گا۔ دوسرے کسی بھی معاملے کی کچھ قدر نہیں رہی۔ اکثریت کو اس بات کی پروا نہیں رہی کہ بہت کچھ پانے کے عمل میں عزت باقی رہتی ہے، گھر کا سکون سلامت رہتا ہے یا نہیں۔ سب مال کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ عملی زندگی کو صرف مال کے حصول کا طریقہ اور ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ عام آدمی کی نظر میں عملی زندگی صرف یہ ہے کہ گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے کچھ پانے کی جدوجہد کی جائے۔ یہ عملی زندگی کا صرف ایک پہلو ہے۔ وجود کی مجموعی تسکین کے بارے میں سوچنے والے خال خال ہیں۔
پاکستان کی نئی نسل حالات سے پریشان ہے اور بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ نئی نسل میں مایوسی بھی ہے مگر ایسا نہیں کہ وہ حوصلہ ہار بیٹھی ہے۔ نوجوانوں میں بہت کچھ کر گزرنے کا عزم پایا جاتا ہے مگر اُنہیں درست راہ نہیں مل پاتی۔ منصوبہ سازی کا فقدان ہے۔ جو عملی زندگی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں وہ کسی کو کچھ سکھانے کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں۔ معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ جیسے تیسے وقت گزاریے، جو تھوڑا بہت ہوسکتا ہے وہ کیجیے اور سکون کا سانس لیجیے۔ اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے پر متوجہ ہونے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ جنہیں عملی زندگی شروع کیے ہوئے دو ڈھائی عشرے ہوچکے ہوں وہ نئی نسل کو بہت کچھ سکھا سکتے ہیں مگر سکھاتے نہیں۔ اِسے بے دِلی اور بے حِسی بھی کہا جاسکتا ہے اور انتہا کی لاپروائی بھی۔ کسی اور کا تو کیا سوچا جائے گا، لوگ اپنے بچوں کو بھی عملی زندگی کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں۔ یہ دو چار گھرانوں کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک زمانے سے ہمارے نوجوان عملی زندگی کی ابتدا واضح منصوبہ بندی کے بغیر کرتے آ رہے ہیں۔ ایک دور تھا کہ سبھی نوجوان کالج کی سطح پر ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ پھر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹ اور بزنس ایڈمنسٹریشن ایکسپرٹ بننے کا کریز شروع ہوا۔ آئی ٹی کا دور آیا تو سبھی سوفٹ ویئر انجینئر اور ویب ڈیزائنر بننے کے خواب دیکھنے لگے۔ یہ سب کچھ بھیڑ چال کے سبب تھا۔ انداز ضرور تھوڑا سا بدل گیا ہے؛ تاہم دوسروں کو دیکھ کر کچھ بننے کا رجحان اب تک جاری ہے۔ آج بھی لوگ جسے زیادہ کماتا دیکھتے ہیں اُس کے شعبے میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ چار پانچ سال سے ملک بھر میں آن لائن خریداری کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے اور اب تک پروان چڑھ رہا ہے۔ کووِڈ کے زمانے میں آن لائن خریداری کچھ زیادہ ہوگئی تھی۔ بہت سوں نے تھوڑا بہت سامان خرید کر آن لائن بیچنا شروع کردیا۔ جب کام چل نکلا تو لوگوں نے بڑھکیں مارنا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے افراد نے یہ کام شروع کردیا۔ اِس سے اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا، اِتنا ضرور ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اِس شعبے میں کام کرنے والے بہت زیادہ ہوگئے اور کمائی گھٹ گئی۔
کچھ ایسا ہی حال چند دوسرے شعبوں کا بھی ہوا ہے۔ آج کراچی کے متعدد علاقوں میں موبائل فونز کی مارکیٹیں موجود ہیں۔ بعض ایسے علاقوں میں بھی موبائل مارکیٹ پائی جاتی ہے جہاں کچھ زیادہ گنجائش نہیں۔ مسابقت بہت زیادہ ہے، کمائی کم ہے کیونکہ مارجن کچھ خاص نہیں۔ ایسے میں فریب کاری بڑھ گئی ہے۔ لوگ اپنی لاگت نکالنے کے لیے سارے داؤ پیچ اور پینترے آزماتے ہیں۔ نئی نسل کو عمومی عملی زندگی اور کیریئر کا فرق سمجھانے کی ضرورت ہے۔ عمومی عملی زندگی کا مطلب ہے گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے کچھ بھی کرنا، جیسے تیسے کمانا۔ یہ کام ناخواندہ اور بے ہنر افراد کرتے ہیں۔ اگر کسی نے کالج یا یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم پائی ہے اور تھوڑی بہت پیشہ ورانہ تربیت بھی حاصل کی ہے تو اُسے محض کمانے سے زیادہ کیریئر بنانے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ کیریئر یعنی کسی خاص شعبے میں آگے بڑھنا، کسی بلند مقام تک پہنچنا۔ کیریئر کے حوالے سے سوچ اُسی وقت پروان چڑھتی ہے جب نوجوانوں کو عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ڈھنگ سے بتایا جائے، اُن کے اشکالات دور کیے جائیں، اُنہیں وہ راہ دکھائی جائے جس پر چل کر وہ کچھ کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس معاملے میں تحمل اور نظم و ضبط کی بہت اہمیت ہے۔ نئی نسل میں جذباتیت اچھی خاصی ہوتی ہے۔ جذباتیت بعض معاملات میں نیک شگون بھی ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ متعلقہ تیاریاں کرلی گئی ہوں۔ عمومی سطح پر جذباتیت صرف نقصان پہنچاتی ہے کیونکہ غیر ضروری حد تک بڑھے ہوئے جذبات انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی راہ پر آگے نہیں بڑھنے دیتے اور ایسے میں بعض غلط فیصلوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ عملی زندگی کو زیادہ بارآور بنانے کے لیے نئی نسل کو یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ محض دولت کا حصول سب کچھ نہیں۔ گزر بسر کے لیے جو کچھ بھی کیا جائے وہ ایسا ہونا چاہیے کہ جی کو بھائے۔ اگر انسان اپنی مرضی کے کام کو عملی زندگی کا بنیادی ستون بنائے تو کام کرنے میں جی لگتا ہے اور جو کچھ کمایا جاتا ہے اُسے خرچ کرتے ہوئے بھی فرحت محسوس ہوتی ہے۔
ہر گھر کا معاشی بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں زیادہ کمانے کی ضرورت ہے۔ اِس کے لیے منصوبہ سازی کی جانی چاہیے۔ نئی نسل کو عملی زندگی کے لیے تیار کرتے وقت یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ اُنہیں پسند کا کام کرنے پر مائل کیا جائے اور کمائی کو ڈھنگ سے خرچ کرنے کی تحریک بھی دی جائے۔ عملی زندگی میں متحرک ہونے کے لیے دیکھا دیکھی کا بخار دل و دماغ پر سوار نہیں ہونا چاہیے۔ کسی کو زیادہ کماتے دیکھ کر اُس کے شعبے میں قدم رکھنے سے پہلے تمام متعلقہ امور کے بارے میں اچھی طرح جان لینا چاہیے۔ ممکن ہے معاملات کچھ ہوں اور دکھائی کچھ اور دے رہے ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved